والد (مرحوم) سے شخصیت کا حصہ بننے والی باتوں میں سے ایک غزل سے محبت ہے۔ وہ اکثر سرِ شام پنکج اُداس کا شہرہ آفاق ’’شرابی البم‘‘ ٹیپ ریکارڈر میں رکھ کر بہ آواز بلند سننا پسند فرماتے ۔ یوں آنجہانی پنکج اُداس کو سن سن کر ہمارا ذوق پروان چڑھا۔ مذکورہ غزلیں اب بھی لفظ بہ لفظ یاد ہیں۔
کامریڈ امجد علی سحاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
اک مشہور غزل جو والد (مرحوم) شوق سے سنتے ، ملاحظہ ہو
’’اک جام میں گرے تھے کم ظرف لڑکھڑا کے‘‘
اک اور غزل کچھ یوں تھی:
’’شراب چیز ہی ایسی ہے، نہ چھوڑی جائے‘‘
اداس کی مذکورہ غزلوں نے رگِ اَدب پھڑکائی، تو شاعری کو تحریری طور پر پڑھنے کا شوق چرا۔ یوں کتاب سے رشتہ جڑا۔ پروینؔ شاکر، احمد فرازؔ اور منیرؔ نیازی کی کتب سے شروع ہونے والے سلسلے کی تان غالبؔ پر آکر ٹوٹی۔ ہر اچھا شعر ذہن پر نقش ہوتا گیا، مگر جو نقش ہمارے ذہن پر حضرتِ جون ایلیا نے چھوڑا، بہ خدا وہ اَن مٹ ہے۔
اسی دوران میں چچا غالبؔ کی طرح ہمیں بھی عشق نے نکما کردیا۔ اُس دور میں ایسا کوئی آلہ نہیں تھا، جو ہمارے نکمے پن کی حد ناپتا۔ جیسے تیسے کرکے اُردو ہی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اب اپنے جیسے تازہ ترین نکموں کو ’’ہارنا‘‘ سکھا رہے ہیں۔
آمدم بر سر مطلب، جانا سبھی کو ہے ۔ ہر ذی روح اپنی اپنی باری کا منتظر ہے، مگر پشتو کے ٹپہ
سڑے چی مڑ شی کور پی وران شی
پہ بعضی خلکو باندی وران شی وطنونہ
کے مصداق غزل گائیک کمیونٹی کا اہم رُکن 26 فروری 2024ء کو سدھار گیا، مگر اپنے ہونٹوں سے چھو کر کئی گیتوں، کئی نظموں اور کئی غزلوں کو اَمر کرگیا۔
ہمارا دامن تو روز اول سے خالی ہے مگر جاتے جاتے اختر حسین جعفری کی اک نظم کا سہارا لے کر نشست برخاست کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
انتظار بہار بھی کرتے
دامن چاک سے اگر اپنے
کوئی پیمان پھول کا ہوتا
آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں
دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی
دہر میں کوئی نو بہار نہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔