بات انتہائی سادہ سی ہے۔ آپ کو اپنے خرچ کے لیے گُڑ کی دو ڈلیاں چاہیے ہوں…… اور آپ کے پاس گُڑ کی ایک پوری بوری پڑی ہو۔
سونے پہ سہاگا یہ کہ اس بوری کے علاوہ بھی آپ کو کوئی کہے کہ نہیں آپ دو بوریاں اور خرید لیں، تو یقینا آپ وہ دو بوریا ں نہیں لیں گے کہ آپ کے پاس تو پہلے ہی گُڑ ضرورت سے زیادہ موجود ہے۔
سید شاہد عباس کاظمی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/said-shahid-abbas-kazmi/
کچھ ایسا ہی معاملہ اِس وقت حکومت اور کسانوں کے درمیان درپیش ہے۔ دست یاب معلومات کے مطابق صوبہ پنجاب جو گندم کی پیداوار اور استعمال کے حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر صوبے کے پاس 23 لاکھ ٹن گندم موجود ہو، اور یہ اس کی ضرورت سے بھی زیادہ ہو، تو وہ کسانوں سے گندم کیسے خریدے گا…… اور کس طرح سرکاری نرخ یعنی 3900 روپے فی من پہ گندم کی خریداری ممکن ہو سکے گی۔ یہ مسئلۂ فیثا غورث ہے، جس کے لیے عاقل دماغ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور حل نکالنے کی کوشش میں ہیں۔
ہم کل تک ہمسایہ ملک کے کسانوں کی ٹریکٹر ریلی اور احتجاج کو فخر سے بتاتے تھے اور آج اپنے ہاں وہی صورتِ حال درپیش ہے، تو ہمارے پاس انکوائریوں کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ ایک حل یہ ہو سکتا تھا کہ اضافی گندم کم از کم کسانوں سے خرید لی جاتی، لیکن یہاں بھی ایک المیہ ہمارا ہر سال منتظر ہوتا ہے کہ ہمارے پاس گندم کو ذخیرہ کرنے کے لیے گودام ہی موجود نہیں۔ چیچہ وطنی بیلٹ پہ ہمیں گندم کھلے آسمان کے نیچے ترپال ڈال کر محفوظ کرنا پڑتی ہے۔ ایسے ذخائر کا حال ہم نے سیلاب اور بارشوں میں دیکھ لیا کہ کیا ہوا ہے؟
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پنجاب کے وزیرِ خوراک کے مطابق حکومت ہر سال اگر 40 لاکھ ٹن گندم کا حصول ممکن بناتی ہے، تو اس سال یہ حد 20 لاکھ ٹن تک رہے گی۔ جب کہ وفاق جو 20 لاکھ ٹن خریدتا ہے، اس حوالے سے بھی صورتِ حال غیر یقینی ہے۔
اس پورے معاملے میں نجی شعبہ پوری طرح بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے۔ نجی شعبے کے پاس نہ صرف گندم خریدنے کی استطاعت موجود ہے، بلکہ اس کے پاس گندم کو محفوظ کرنے کے لیے سٹوریج بھی موجود ہے۔ یہ دونوں چیزیں حکومتی سطح پر مفقود ہیں۔ پیسا ہے، نہ گودام ہی ہیں۔
نجی شعبہ اس پوری صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گندم سستے داموں خرید کر سٹور کرلے گا اور جون جولائی کے بعد جب یہ موجودہ بمپر کراپ یا تو اونے پونے داموں کسان بیچ دے گا، یا پھر محفوظ نہ ہوسکنے پہ خرابی کا شکار ہوگی۔ تب نجی شعبہ گندم مارکیٹ میں ڈالے گا اور پھر اس کو مہنگے داموں بیچ کر منھ مانگا منافع کمائے گا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کسان رُل گئے
چھانگا مانگا، کچے پکے کے ڈاکو اور بے بس عوام
پنجاب، جعلی صحافیوں پر کریک ڈاون کا فیصلہ
ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور امریکی خفگی کی اصل وجوہات
اب اس پورے معاملے میں حکومت کہاں کھڑی ہے؟ حکومت نے جسٹس (ر) میاں مشتاق کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے جو نگران دور میں خریدی گئی اضافی گندم سکینڈل کی نہ صرف تحقیقات کرے گی، بلکہ ذمے داروں کا تعین بھی کرے گی۔ پاکستان میں یہ تحقیقات کیسے ہوتی ہیں؟ اس کا سب کو بہ خوبی علم ہے…… اور جب تک یہ تحقیقات ہوں گی، تب تک اگلی دفعہ گندم کاشت کرنے کی باری آجائے گی۔ اور تھکا ہارا، حالات کا ستایا ہوا کسان حکومتی رویے سے تنگ آ کر اگلی دفعہ کیوں کہ گندم کی کاشت کی طرف جائے گا ہی نہیں، اس لیے ایک نیا بحران پاکستان کا منتظر ہو گا…… اور ہم تب تک ’’تحقیقات تحقیقات‘‘ ہی کھیل رہے ہوں گے…… اور تحقیقات ہوں گی بھی، تو کیا ہوگا؟
نگران سیٹ اَپ میں شامل افراد ہی اگر اس موجودہ حکومت میں موجود ہوئے، تو کارروائی کس کے خلاف ہوگی اور ذمے داری کس پہ ڈالی جائے گی؟
المیہ دیکھیں کہ ہم نگران حکومت کو تو رو رہے ہیں، لیکن مارچ 2024ء تک گندم کی برآمد جاری رہی اور ایک اندازے کے مطابق مارچ 2024ء میں 57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے کی گندم برآمد کی گئی۔
کسان پریشان ہوگا، تو یقینی طور پر یہ پاکستان کی زراعت کو ایک دھچکا ہوگا۔ فی من پیداوار حاصل کرنے کے لیے اگر اخراجات 5 ہزار سے بھی اوپر ہوں گے اور فی من قیمت اگر صرف 3900روپے ہوگی، تو کسان اگلی فصل کیسے کاشت کرے گا اور اس فصل کا خرچ کیسے پورا کرے گا۔ بچوں کی شادی، اُن کی تعلیم، گھر کی تعمیر، خاندان کی فلاح، قرض کی ادائی، جیسے معاملات کسان کے فصل سے منسلک ہوتے ہیں۔ اس بارے میں ہم سوچنا گوارا نہیں کر رہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ گندم کی یہ امدادی قیمت بھی پوری نہیں مل رہی اور اس وقت گندم 3000 سے 3600 روپے فی من آسانی سے دست یاب ہے۔ بڑا زمین دار تو یہ دھچکا سہ جائے گا…… لیکن چھوٹا زمین دار دوہرے مخمصے کا شکار ہے کہ نہ گندم کم قیمت پر بیچ سکتا ہے کہ خرچ پورا نہیں ہوتا…… اور نہ اس کو پاس ہی رکھ سکتا ہے کہ محفوظ کرنے کے لیے باقاعدہ گودام نہیں۔ نتیجتاً وہ یہ گندم اونے پونے داموں آڑھتیوں کو فروخت کرے گا، جسے آڑھتی ذخیرہ کریں گے اور سستے داموں خریدی گئی گندم کو مہنگے داموں بیچنے کا بندوبست کریں گے۔
کہنے کو تو پاکستان زرعی ملک ہے، لیکن زرعی پالیسیاں جس طرح کی بن رہی ہیں کچھ بعید نہیں کہ مستقبلِ قریب میں زرعی ملک ہونے کا لاحقہ بھی ہم سے چھن جائے۔ جو صورتِ حال اس وقت درپیش ہے، اگلے سیزن کے لیے کم کاشت کا المیہ ہمارا منتظر ہے کہ چھوٹا زمین دار اپنی ضرورت سے زیادہ گندم کاشت ہی نہیں کرے گا اور گندم کی کمی ہماری منتظر ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔