تبصرہ نگار: فاطمہ عروج راؤ
’’شارلٹ برونٹے‘‘ (Charlotte Brontë) کا ناول ’’جین آئر‘‘ جس پر اَب تک تقریباً 10 فلمیں بن چکی ہیں، ایک فکشن ناول ہے۔
شارلٹ برونٹے ایک برطانوی مصنفہ تھیں، جن کا پہلا ناول اس لیے شہرت نہ پاسکا، کیوں کہ مصنفہ ایک گم نام لڑکی تھی…… لیکن ’’جین آئر‘‘ کے مشہور ہونے کے بعد اُن کے وہ ناول بھی پڑھے گئے جنھیں پہلے پہل پبلشروں نے نظر انداز کردیا تھا۔
یہ کہانی ایک بچی ’’جین آئر‘‘ کے گرد گھومتی ہے، جو ایک خیراتی سکول میں پل کر جوان ہوتی ہے۔ اسی سکول میں تدریس کے پیشے سے وابستہ رہتی ہے، لیکن 17 سال کی عمر میں اُسے سکول کے باہر کی دنیا دیکھنے کا شوق ملازمت بدلنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یوں تقدیر اُسے ’’مسٹر روچیسٹر‘‘ (جو کہ ایک 35 سے 40 سال کا آدمی ہے) کے گھر ’’گورنس‘‘ کے طور پر لے آتی ہے۔ یہاں اُسے ایک بچی کو پڑھانے کی ذمے داری دی جاتی ہے۔ وہ بچی مسٹر روچیسٹر کی لے پالک بیٹی ہے۔ بہ ظاہر مسٹر روچیسٹر ایک بگڑا ہوا امیر زادہ ہے۔ امیرانہ ٹھاٹھ باٹ، رویے کا کھردارپن اسے لوگوں سے دور کردیتا ہے ۔ اگرچہ ہائی سوسائٹی کے شوق اسے زندہ رکھے ہوئے تھے لیکن وہ تنہائی کا شکار ہے ۔ ایک لاوارث گورنس کا بے داغ ماضی اُسے رشک میں مبتلا کرتا ہے اور یہی وہ واحد خوبی تھی جو روچیسٹر کو جین آئر سے محبت میں مبتلا کرگئی۔ عمروں کے فرق کے باوجود یہ محبت یک طرفہ نہ تھی…… لیکن جوں ہی شادی کے دن جین آئر یہ بات جان پاتی ہے کہ روچیسٹر پہلے سے شادی شدہ تھا، تو اس دھوکے سے دل برداشتہ ہوکر ’’تھارن فیلڈ‘‘ چھوڑ جاتی ہے اور اپنے ماموں زاد جو کہ ایک پادری تھا، کے یہاں رہنے لگتی ہے۔ پادری اُسے شادی کی پیشکش کرتا ہے اور اُسے قائل کرنے کے لیے مذہبی وار اپناتا ہے۔ جین آئر ایک پادری کی بیوی بننا اس لیے پسند نہیں کرتی کہ وہ اُن تکلیفوں سے آگاہ ہے، جو پادریوں کی بیویوں کو اُٹھانا پڑتی ہیں۔ مزید وہ اُس سے محبت نہیں کرتی، لیکن پادری اسے متنبہ کرتا ہے کہ اگر وہ خدا کی اس پیشکش کو ٹھکرائے گی، تو وہ خدا کے عذاب کو دعوت دے گی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کلیلہ و دِمنہ (تبصرہ)
اجنبی (تبصرہ)
جنت کی تلاش (تبصرہ)
کبڑا عاشق (تبصرہ)
موت کی خوشی (تبصرہ)
لیکن جین آئر ایک مضبوط لڑکی تھی۔ اُسے محبت پھر روچیسٹر کی جانب کھینچتی ہے اور روچیسٹر کو ڈھونڈتی ہوئی واپس آجاتی ہے۔ یہاں آکر اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے عالی شان گھر میں لگنے والی آگ میں سے اپنے ملازموں اور اپنی سابقہ ذہنی مریضہ بیوی (جس نے خود یہ آگ لگائی تھی) کو آگ سے نکالتے ہوئے اپنا ایک بازو اور بینائی کھو بیٹھا ہے…… لیکن جین آئر اُس کے دل کی اچھائی کے باعث اپنے شریکِ سفر کے طور پر روچیسٹر کو چنتی ہے۔
کہانی میں مذہب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے جو کہ اس زمانے کی عکاسی ہے، جس میں یہ ناول لکھا گیا تھا۔
ناول نگار نے جہاں خیراتی سکول میں انتظامیہ کا بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور مذہبی کرتا دھرتاؤں(جو اُن سکولوں کو چلاتے ہیں) کی دھونس اور اُن کے اصلی چہرے کو بے نقاب کیا ہے، وہیں معاشرے کی طبقاتی تقسیم اور اس سے جڑے رویوں پر بھی چوٹ کی ہے۔
خوب صورت منظر نگاری اور دل کش لوکیل کے ساتھ، بظاہر اچھے دِکھنے والوں کے اوچھے ہتھکنڈوں اور دنیا و ظاہر داری میں مگن عام لوگوں کی اچھائیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔
سب سے دلچسپ چیز لکھاری کا اندازِ تحریر ہے، جو قاری کو کہانی سے جوڑے رکھتا ہے۔ بعض اوقات پڑھنے والا مناظر میں کھوکر خود کو اُنھیں منظروں کے درمیان میں محسوس کرتا ہے۔
اس ناول کا اُردو میں ترجمہ سیف الدین حسام نے کیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔