گذشتہ سال ماہِ اپریل میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، اُمیدِ سحر‘‘ کا اختتام ان سطور سے کیا تھا: ’’جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی صورت میں اک نئی اُمیدِ سحر پید ا ہوئی ہے کہ ایک ایسا جج جو تاریخ کو سامنے رکھتا ہے اورہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا درس دیتا ہے۔‘‘
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
الحمداللہ، اس وقت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون کی سربلندی پر یقین رکھنے والے ہر با شعور اور صاحبِ علم پاکستانی کی اُمیدوں پر حسبِ توقع پورا اُتر رہے ہیں۔ پاکستا ن کے سب سے بڑے عدالتی منصب پر بیٹھا یہ شخص ہر گزرے دن کے ساتھ نئی آئینی تاریخ مرتب کر رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے آئینِ پاکستان کو کاغذ کا ٹکڑا کہنے والوں اور اُن کے ہم نواؤں کے لیے قاضی فائز عیسیٰ جیسا جج کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے جب اُنھوں نے مشہورِ زمانہ ’’فیض آباد دھرنا کیس‘‘ کا فیصلہ لکھا، تو طاقت ور حلقوں کی جانب سے ان کے خلاف مذموم مہم چلوائی گئی اور اپنے کٹھ پتلی حکم ران کے ذریعے نہ صرف ان کی کردارکشی کی گئی بلکہ سپریم کورٹ میں ذلیل و رسوا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جس کا مقصد صرف اور صرف قاضی فائز عیسیٰ کو عدلیہ سے بے دخل کروانا تھا۔ آئین و قانون کی نگہبان وکلا تنظیموں نے اس کٹھن دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بھرپور ساتھ نبھایا اور بالآخر وہ پاکستان کی سب سے بڑی آئینی عدالت سے سرخ رُو ہوکر نکلے۔اور جب طاقت کا نشہ اُترا، تو اسی سابق حکم ران نے تسلیم کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا ان کی حکومت کی غلطی تھی۔
پاکستان کی آئینی تاریخ کبھی بھی خوش کن نہیں رہی۔ سیاسی جد و جہد کے نتیجے میں اُبھرنے والی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان اپنے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی غیر منتخب اور غیر سیاسی افراد کے ہاتھوں کھلونا بن بیٹھی۔ اختیارات و وسائل کی عدم مساوات نے پاکستانی بنگالیوں کو ریاستِ پاکستان سے بدظن کردیا…… اور سنہ 71ء میں ہم سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ آئینی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کا سفر چند دنوں کا نہ تھا، بلکہ اس کی شروعات سنہ 48ء ہی سے ہوچکی تھی۔ پاکستان کا پہلا آئین 56ء میں بنا، جو ٹھیک دو سال بعد آمر ایوب خان نے ختم کیا اور تختِ حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کو جوازِ قبولیت بھی پاکستان کی آئینی عدالتوں نے دیا۔ اس کے بعد آمر یحییٰ خان اور ضیاء الحق کے مارشل لا ہوں، یا پھر پرویز مشرف کا حکومت پر قبضہ، ان سب غیر آئینی حکومتی قبضوں کو شرفِ قبولیت بھی ہماری اعلا ترین عدلیہ میں بیٹھے ہوئے نام نہاد ججوں نے بخشا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟  
ہمارا عدالتی نظام اور چیف جسٹس  
ہماری عدالتیں، مراعات اور زیرِ التوا مقدمات  
قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کی اور پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ براہِ راست ٹیلی وِژن نشریات کے ذریعے سماعت دکھانے کی روایت قائم کردی۔ عرصۂ دراز سے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کی صورت میں پائی جانے والی آمریت کا خود اپنے ہاتھوں سے قلع قمع کردیا اور پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ قانون کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا۔ ان کے اس طرزِ عمل نے ثابت کیا کہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے۔ سپریم کورٹ کے صندوقوں میں چھپے ہوئے اُن مقدمات جن کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کے پیشروؤں کی زبانیں گنگ ہوجاتی تھیں، عہدہ براجمان ہونے کے بعد جس طرز پر ان مقدمات کو زیرِ سماعت لائے اور ساتھی ججوں کے ساتھ ان مقدمات کے دلیرانہ فیصلے بھی جاری کیے، جیسا کہ ’’فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس‘‘، ’’مشرف پھانسی کیس‘‘، ’’ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس‘‘۔
آئین و قانون سے نابلد افراد کے نزدیک مشرف پھانسی اور بھٹو پھانسی ریفرنس کے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ظاہر ہے اِک ایسا فرد جسے پاکستانی آئینی تاریخ کا علم ہی نہ ہو،تو ایسے فرد سے اس طرح کی بے تکی باتوں کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔ بھٹو صدارتی ریفرنس میں رائے دیتے ہوئے ججوں کا کہنا تھا کہ سفر کی درست سمت کا اُس وقت تک انتخاب ممکن نہیں ہوتا جب تک غلطیوں کا اعتراف اور پھر اصلاح نہ کی جائے۔ یاد رہے پاکستان کی موجود صورتِ حال کے ذمے دار وہی غیر سیاسی و غیر منتخب افراد ہیں جنھوں نے غیر آئینی اقدامات کے تحت مسندِاقتدار پر قبضے جمائے اور آئینی عدالتوں میں بیٹھے نام نہاد ججوں نے ان کے غیر آئینی اقتدار کو جوازِ قبولیت بخشا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے ادارے میں براجمان ایسے افراد جن پر کرپشن اور مس کنڈکٹ کے سنگین الزامات ہیں،ان کے خلاف بھل صفائی مہم بھی شروع کی ہوئی ہے۔ جس کی واضح مثالیں جسٹس اعجاز الحسن کا قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لینا اور جسٹس مظاہر علی نقوی کا سپریم جوڈیشل کونسل میں دورانِ سماعتِ مقدمہ استعفا دے کر جان چھرانے کی ناکام کوشش کرنا…… مگر چیف جسٹس نے موصوف کی اس کوشش کوناکام بنا ڈالا، بلکہ اک نظیر بھی قائم کردی کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اک جج پر مس کنڈکٹ کے الزامات ہوں اور وہ الزامات کا دفاع کرنے کی بجائے استعفا دے کر الزامات سے بری الذمہ قرار پائے۔
اس وقت پاکستان کے باشعور اور صاحبِ علم طبقات خصوصاً آئین و قانون کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اقدامات پاکستان کی آئینی تاریخ کو درست کرنے کی جانب سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔