ہندوستان میں پاکستانی صحافت کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ ویسے تو ہندوستانیوں کی عادت ہے پاکستان کے مذاق اڑانے کی، لیکن دو باتوں میں ہندوستانیوں کا مذاق وزنی لگتا ہے۔ ایک جب پاکستانی کہتے ہیں کہ ’’اگر ہندوستان نے پاکستان کی طرف میلی نظر سے دیکھا تو……!‘‘ ہندوستانی میڈیا میں اس قسم کے مکالموں کا بہت مذاق اُڑتا ہے۔ کوئی کہتا ہے: ’’گلے لگ کر کپڑے گندے کرلیں گے‘‘، کوئی کہتا ہے: ’’آپ مانگنے سے فارغ ہوں گے، تو فیصلہ کریں گے کہ ہندوستان کی آنکھ میلی ہے یا آپ کی اپنی۔‘‘ یہ ہندوستانی مذاق کے نمونے ہوں گے، مگر ایک طرح سے ہمارے حالات پر طنز بھی تو ہیں۔ ہندوستان کو جواب دینے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی حالت بہتر بنالیں۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
دوسرا مذاق وہ یہ کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ’’ٹکٹ بکنگ‘‘ ہوتی ہے۔ پاکستان میں ’’نیوز بکنگ‘‘ ہوتی ہے۔ ’’یونیورسٹی روڑ پر دھماکے کی آواز…… خوف ناک دھماکے کی اطلاع…… اطلاعات آ رہی ہیں……!‘‘ بعد میں خبر چلتی ہے ’’دھماکا ٹائر پھٹنے کی وجہ سے ہوا۔‘‘ نہ صحافی شرمندہ، نہ ناظرین و سامعین کو کوئی مسئلہ، اللہ اللہ خیر سلّا!
قارئین! ویسے غیر منقسم ہندوستان میں صحافت کی تاریخ اتنی بری نہیں۔ چھاپا خانے کی آمد سے پہلے بھی اخبار تھے، جو خوش نویس تحریر کرتے تھے۔ اعلا درجے کا ادب، شاعری، مستند خبریں، جان دار مضامین اور خون گرمانے والے اداریے متحدہ ہندوستانی صحافت کی پہچان رہے ہیں۔پہلا معلوم قلمی اخبار ’’اکٹا ڈیورنا‘‘ تھا، جو چھاپا خانے کی آمد تک کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہا۔
اس طرح برصغیر کے پہلے ایڈیٹر جیمز آگسٹس ہکی کا انگریزی روزنامہ ’’ہکی بنگال گزٹ‘‘ 1780ء میں شروع ہوا۔
صحافی ’’مولوی محمد باقر (شہید)‘‘ برصغیر کا پہلا شہید صحافی ہے۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ مولانا محمد حسین آزاد کے والد اور ’’دہلی اخبار‘‘ کے مدیر تھے۔ بعد ازاں مذکورہ اخبار کا نام تبدیل کرکے ’’دہلی اُردو اخبار‘‘ کر دیا گیا تھا۔ مولوی باقر 1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ یہ تھا صحافت کا معیار بہ یک وقت گفتار و کردار کے غازی……!
صحافت کا ذکر چھڑے اور سرسید احمد خان کے ’’سیدالاخبار‘‘ کا ذکر نہ ہو، تو زیادتی ہوگی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
صحافت کی مختصر تعریف
’’نان پروفیشنل‘‘ صحافت کے لیے خطرہ
روایتی میڈیا سے ڈیجیٹل میڈیا تک صحافت کا سفر
صحافت کا جنازہ نکالنے والوں کے نام
ہماری صحافت، بندر کے ہاتھ میں اُسترا
صحافت کل اور آج
اُردو کا پہلا اخبار کون سا تھا، اس بارے میں اختلاف ہے۔ اُردو کا سب سے پہلا اخبار ’’جامِ جہاں نما‘‘ کا ضمیمہ تھا، جو 27 مارچ 1823ء کو جاری ہوا اور پھر بند ہوکر دوبارہ 1825ء میں جاری ہوا۔ کچھ لوگوں کا دعوا ہے کہ ’’مراۃ الاخبار‘‘ اُردو کا پہلا اخبار ہے، جو 1821ء میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ اس طرح بعض لوگوں کا یہ دعوا ہے کہ اُردو کا پہلا اخبار ’’آگرہ اخبار‘‘ ہے، جو اکبر آباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا۔ اس ضمن میں ایک اور دعوا یہ بھی ہے کہ 1810ء میں کلکتہ سے کاظم علی نے ’’اُردو اخبار‘‘ کے نام سے اُردو صحافت کا آغاز کیا۔ اس طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے اُردو اخبار 1794ء میں جاری کیا۔ اُس کا نام فوجی اخبار رکھا گیا اور یہ عوام کے لیے نہیں بلکہ افسران، دربار کے معززین اور اہم لوگوں کے لیے تھا۔
یاد رہے کہ اُس وقت سرکاری زبان فارسی تھی۔ ناشر ہری دت اور ایڈیٹر سدا سکھ لعل کے اخبار کی مقبولیت اور اُس کے مضامین سے پیدا ہونے والے جوش اور ولولہ کے پیشِ نظر برطانوی حکومت کے اُس وقت کے چیف سیکریٹری ولیم ورلڈ وتھ بیلے نے ایک خفیہ فائل تیار کی تھی، جس میں ’’جامِ جہاں نما‘‘ پر کنٹرول اور سینسرشپ کی ہدایت تھی۔ ’’جامِ جہاں نما‘‘ ہی کی وجہ سے 1823ء میں پہلا پریس ایکٹ رائج ہوا۔
مولوی محمد باقر کے ’’دہلی اُردو اخبار‘‘ نے انگریزی سامراج کے خلاف قلمی جہاد کیا، وہیں ہندو مسلم اتحاد کا محرک بھی بنا۔ یہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں بند ہوا اور اس کی پاداش میں مولوی صاحب کو انگریزوں نے توپ سے باندھ کر اُڑا دیا۔
’’جامِ جہاں نما‘‘ دل چسپ اور دل فریب اخبار تھا، جس میں شیخ ابراہیم ذوقؔ، بہادر شاہ ظفرؔ، مرزا غالبؔ، حافظ غلام سول، مرزا محمد علی بخت مرزا، حیدر شکوہ اور مرزا نور الدین کا کلام شائع ہوتا تھا۔ ذوقؔ اور غالبؔ کی نوک جھونک کی خبریں بھی اس میں شامل ہوتیں…… مگر اس کا اصل مقصد انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا۔
اُردو کا ایک روزنامہ اخبار کلکتہ کا ’’اُردو گائیڈ‘‘ تھا، جسے مولوی قدیرالدین احمد خان نے 1858ء میں شروع کیا۔ اس کے بعد اُردو کا دوسرا روزنامہ 1875ء میں لاہور سے شروع ہوا جس کا نام ’’روزنامہ پنجاب‘‘ تھا۔ اسی دور میں لاہور سے ایک اخبار ’’رہبر ہند‘‘ بھی شروع ہوا۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘، ’’زمیندار‘‘، ’’منادی‘‘، ’’غریبوں کا اخبار‘‘، ’’وار وطن‘‘، ’’مخزن‘‘، ’’ہندوستان لاہور‘‘، ’’دیپک امرتسر‘‘، ’’دیش لاہور‘‘، ’’اردوئے معلی (کانپور)‘‘، ’’مسلم گزٹ (لکھنؤ)‘‘، ’’مدینہ (بجنور)‘‘، ’’ہمدم (لکھنؤ)‘‘ا ور ’’سوراج (اِلہ آباد)‘‘ نے عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت کل 415 اُردو اخبارات جن میں روزنامے، ہفت روزے اور ماہنامے شائع ہوتے تھے۔ تقسیم کے بعد ان میں سے 345 ہندوستان میں رہ گئے۔ 70 اخبارات کے مالکان اور مدیران پاکستان ہجرت کر آئے۔
قارئین! اس تحریر کا مطلب دراصل یہ واضح کرنا تھا کہ صحافت کی تاریخ باوجود سختیوں، پابندیوں اور رکاوٹوں کے بہت شان دار رہی۔ اب ہم دیکھتے ہیں صابر شاکر ٹائپ لوگوں کو اور پھر کینوس کو چھوٹا کرکے سوات کو فوکس کرتے ہیں۔ پہلا سوال جو بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ صحافت کیوں کی جا رہی ہے؟ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جیسے دواؤں، کریانے، نائی، لوہار، ہوٹل وغیرہ ہوتے ہیں، صحافت بھی ایسے ہی ہے…… مگر یہ قطعی ناقابلِ تسلیم جواب ہے۔ ایک صحافی معاشرے کا آئینہ، راہ نما، نبض شناس اور مشعلِ راہ ہوتا ہے۔ مگر جو صحافت سوات میں ہو رہی ہے، کیا اُس کا معیار قابلِ قبول ہے؟ جو بڑے نام صحافت میں اوپر آئے ہیں، سیکڑوں لکھنے سے رہ گئے ہیں، اُن کا مقابلہ یہ ہمارے ’’زید، عمر، بکر‘‘ کرسکتے ہیں؟
کچھ حقوق افراد کے ہوتے ہیں، کچھ حقوق معاشرے کے ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے کے ہر فرد کا حق ہے کہ اسے معیاری صحافت میسر ہو۔ اس لیے کہ صحافی معاشرے کا آئینہ ، رہنما، نبض شناس اور مشعلِ راہ ہوتا ہے۔ صحافی ہی راہ دکھاتا ہے۔ صحافی ہی تربیت کرتا ہے۔ تو یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے سے یہ حق چھینا جا رہا ہے یا کما حقہ مل رہا ہے؟ توپ کے آگے بندھے ہوئے ہیں صحافی کہ اُڑائے جائیں…… یا کسی کے قدموں میں پڑے ہیں کہ کچھ مل جائے؟ یہ بہت اہم معاشرتی سوال ہے۔
بدقسمتی سے میڈیا مقصدیت سے نکل کر کارپوریٹ ٹائپ ہوگیا ہے۔ مشن اور مقصد کی جگہ صحافت روزگار بن گئی ہے۔ ہم کسی ایک فرد یا ادارے کو ایسے حالات میں موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے، مگر کم از کم یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ صحافت میں ’’اتائی ٹائپ صحافیوں‘‘ کو ختم کیا جائے۔ مائیک لے کر گلی گلی گھومنے والوں کے لیے کوئی ضابطہ ہونا چاہیے۔ صحافی کے لیے کوئی بنیادی معیار ہونا چاہیے۔ صحافی کے لیے اہلیت و قابلیت کا کوئی پیمانہ مقرر ہونا چاہیے۔ یہ معاشرے کا بھی فرض ہے، سول سوسائٹی کا بھی،وکلا کا بھی اور جینون صحافیوں کا بھی کہ وہ معیاری صحافت پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس بارے میں ضلعی انتظامیہ ، صوبائی و مرکزی حکومتیں قانون سازی کریں، تاکہ معاشرہ اتائیوں سے بچے اور صحیح رہنمائی ممکن ہو۔
تمام جینون صحافیوں اور اتائیوں سے معذرت کے ساتھ
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
نوٹ:۔ اس تحریر میں ’’وکی پیڈیا‘‘، تحقیقی مقالہ ’’برصغیر میں اُردو صحافت کی ابتدا‘‘، ’’اردو صحافت‘‘ (ریختہ ڈاٹ اُو آر جی)، ’’اُردو صحافت‘‘ (وکی پیڈیا) سے مدد لی گئی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔