شگئ سکول سیدو شریف کے ساتھ ہماری کئی یادیں وابستہ ہیں۔ یہ مرغزار روڈ کے کنارے ایک اونچے پہاڑ کے دامن میں واقع ہے ۔
1949ء کے ابتدا میں ودودیہ ہائی سکول کے پرائمری بلاک میں مختصر مدت کے بعد ہم کو اس نئے تعمیر شدہ سکول میں منتقل کیا گیا۔ یہاں پر ہمارے اولین ہیڈماسٹر ’’سید عمر‘‘ نام کے ایک سخت گیر اور قاعدہ قانون کی پابندی کرنے والے صاحب تھے۔ اُس وقت سکول یک منزلہ تھی، مگر ایک مختصر عرصے کے بعد اس کی دوسری منزل تعمیر کی گئی۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
اُس وقت سکول کی سامنے والی دیواراتنی اونچی نہیں تھی۔ راہ چلتے لوگوں کو سکول کا اندرونی منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔
سڑک کے دوسری جانب ایک سیمنٹ سنگ کی بنی ہوئی چھوٹی سی پلیٹ فارم نما مسجد تھی۔ اس کے قریب ہی شفاف پانی کی نہر رواں دواں تھی جس کا پانی ہم پیتے بھی تھے اور اُس میں اپنی تختیاں بھی دھوتے تھے ۔اُس کے متصل ایک کھلا میدان تھا،جس کے چاروں اطراف سدا بہار پودوں کی باڑ تھی۔ اُس کھلی جگہ میں دوپہر کے وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی تھی۔ موجودہ فیض آباد کے ایک معلمِ دینیات مولوی عبدالوہاب صاحب امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ اذان ایک پستہ قد سا بڑی عمر کا لڑکا دیتا تھا، جس کے گلے میں بہت سوز اور میٹھا پن تھا۔اُس کو گلے کی گلائٹر کا عارضہ تھا۔ گردن اس کی غائب تھی۔ بس ایسا لگتا تھا کہ کندھوں کے بیچ کھوپڑی رکھ دی گئی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
جہانزیب کالج  
جہانزیب کالج کے ایلم رسالہ کی مختصر تاریخ  
تاریخی ودویہ سکول کے اولین طلبہ  
سوات ہوٹل  
ریاستی دور کے ودودیہ ہائی سکول کا ایک مایہ ناز طالب علم  
ہماری سردیوں کی تعطیلات کے دوران میں سکول کی دوسری منزل تیار کی گئی۔ اسی شگئی سکول میں مجھے جناب فہم گل صاحب کی سرپرستی ملی، جن کی توجہ سے مَیں نے 3 سال میں ادنا، اول، دوم، سوم اور چہارم کے امتحانات پاس کیے۔ ہماری پانچویں کلاس کے کچھ دن اسی سکول میں گزرے اور یکم اپریل 1952ء کو ہم نئے ودودیہ ہائی سکول منتقل ہوگئے۔
شگئ سکول میں میرے اساتذہ میں محمود استاد صاحب، محمد استاد صاحب، سید مشال استاد صاحب، محمد خالق استاد صاحب اور بخت مشال صاحب کے نام مجھے یاد ہیں۔
سکول کی ’’ٹک شاپ‘‘ بخت ولی نامی ایک سیدو وال چلاتے تھے۔ ٹک شاپ کیا تھی، بس سکول کے سامنے سڑک کے دوسری جانب ایک چٹائی بچھا کر اس پر کچھ مٹھائیاں، چنا وغیرہ سجالیتے اور جن بچوں کے پاس پاکٹ منی ہوتی، صرف وہی خرید لیتے ۔
سکول کے عقب میں ایک وسیع گراونڈ تھا…… لیکن مَیں اُس کی طرف کبھی کبھار ہی جاتا تھا۔ مَیں ایک خوف زدہ سابچہ تھا اور اپنے بڑے بھائی فضل وہاب کے بغیر کلاس سے باہر کم ہی نکلتا تھا۔
ایک اور دلچسپ فیچر اس سکول کا جنوب کی طرف پہاڑ کے دامن سے لے کر سڑک تک ایک گہری اور جھاڑی دارکھائی تھا، جس میں بچے رفع حاجت کے لیے جاتے تھے۔
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔