جہا ں آئے روز خواتین کے تحفظ کے لئے این جی اوز اور کئی دیگراِدارے تیزی سے اپنا کام کر رہے ہیں، وہاں خواتین کے حقوق کے مختلف بلوں کو اسمبلیوں سے پاس کرکے زیرِ عمل لایا جا رہا ہے، لیکن ان سب کے باوجود خواتین خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ صدیوں سے عورت کئی مسائل کا شکار رہی ہے۔ چاہے وہ جہیز کے نام پر باتین سننا ہوں یا گھریلومعاملات پر تشدد سہنا۔ ہر جگہ صرف عورت ہی تشدد کا شکار رہی ہے۔ مرد نے عورت کو ایک کھلونا سمجھ کر کبھی اسے اپنی ہوس کا شکار بنایا ہے، تو کبھی اپنے کئے کے عوض غیرت کے نام پر اسے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
دنیا میں دو مذاہب، اسلام اور سکھ ازم کا اگر آپ بغور مطالعہ کریں، تو عورت کے حقوق پر سب سے زیادہ بات یہاں کی گئی ہے اور اس پر عمل کی تلقین بھی کی گئی ہے۔مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں مذہب سے زیادہ اپنے فرسودہ رسم و رواج کو عزیز سمجھتے ہوئے عورت کو اسی کمتر درجہ میں رکھا گیا ہے۔
آج اگر ہم دیکھیں، تو عورت زندگی کے ہر شعبے،ہر اِدارے میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دیتی ہے، اور کہیں کہیں تو مرد پر سبقت بھی پاتی دکھائی دیتی ہے۔ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی مرد کی اکڑ اور سوچ و فکر میں عورت کے لئے کوئی خاصی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ گذشتہ سال (دوہزار سولہ سے دوہزار سترہ تک) پاکستان میں تین ہزار خواتین کا ریپ، گینگ ریپ ، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل ہوا ہے۔ یہ تو ہوئے رجسٹرڈ کیسز۔ خدا جانے اور کتنی مظلوم خواتین درندہ صفت مردوں کے ہاتھوں موت کی بھینٹ چڑگئی ہوں گی۔
سب سے دلخراش واقعہ گذشتہ دنوں ڈیرہ اسمائیل خان کے علاقہ گرمٹ میں پیش آیا۔ جب سولہ سالہ شریفہ بی بی پر زمین و آسمان مل کر روئے۔ جس کے بارے میں سوچتے ہی انسانیت پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ مجھے اب بھی یاد ہے جب نوے کی دہائی میں ڈش ٹی وی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، تو باقی بچوں کی طرح ہم بھی سکول کے بہانے نکل کر کسی پڑوسی کے گھر یا ڈیرے میں ’’زی ٹی وی‘‘ پر صبح دس بجے کی لگی ہندی فلم دیکھنے جاتے ۔فلم میں اکثر ہیرو اور اس کے خاندان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا، خاص کر ہیرو کی بہن کو۔ ہم ایسے مناظر دیکھ کر حیران ہوتے کہ پورے کا پورا شہر اس مظلوم لڑکی آہ و پکار سن کر بھی خاموش تماشائی بن کر کھڑا ہے۔ تب ہم خود کو یہ حوصلہ دے کر چپ کرالیتے کہ چلو بھئی، کوئی بات نہیں،فلم ہی تو ہے۔ حقیقی زندگی میں کوئی ایسا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لیکن افسوس کہ آج حقیقت میں بھی وہی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ شریفہ بی بی کے ساتھ وہی ہوا جو کبھی فلموں میں ہوا کرتا تھا۔ شریفہ بی بی کا قصور یہ تھا کے اس کے بھائی کی گاؤں کی کسی لڑکی کے ساتھ دوستی تھی۔ شریفہ بی بی گاؤں کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ پانی لانے گئی تھی کہ مسلح افراد ا نے دن دہاڑے اس کے کپڑے پھاڑ کر اسے برہنہ کیا اوربالوں سے پکڑ کر گاؤں میں گھسیٹتے رہے۔ شریفہ بی بی ان بااثر افراد کے سامنے گڑگڑا کر منت سماجت کرتی رہی۔ وہ مدد کے لئے چیختی چلاتی رہی۔ پر کسی میں بھی یہ ہمت نہ تھی کہ اس کی مدد کے لئے آگے بڑھتا۔ حتیٰ کہ با اثر افراد کے ڈر سے کوئی اسے اپنے گھر پناہ دینے پر بھی راضی نہ تھا۔ جب متاثرہ لڑکی ایف آئی آر درج کرانے اپنی ماں کے ہمراہ تھانہ پہنچی، تو پولیس نے نہ صرف بات سننے سے انکار کیا بلکہ مخالف فریق کے کہنے پر الٹا مظلوم لڑکی کے بھائی کے سر تمام الزامات دھر دیئے۔ سوشل اور پرنٹ میڈیا پر خبر وائرل ہوتے ہی وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے از خود فوری نوٹس لیتے ہوئے از سرِ نوکارروائی کا حکم دیا۔ آئی جی صلاح الدین نے میڈیا کو بتایا کہ ڈی آئی جی خود اس واقعہ کی تفتیش کر رہے ہیں۔ کسی بھی سیاسی دباؤ کے بغیر ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچا یا جائے گا۔
ادھر تحریک انصاف کے ایم این اے علی امین گنڈہ پور نے متاثرہ لڑکی کے گھر جاکر اس کیس کے تمام اخراجات ا ٹھانے کا اعلان کیا ہے اور شریفہ بی بی کو دو لاکھ کا امدادی چیک بھی فراہم کیا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی حکومت اور خیبر پختوخوا کی تبدیل شدہ پولیس ’’حوا کی بیٹی‘‘ کو انصاف فراہم کرنے میں کتنی حد تک اور کتنا جلدی کامیاب ہوتے ہیں۔
اس حوالہ بس انتظار ہی کیا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں۔