اسلام کا خاص امتیاز ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کی ہر میدان میں رہنمائی کرتا ہے۔ عبادات کے ساتھ عادات اور معاشرت کے ساتھ معیشت کو سنوارنے کی فکر بھی کرتا ہے۔ اسی طرح جہاں مادی طور پر مسائل کا حل بتاتا ہے، تو وہیں نفسیاتی طور پر حل پیش کرنا بھی اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ ان ہی فرائض میں سے ایک استخارہ بھی ہے، جس پر عمل کر کے ایک مسلمان نہ صرف اپنے نفسیاتی مسائل کو حل کر لیتا ہے بلکہ اللہ تعالی سے خیر والے معاملے کی دعا بھی کر لیتا ہے، جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کے کام کے کفیل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جو کچھ اس بندے نے مانگا ہے، وہ اسے ضرور مل کر رہتا ہے اور اگر وہ نہ ملے، تو اس سے بہتر چیز مل جاتی ہے۔ یا کم از کم اتنا ہوتا ہے کہ اس پر سے آنے والی کوئی مصیبت اٹھا لی جاتی ہے۔
استخارہ کے لغوی معنی ہیں ’’خیر طلب کرنا۔‘‘ لیکن شریعت کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں: ’’اللہ تعالی سے دعا کرنا کہ اسے وہ چیز عطا کرے جو اس کے لیے فائدہ مندہو۔‘‘ اس عمل کو سرانجام دینے کے لیے وقت، جگہ یا شخص کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ ہر عاقل، بالغ، مرد و عورت مسلمان موقع کی مناسبت سے ہر وقت اور ہر جگہ اسے کر سکتے ہیں۔ مختلف مذہبی امور میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی طرح استخارہ کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ مثلاً لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید استخارہ کسی وقت یا چند افراد کے ساتھ خاص ہے۔ چناں چہ بعض عامل اور بابا قسم کے لوگ استخارہ کے نام پر عوام الناس سے ہزاروں روپے اینٹھ لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے گلی محلوں میں استخارہ سنٹر کھلے ہوئے ہیں، جہاں مختلف کاموں کے استخارہ کے لیے الگ الگ قیمتیں مقرر ہیں۔ شادی، بیاہ، کاروبار، تجارت، ملازمت، رشتے طے کرنا وغیرہ ہر ایک کے استخارہ کی علیحدہ فیس ہے جو کلائنٹ کو ہر صورت ادا کرنا ہوتی ہے۔
میرے خیال میں ان غلط فہمیوں کی جڑ ’’استخارہ‘‘ کو ماورائی چیز سمجھنا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اس کا کوئی مخصوص طریقۂ کار ہے جسے عوام الناس نہیں جانتے یا یہ کہ اگر کوئی بزرگ ہستی کرے گی، تو اس کا استخارہ زیادہ درست ہوگا۔ اسی طرح یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ استخارہ کر لینے کے بعدمن و عن ہر چیز دکھلا دی جاتی ہے یا استخارہ کرنے والے کا سر دائیں یا بائیں گھوم جاتا ہے۔ حالاں کہ شریعت میں اس طرح کی کوئی لازمی قید موجود نہیں ہے۔ استخارہ کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالی بہتر کام کی جانب رہنمائی فرما دیتے ہیں۔ یعنی ایسے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں جس سے صحیح راستے کا انتخاب کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
اس کے ساتھ یہ یاد رہے کہ استخارہ ہر اس کام کے لیے کیا جاتا ہے جس میں تردد ہو کہ میں اسے کروں یا نہیں؟ لیکن نیکی کے کام کرنے کے لیے استخارہ کرنا درست نہیں کہ مجھے یہ کرنے چاہئیں یا نہیں؟ کیوں کہ نیکی کے کام تو ہر حال میں کرنا درست ہیں۔ البتہ نیکی کے کاموں کے اوقات مقرر کرنے کے لیے استخارہ کرنا جائز ہے جیسے نکاح، عمرہ، نفلی صدقہ وغیرہ۔ اسی طرح برائی کے کاموں کے لیے کسی صورت بھی استخارہ جائز نہیں۔ مثلاً رشوت لینے، سود کھانے اور زنا وغیرہ کرنے کے لیے استخارہ کرنا کہ مجھے یہ کام کرنے چاہئیں یا نہیں؟ تو ایسے امور میں استخارہ کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔باقی دیگر جائز اور اہم امور مثلاً کوئی کاروبار شروع کرنے، کوئی بڑی چیز مثلاً دکان، مکان، پلاٹ، گاڑی یا دیگر کسی چیز کی خرید و فروخت، ملازمت، ملک سے باہر جانے، اپنا یا اپنے بچے بچیوں کے رشتے کے لیے،جیون ساتھی چننے یا اس سے جدائی اختیار کرنے، اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ کے چناؤ، کسی بزرگ سے بیعت کرنے، کہیں سفر کرنے اور کوئی معاملہ کرنے سے پہلے لازمی استخارہ کرنا چاہیے۔
ترمذی شریف میں ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنو آدم کی سعادت اسی میں ہے کہ اللہ تعالی کی قضا و قدر پر راضی رہے اور اس کی بدبختی یہ ہے کہ اللہ تعالی سے خیر طلب نہ کرے (یعنی استخارہ نہ کرے۔)‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’جس کسی نے استخارہ کر لیا، وہ کبھی ناکام نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کر لیا، تو وہ کبھی نادم نہیں ہوا۔‘‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دعائے استخارہ اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن مجید کی سورت سکھاتے تھے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’جب کسی اہم کام کا ارادہ ہو، تو سب سے پہلے دو رکعت نماز نفل (برائے استخارہ) ادا کرے پھر (سلام کے بعد) یہ دعا پڑھے: (یاد رہے کہ خط کشیدہ الفاظ پڑھتے ہوئے اپنے کام کی نیت کرنی ہے) اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ، وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌ لِّی فِی دِیْنِی وَ مَعَاشِی وَ عَاقِبَۃِ اَمْرِی، فَاقْدِرْہٗ لِیْ وَ یَسِّرْہٗ لِی، ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیْہِ، وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّی فِی دِیْنِی وَ مَعَاشِی وَ عَاقِبَۃِ اَمْرِی، فَاصْرِفْہٗ عَنِّی وَ اصْرِفْنِی عَنْہٗ، وَ اقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ اَرْضِنِی۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس سے بھی آسان دعا منقول ہے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کا ارادہ فرماتے، تو یہ دعا پڑھتے اَللّٰھُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتََرْ لِیْ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ استخارہ کے لیے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ اَللّٰھُمَّ خِرْ لِیْ بِرَحْمَتِکَ وَ عَافِیَتِکَ، اَللّٰھُمَّ اقْضِ لِیْ بِالْحُسْنٰی فِی یُسْرٍ مِّنْکَ وَ عَافِیَۃٍ۔جو آدمی یہ دعا پڑھ لیتا ہے، تو وہ مال و اولاد کے ضائع ہونے اور ہاتھ پاؤں کٹ جانے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
استخارہ کی نماز سے پہلے دل میں یہ نیت کر لینی چاہیے کہ ’’میں دو رکعت نماز صلوۃ الاستخارہ پڑھ رہا ہوں۔‘‘ اسی طرح دعائے استخارہ بھی کسی اچھے قرآن مجید پڑھنے والے کو سنا لینی چاہیے۔ استخارہ مکمل کر لینے کے بعد رقم صدقہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی منقول نہیں ہے کہ استخارہ کسی دوسرے فرد سے کروایا جائے۔ ہاں، بطورِ دعا کے دوسرا آدمی استخارہ کر سکتا ہے لیکن پھر بھی بہتر ہے کہ اپنے معاملہ کے لیے خود استخارہ کیا جائے۔ اسی طرح سنت کی نیت کیے بغیر کبھی صدقہ کر دے، تو جائز ہے لیکن ضروری نہیں۔
استخارہ کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر تقدیر و قضا پر بھروسا کر کے بیٹھا جائے بلکہ اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنی چاہیے اور جس طرف دل کا میلان ہو رہا ہو، اس کام کو سرانجام دیا جائے اور اس کی تکمیل کے لیے کوشش کی جائے۔ حسین و جمیل خوابوں، چہرے کے اِدھر اُدھر مڑنے اور تسبیح کے ہلنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اللہ تعالی کو وہ کام منظور ہوا، تو خود بخود اس کے اسباب پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔
اگر اس سب کے باوجود بھی کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو اور دل غیر مطمئن ہو، تو استخارہ بار بار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس سب سے مقصودِ اصلی سنت نبوی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا ادا کرنا ہے۔ اور جسے یہ چیز حاصل ہو گئی، سمجھو اسے دین و دنیا کی ہر نعمت مل گئی۔
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔