8 فروری کا دن آیا اور گزر گیا، لیکن قومی اُمنگوں کو حقیقی زبان عطا کرنے میں ناکام رہا۔ کیوں کہ دھاندلی زدہ نتائج نے انسانی جذبات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن انتخا بی نتائج بر وقت دینے میں اپنی ذمے داریاں نبھانے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ اس کی ناکامی نے عوامی جذبات کو جس بری طرح سے مجروح کیا ہے، وہ ناقابلِ بیاں ہے۔ رات کے اندھیرے میں پی ٹی آئی کی ابتدائی جیت کو ہار میں بدلنے کے لیے جو دھاندلی زدہ طریقۂ کار اپنایا گیا، وہ بری طرح سے فلاپ ہوگیا ہے۔ عوام جس جو ش و جذبہ سے ووٹ دینے نکلے تھے، سازشی ٹولے نے اُس کا سرِ عام خون کردیا ہے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
ایک سازش کے تحت رات کو نتائج روک لیے گئے اور مقتدرہ کی ’’ڈارلنگ جماعت‘‘ کو ریلیف دینے کی ناکام کوشش کی گئی، جو بری طرح سے ایکسپوز ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے اُمیدوار جس سرعت سے جیت رہے تھے، اُس سے مقتدرہ کی ڈ ارلنگ جماعت کے اوسان خطا ہوگئے اور اس نے اداروں سے ساز باز کرکے نتائج کو اپنی منشا اور خواہش کے مطابق اعلان کروانے کا بیڑا اُٹھایا۔ اعلان تو ہوگیا لیکن عوام نے ایسے ہر اعلان کو مسترد کردیا۔ کیوں کہ اُنھیں علم تھا کہ یہ جھوٹ، مکاری اور بدنیتی کا ڈھونگ ہے۔ عوامی ووٹ کی زبان قیدی نمر 804 سے محبت پر اُستوار تھی، جب کہ اعلان کسی اور کی خوش نودی کی خاطرتھا، جسے عوام نے در خورِ اعتنا نہ سمجھا۔ پی ٹی آئی کو واضح برتری سے روک دیا گیا اور ایک شکست شدہ جماعت کو کچھ اضافی سیٹیں عنایت کی گئیں، جس سے وہ جماعت عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بن گئی۔ آپ کسی بھی گلی،محلے اور شاہ راہ سے گزریں، اُس جماعت کو عوامی مینڈیٹ کی توہین کرنے کی پاداش میں جس طرح مطعون کیا جارہا ہے، اُس جماعت کے پاس اب اپنا چہرہ بچانے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔
جمہوریت کی روح یہ ہے کہ جس جماعت کو عوام نے اپنے ووٹوں سے جتوایا ہے، جیت اُسی کے نام لکھی جانی چاہیے اور سب کو اس پر لبیک کہنا چاہیے۔ جمہوریت ہمارے خون میں شامل ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی بھی حال میں شفاف جمہوری عمل سے کنارا کش نہیں ہونا چاہیے۔
جمہوریت پر پہرہ ہی روحِ جمہوریت ہے۔ لہٰذا ہم سب کو اس کاپاسبان بننا ہوگا۔ رات کی تاریکی میں نیا ماحول تخلیق کرکے منقسم مینڈیٹ کا پتا پھینکا گیا، جس سے قومی مسائل کو حل کرنے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ دراصل منقسم مینڈیٹ نے ساری بساط اُلٹ کر رکھ دی ہے۔ ملکی معیشت پہلے ہی تباہ حالی کا منظر پیش کررہی ہے اور قومی خزانہ کی کمی، ابتری کی داستان بیان کر رہی ہے، جو منقسم مینڈیٹ سے حل نہیں ہونے والی۔ قومی معیشت کو جس بحالی کی ضرورت ہے، اُسے بڑے فیصلوں سے ہی پٹری پر ڈالا جاسکتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سوات، الیکشن میں بڑے بڑے برج اُلٹ گئے  
تحصیلِ بحرین سوات، الیکشن، گلے اور شکوے 
انتخابی تنازعات اور تصفیے  
انتخابی نتائج، تاخیر اور آئینی تقاضے 
جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات  
قارئین! مجھے ایک مخلوط حکومت بنتی ہوئی نظر آرہی ہے، جو ملک کو مزید دلدل میں دھکیل دے گی۔ ابتدائی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی دو تہائی فتح کا منظر نامہ ترتیب دے رہی تھی، جو کچھ حلقوں کو پسند نہ آیا۔ لہٰذا رات کے اندھیرے میں بہت سی نشستوں پر نتائج میں رد و بدل دیکھنے کو ملا۔ اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، سیالکوٹ، گجرات، ملتان، لاہور، بہاول نگر، بہاولپور، راجن پور، چکوال اور بہت سے دوسرے حلقوں میں نتائج کو بدلا گیا۔ ڈھیر ساری ہاری ہوئی نشستوں کو ’’ڈارلنگ جماعت‘‘ کے پلڑے میں ڈال دیا گیا، جس کے خلاف عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد اور لاہور سے کئی انتخابی عذر داریاں دائر کی جاچکی ہیں۔ لاہور میں جسٹس باقر علی نجفی نے تو لاہور میں سلمان اکرم راجہ کے حلقے (128) کے نتائج روک دینے کا حکم صادر فرما دیا ہے، جو اس بات کا کھلا عندیہ ہے کہ نتائج کو بدلا گیا ہے۔ ملک میں کئی جگہوں پر دھرنے اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے، جس سے امن و امان کے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام کی بے چینی اور غصہ کوئی بھی سمت اختیار کرسکتا ہے۔ جو ش و جذبے کے حامل نوجوان کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ وہ اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کسی بھی سازشی تھیوری پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی رائے کو بدلا گیا ہے اور ان کے ووٹ کو عزت سے نہیں نوازا گیا۔ وہ اپنے ووٹ کا تقدس چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے جس جماعت کے لیے ووٹ کاسٹ کیا تھا، اُسے اسی جماعت کے لیے شمار کیا جانا چاہیے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری تھی کہ وہ عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے دھاندلی کو روکنے کے اقدامات اٹھاتا، لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا کرنے کی بجائے عوامی رائے کو غیر اہم سمجھا اور یوں وہ اپنا آئینی کردار نبھانے میں ناکام ہوگیا۔
2013ء میں الیکشن کمیشن کا آر ایس سسٹم بیٹھ گیا تھا اور اب 2024ء کے انتخابات میں اُن کا نیا جدید سسٹم بھی ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے۔ چیئرمین الیکشن کمیشن نے پوری قوم کویقین دلا یا تھا کہ اس دفعہ عوام کو لمحہ لمحہ کی رپورٹ بہم پہنچائی جائے گی، جس سے عوام کو انتخابی شفافیت کا یقین ہو جائے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی بندش نے عوامی بے چینی میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ عوام کو یقین ہوگیا تھا کہ کسی مخصوص جماعت کے ساتھ ذاتی دشمنی کو دھاندلی سے زک پہنچانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، انھیں کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں، 72 گھنٹے گزر چکے ہیں، لیکن انتخابی نتائج اب بھی مکمل نہیں ہوسکے۔ جب کہ الیکشن کمیشن کئی ہارے ہوئے اُمیدواروں کی فتح کے اعلانات کا سلسلہ بڑی ڈھٹائی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اعلا عدلیہ نے بہت سے نتائج کو روک دیا ہے جو اس بات کا برملا اظہار ہے کہ انتخابات میں گڑ بڑ کی گئی ہے۔ موبا ئل فون کی بندش، انٹر نیٹ اور دوسرے اہم ذرائع کی بندش انتخابی شفا فیت پر شکوک و شبہات کو ہوا دے رہی ہے۔ عوام 8 فروری کوساری رات جاگتے رہے کہ اُنھیں حقیقی نتائج دیکھنے کو ملیں گے، لیکن بد قسمتی سے 11 فروری تک بھی نتائج عوام کی جھولی میں نہیں ڈالے گئے۔ ایک بیلنس شیٹ تیار کی جا رہی ہے، جس میں ہر جماعت کو اس کی اوقات میں رکھنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کون حکومت بنائے گا اور کیسے بنائے گا؟ یہی الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا دردِ سر بنا ہوا ہے۔ ایک ڈارلنگ جماعت کے مینڈیٹ کو جس بری طرح سے روندا جا رہا ہے، اُس پر جمہوری حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ الیکشن میں جس شفافیت، آزادانہ اور منصفانہ ہونے کا یقین دلایا گیا تھا، وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔ من پسند نتائج کا ڈنکا ہر سو بج رہا ہے اور عوام بڑ ی حیرانی سے یہ سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ جو منظورِ نظر ہے، اُس کی جیت کی سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں اور جو عوامی محبت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، اُسے پابندِ سلاسل رکھا ہوا ہے۔ جو لیڈر انتخابی نشان کے بغیر بھی سب سے زیادہ نشستیں جیت جائے، اُسے تو فوراً حکومت سازی کی دعوت دے دینی چاہیے تھی کہ وہی عوام کی آنکھ کا تارا ہے، لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
اقتدار عوام کی امانت ہے اور عوام کا ووٹ ہی اس امانت کا حقیقی آئینہ دار ہے۔ یہ ملک 25 کروڑ انسانوں کا ملک ہے اور ان کا ووٹ ہی اقتدار کا حتمی فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے، لیکن بد قسمتی سے عوامی رائے کو جس بری طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے، وہ ناقابلِ قبول ہے۔
اگر جمہوریت پر ایمان ہے، تو پھر جمہوری رویوں میں تبدیلی کی ضروت ہے۔ اقتدار تو آنی جانی شے ہے۔ لہٰذا اس کے لیے جمہوری روح کو قربان نہیں کیا جانا چاہیے۔ ملک کی سیاسی جماعتیں پچھلے کئی عشروں سے اقتدار سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ لہٰذا انھیں اقتدار کی بجائے جمہوری روح کو توانا کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں کہ اسی میں ملک و قوم کا بھلائی اور معراج پنہاں ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔