اُستاد کو جواب دِہ نہ بنائیں

Blogger Rafi Sehrai

آج سے 50، 55 سال قبل ہمارے بچپن کا دور بھی کیا زمانہ تھا۔ محدود خواہشات ہوتی تھیں۔ پوری ہوجاتیں، تو خوشی سے پھولے نہ سماتے، اِتراتے پھرتے۔ دوسروں کو بہانے بہانے سے بتاتے۔ اگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے خواہش پوری نہ ہوتی، تو دُکھ تو ہوتا، لیکن اُسے مسئلہ نہ بنایا جاتا تھا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
تب بچے آج کل کے بچوں کی طرح ضدی بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اپنی ضد منوانے کی خاطر شدید احتجاج کریں، یا کھانا پینا چھوڑ دیں۔ اگر کسی چیز کے لیے زیادہ ضد کی بھی جاتی، تو عموماً ماں جی کی 2، 4 جوتیاں یا تھپڑ اُس کا شافی علاج ہوا کرتے تھے۔ باپ تک بات پہنچنے کی نوبت بہت کم آیا کرتی تھی۔ تب باپ بھی بہت اَکھڑ مزاج ہوا کرتے تھے۔ اولاد کے لیے غصہ تو اُن کی ناک پر دھرا رہتا تھا۔ اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے شاید والد کا یہ رویہ ایک روایت تھی، جس کی پاسد داری کم و بیش سبھی والد حضرات کیا کرتے تھے۔
تب آج کی طرح نت نئے ڈیزائنوں والے مہنگے مہنگے سکول بیگ نہیں ہوا کرتے تھے۔ عام طور پر ملیشیا رنگ کے کپڑے کا گھر پر ہی ایک تھیلا سی کر بچوں کو دے دیا جاتا تھا۔ اس تھیلے میں کتابیں، کاپیاں، تختی، گاچی، سلیٹ، سلیٹی، قلم، سیاہی کی دوات اور سیاہی کی پڑیاں ہوا کرتیں۔ کھانے کے لیے ٹانگر، پُھلیاں، بُھنے ہوئے چنے، مرونڈا، مونگ پھلی اور روٹی وغیرہ بھی اُسی تھیلے میں رکھی جاتی۔ تھیلا کیا تھا عمروعیار کی زنبیل ہوا کرتا تھا۔ اکثر سیاہی کی دوات میں سے سیاہی لیک ہو کر تھیلے کو خراب کر دیتی تھی، مگر اس تھیلے یا بستے کو دھونے کی نوبت کبھی کبھار ہی آیا کرتی تھی۔
اُس وقت سکول یونیفارم بھی ایک موٹے کپڑے کی ہوتی تھی جسے ملیشیا کہا جاتا تھا۔ ملیشیا تقریباً سیاہ رنگ کا ہوتا تھا۔ گرمی کے موسم میں اس وردی میں خوب گرمی لگتی تھی، لیکن سبھی طلبہ برضا و رغبت یہ وردی پہنا کرتے تھے۔ بغیر وردی سکول میں جانے کا تصور ہی نہ تھا۔ عموماً ملیشیا کی یہ وردی اتوار کے روز ہی دُھلا کرتی تھی۔ بعد میں جمعہ کے روز چھٹی رائج ہوئی، تو وردی بھی جمعہ کے جمعہ دُھلنے لگی۔ ملیشیا رنگ ہونے کی وجہ سے وردی کا میلاپن نمایاں نہیں ہوا کرتا تھا۔ ہو بھی جاتا، تو کسی کو اس سے مسئلہ نہ ہوتا۔
وردی کو استری کرنے کا رواج بھی نہ تھا، بلکہ پتا ہی نہ تھا کہ وردی کو استری بھی کیا جاتا ہے۔ البتہ کچھ سیانے طالب علم ایسے بھی ہوا کرتے تھے، جو رات کو سوتے وقت اپنی وردی کو تہہ کرکے سرہانے کے نیچے رکھ لیا کرتے تھے اور صبح کے وقت اُس وردی کو استری شدہ سمجھ کر پہن لیتے تھے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس زمانے میں ہم عام گھروں کے طلبہ استری کیے کپڑے پہنتے ہی نہ تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ہر عید پر بڑے اہتمام کے ساتھ ہمارے کپڑے کوئلوں والی استری کے ذریعے پریس کیے جاتے تھے۔ ہمیں بس یہی پتا تھا کہ استری شدہ کپڑے عید پر ہی پہنے جاتے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اُستاد تجھے سلام  
اُستادِ محترم، مَیں شرمندہ ہوں 
ابراہام لنکن کا اپنے بیٹے کے اُستاد کے نام خط 
کچھ امجد علی سحابؔ کے بارے میں  
ملیے "دنیا کا بہترین اُستاد” لقب پانے والے رحم دل انسان سے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے  

اُس دور میں طلبہ قریباً ہر وقت ہی یونیفارم میں ملبوس رہتے تھے۔ سکول سے واپس آکر بھی کپڑے تبدیل نہ کیے جاتے۔ اسی یونیفارم میں ہی سو جاتے اور صبح کے وقت اس ’’وٹّو وٹ‘‘ وردی میں سکول چلے جاتے۔ کسی طالب علم کو سلوٹ زدہ وردی میں عار محسوس نہ ہوتی تھی۔ وردی کہیں سے پھٹ جاتی، تو درزی کے پاس جا کر سلوانے کی نوبت کم ہی آتی تھی۔ عموماً مائیں گھر میں خود ہی سوئی اور سفید رنگ کے دھاگے کے ساتھ وہ ’’لنگار‘‘ سی دیتی تھیں۔ رنگ برنگے دھاگوں کا تب راوج ہی نہ تھا۔ گھروں میں سفید رنگ کا دھاگا ہی پایا جاتا تھا، جو تمام رنگوں کے پھٹے ہوئے کپڑے سینے کے کام آتا تھا۔ ہمیں وہ رفوشدہ وردی پہن کر کبھی شرم محسوس نہ ہوئی تھی۔ تقریباً سبھی طلبہ ہی ایسے تھے۔ آج کل تو ’’کے جی‘‘ کے بچے کے پاس کئی کئی وردیاں ہوتی ہیں اور بغیر استری وردی یا عام کپڑے پہننے کا تصور بھی نہیں۔ وردی کا پھٹنا بھی ضروری نہیں، ذرا سی پرانی وردی پھینک دی جاتی ہے۔
آج طالب علم کو اچھا خاصا جیب خرچ ملتا ہے۔ بہترین بیگ، مہنگے سکول، طلبہ سے ڈرنے والے اساتذہ اُنھیں میسر ہیں۔ گھر میں پکا کھانا پسند نہیں، تو فوراً ہی پیزا، برگر، شوارما اور جانے کیا کچھ اس کی خدمت میں حاضر کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے دور میں خواہشات نے ضروریات کا روپ نہیں دھارا تھا۔ لوگ قناعت پسند تھے۔ اساتذہ کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ اُنھیں دکان دار عام گاہکوں کی نسبت رعایت کرکے اشیا فروخت کرتے تھے۔ اساتذہ لالچی نہ تھے۔ سکول ٹائم کے بعد بھی طلبہ کو بلامعاوضہ وقت دیتے تھے۔ اُن کا رعب بھی بہت ہوتا تھا اور والدین کی طرف سے یہ کَہ کر اُنھیں فری ہینڈ دیا جاتا تھا کہ بچے کی ہڈیاں ہماری اور ماس آپ کا ہے…… یعنی اگر آپ مار مار کر اس کی چمڑی بھی ادھیڑ دیں گے، تو ہمیں کوئی شکایت نہ ہوگی۔
مار کے بغیر تعلیم کا تصور بھی نہ تھا۔ والدین سے زیادہ اساتذہ کا ڈر اور رعب ہوتا تھا، بلکہ اکھڑ مزاج اور ضدی بچے کو والدین یہ دھمکی دے کر سیدھا کرلیا کرتے تھے کہ اگر تم نے ضد نہ چھوڑی، تو تمھارے اُستاد کو شکایت لگا دی جائے گی۔ یہ دھمکی ہمیشہ تیر بہ ہدف ثابت ہوتی تھی۔ آج کل تو مار نہیں پیار کے سلوگن نے استاد کو طلبہ کا غلام بنا دیا ہے۔ ابھی ابھی اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ ایک نہم کلاس کا طالب علم اپنے اُستاد کے خلاف لوئر کورٹس سے ہوتا ہوا ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ جا پہنچا کہ اس کے ’’مس کنڈکٹ‘‘ کی وجہ سے اُستاد نے اُسے سکول سے کیوں نکالا؟ اُسے دوبارہ اُسی سکول میں داخل کیا جائے۔ طالب علم کی جانب سے سپریم کورٹ تک اُستاد کو کھینچنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس طالب علم نے سکول سے اخراج کو اپنی انا مسئلہ بنا لیا تھا۔ اگر اُسے واقعی تعلیم حاصل کرنا ہوتی، تو کسی اور سکول میں داخلہ لے سکتا تھا۔ اُس کے والدین نے بھی سپریم کورٹ تک پہنچتے ہوئے اپنے بیٹے کی غلطی کو ماننے کی بجائے اُستاد کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ بھلا ہو تمام عدالتوں اور آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان کا جنھوں نے یہ کَہ کر درخواست خارج کر دی کہ بچوں کی تربیت کریں، نہ کہ اساتذہ کو جواب دہ ٹھہرائیں۔ استاد غلط کام سے روکنے پر دشمن نہیں بن جاتا۔
جناب چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ تعلیم گھر میں بھی حاصل ہوسکتی ہے، لیکن سکول ڈسپلن کی پاس داری کے لیے ہوتا ہے۔ والدین آن لائن کلاسز سے خوش نہیں تھے۔ کیوں کہ بچے بگڑ رہے تھے۔ ایک بچہ جب صبح تیار ہو کر سکول جاتا ہے، تو اُسے علم ہوتا ہے کہ ضابطۂ اخلاق کیا ہے؟ ہماری کلاس میں کسی نے ایسی حرکت کی ہوتی، تو اُسے سزا ملتی تھی۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ کلاسز میں ملنے والی سزا کی بدولت ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ عدالت نے طالب علم ریان احمد کی دوبارہ داخلے کی درخواست مسترد کر دی۔
ہمارے دور میں امتحان میں فرسٹ ڈویژن کا حصول قابلیت کی معراج ہوا کرتا تھا۔ آج طلبہ کی بڑی تعداد 95 فی صد سے زیادہ نمبر لے رہی ہے، مگر معیار یہ ہے کہ ان 95 فی صد نمبر لینے والے طلبہ میں سے اکثریت کو رٹے رٹائے نصاب سے ہٹ کر اُردو زبان میں عام سی درخواست لکھنا بھی نہیں آتی۔ طالبِ علم اَب سکول اور کالج میں علم حاصل کرنے نہیں بلکہ معلومات اپنے اندر فیڈ کروانے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم معکوس ترقی کی طرف تیزی سے گام زن ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے