جاپانی ناول نگار سوشاکو ایندو کا ناول ’’خاموشی‘‘ (تبصرہ)

Shehnaz Rehman

تبصرہ نگار: شہناز رحمان 
تسلیم شدہ امر ہے کہ عظیم اور لازوال ہونے کے لیے عصریت اور اَبدیت کا عکس ضروری ہے۔ جاپانی ناول نگار ’’سوشاکو ایندو‘‘ (Shusaku Endo) کا ناول ’’خاموشی‘‘ (Silence) ایک ایسا ہی لازوال شاہ کار ہے، جو لکھا تو گیا تھا 1966ء میں، لیکن حالیہ تناظرمیں اس ناول کا مطالعہ یقینا دل چسپ اور بصیرت بخش ہوگا۔ آیا کہ مذہب اور وجود کے بقا کی کشمکش میں مذہب کو نظرانداز کر کے وجود کا انتخاب کس حد تک اطمینان بخش یا بے چین رکھنے والا ہے۔
اس ناول کا ترجمہ مسعود اشعر نے کیا ہے۔ عیسائیوں اور جاپانیوں کے مذہبی بیانیے اور تاریخ سے واقفیت کے بغیر اس ناول کا ترجمہ ناممکن ہوتا۔ 20ویں صدی میں تحریر کردہ اس ناول میں 17ویں صدی کے جاپانیوں کے عقیدے، حالات اور مذہبی استعماروں کی شدت پسندی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ مذہب، عقائد، مذہبی برتری، مختلف مذاہب میں خدا کے تصور، خدا کے وجود اور قادرِ مطلق ہونے کے تصورات، نسلی تحفظات اور ثقافتی آمریت پر ضرب کاری لگانے والا یہ ناول انسان کے متشدد ہونے کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ یہ منکشف ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر تشدد ہر زمانے میں روا رکھا گیا ہے۔ قتل و غارت گری کو خوش نودیِ خدا سمجھا جاتا رہا ہے۔
یہ ناول بظاہر تبلیغِ مذہب کی غرض سے جاپان جانے والے ’’فریرا‘‘ (Christovao Ferreira) نامی ایک پادری کے مرتد ہونے کی خبر کی تفتیش پر مبنی ہے، لیکن اس تفتیش کے سفر میں اس تسلط اور فوقیت کے جنون کی تخم ریزی بھی شامل ہوگئی ہے جو قوموں اور ملکوں کی سائیکی پر غالب آ کر فسطائیت پر اُکساتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ملا نصیر الدین (تبصرہ)  
ودرنگ ہائیٹس (تبصرہ)  
شارلٹ برونٹے کا ناول ’’جین آئر‘‘ (تبصرہ)  
البرٹ کامیو کا ناول ’’اجنبی‘‘ (تبصرہ)  
کلیلہ و دِمنہ (تبصرہ)  
پرتگال سے دو پادری فریرا کے حوالے سے تحقیق اور جاپان میں عیسائیت کی آخری شمع کی ٹمٹماتی لو کو بچانے کے لیے سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے جاپان پہنچتے ہیں۔ وہاں پہنچنے کے بعد اُن کو دی جانے والی جسمانی اذیتوں اور معصوم عیسائیوں پر روح فرسا مظالم کے احوال مصنف نے اس انداز سے بیان کیے ہیں کہ ناول کا موضوع مذہبی کشمکش نہ ہو کر انسانی نفسیات میں شامل اذیت پسندی کے وجوہ دریافت کرنے کا ایک کلید معلوم ہونے لگتا ہے۔ ناول کے واقعات یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان کی وجودی حالت ایک تنہا اجنبی کی ہے، جو سکون اور معیت کا متلاشی ہے۔تنہائی میں وہ خدا کو پکارتا ہے۔ آرزوؤں اور تمناؤں کی تکمیل پر وہ خدا کی ذات کو قادرِ مطلق تسلیم کرتا ہے اور تشنہ رہ جانے کی صورت میں اسی تشویش،شبہے اور دہشت کا ظہور ہوتا ہے، جو اس ناول کے کرداروں میں ظاہر ہوا۔ خصوصاً وہ مضبوط عقیدۂ پادری جو اپنی زندگی کا ہر خوب صورت لمحہ خدا کی نعمت اور اس کی محبت کا عطیہ سمجھتا ہے، لیکن جب بے دست و پا عیسائیوں پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھتا ہے، تو آخرت میں بہتر جزا کی تمام تر تاویلوں کے باوجود وہ خدا سے شاکی نظر آنے لگتا ہے اور خدا کی خاموشی پر اس طرح کی باتوں کی جرات کرتا ہے:’’اے خدا! تو خاموش کیوں ہے؟ اے خدا! اب تو ہی اپنی خاموشی توڑ دے۔ اب تجھے خاموش رہنا زیب نہیں دیتا۔ توڑ دے اپنی خاموشی، ثابت کر دے کہ تو عادل ہے، رحم کرنے والا ہے، تو کچھ تو بول کہ یہ دنیا جان لے کہ تو ہی سب کا مالک ہے!‘‘
اُس کی التجاؤں پر دہشت زدہ کرنے کی حد تک خدا کی خاموشی اس کے اندر وسوسے پیدا کرتی ہے، جنھیں ہر دفعہ جھٹک کر وہ ایک نئے جذبے کے ساتھ اپنے مشن پر ڈٹے رہنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن معصوم عیسائیوں کی دل خراش کراہیں اُس کی کوششوں کو ناکام کرکے تکذیبِ مذہب پر مجبور کر دیتی ہیں۔ فریرا کے للکارنے والے سوال کہ ’’اگر آج یسوع یہاں ہوتے، تو……مجھے پورا یقین ہے کہ ایسی حالت میں یسوع مسیح بھی تکذیب کر دیتے۔ یسوع مسیح انسانوں کو اذیت سے بچانے کے لیے ضرور تکذیب کر دیتے۔‘‘
یہ سن کر پادری کے دل و دماغ میں شعلے بھڑک اُٹھتے ہیں اور وہ کہتا ہے: ’’انسانوں سے محبت کا یہی تقاضا ہے، اگر اُنھیں وہ سب کچھ ہی قربان کرنا پڑجاتا، جو اُنھیں اپنی جان سے بھی پیارا تھا، تو وہ انسانوں کے لیے ایسا ضرور کرتے۔‘‘
پادری کی تکذیبِ مذہب ثابت کرتی ہے کہ انسانیت اور انسانوں کے دُکھ کا مداوا دنیا کے تمام مذاہب سے بالاتر ہے، لیکن تمام تر منطقی باتوں اور تاویلوں کے باوجود یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب جیسے نجی اور اختیاری معاملے میں اس طرح جبراً ردو قبول کی گنجایش کتنی ہے اور انکار یا تکذیبِ مذہب میں انسانوں کو کرب و درد سے نجات دلانے کا یہ جواز احساسِ گناہ سے آزاد کرنے میں کس حد تک معاون ہو سکتا ہے؟ ناول میں موجود سچویشن کے ذریعے اس سوال کا جواب یہ برآمد ہوتا ہے کہ عقیدے کی تشکیلِ نو تو ممکن ہے، لیکن ضائع ہونے والی زندگیوں کا تاوان ممکن نہیں۔ ظاہر ہے اس بات کو عقیدے کے اُصولوں سے بالاتر ہوکر ہی تسلیم کیا جاسکتا ہے جو کسی چیلنج سے کم نہیں۔
فریرا سمیت دوسرے جاپانی عیسائیوں کے عقائد کی تشکیلِ نو کے بعدعیسائی مذہب تمام تر عقائد و مذاہب سے برتر نہیں رہ جاتا ہے۔ جاپانی بھکشوؤں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر وہ اس تصور پر یقین کرنے لگے تھے کہ خدا انسانوں سے ماوراکوئی ذات مطلق نہیں بلکہ انسانوں کی طرح ہی ایک ہستی ہے۔
مذہبی آزادی کو اس طرح منظم و منصوبہ بند طریقے سے رد کرکے نئے تصورات کا ہامی بنانے والی سچویشن میں خدا کے وجود پر یقین کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ خدا خاموش نہیں بلکہ اسے خاموش سمجھنا اخلاقی بحران کا پیدا کردہ المیہ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے