فلک کی خاموش فضا میں ٹھنڈی روشنی کا پیکر یہ چمکتا ہوا چاند گو کہ خود تو ناہموار سطح، گہری کھائیوں اور بڑے بڑے چٹانوں پر مشتمل ہے، لیکن انسان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس کی روشنی کافی اثر انگیز ہے۔ آسمان کی پُراسرار وادی میں ماہِ کامل اکیلے اور تنہا اپنے وجود کے ساتھ پوری رات مستعد چوکیدار کی طرح گزارتا ہے۔ ہزاروں سال سے ایک ہی روپ، ایک ہی سایز اور ایک ہی ہیئت میں اس کی زندگی کٹتی چلی آ رہی ہے۔ ہاں، کبھی
’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘
کے مصداق شروع میں ’’ہلال‘‘ پھر ’’بدرِکامل‘‘ اور پھر باریک بن کر بھی جھلکیاں دکھاتا رہتا ہے۔ اس الکھ نگری کی داستان ٹھیک طرح کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔ معلوم نہیں چاند کی اس قدر (ظاہری) خوبصورتی سے کیا اس کو خود بھی کوئی فایدہ ہے یا نہیں، مگر ہر ایک ماں کا لعل اپنی ماں کی خاطر چاند کا ٹکڑا ضرور ہوتا ہے۔ چاند محبوب کے حسن کا استعارہ ہے۔ الفت و محبت کا لیلوی وہ نظارہ ہے جہاں ہر دل کا ہارا ہوا مجنوں اور ہر خوابوں کا شہزادہ تاجِ سلطنت سر پر سجانے کے سپنے دیکھتا ہے۔
چاند الفت کا استعارہ ہے
جس کی جانب سبھی چکور چلیں
یوں دبے پاؤں آئی یاد تیری
جیسے چپکے سے شب میں چور چلیں
کسی کا ہوکر اس کو پیار سے ’’چاند‘‘ یا ’’چندا‘‘ کہہ کر بلانے کا عجب فسوں ہوتا ہے۔ یہ دو مختصر سے لفظ اَن چھوئے تصورات، کومل جذبات اور اچھوتے احساسات کی ایسی دلکش تصویر کشی کرتے ہیں، جو واقعتاً دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسان چاند کو دیوتا سمجھ کر اس کی پوجا کرتا ہے۔ حالاں کہ وہ چاند سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے، مگر جب دوسری طرف یہی چاند چودھویں رات کو سمندر کی لہروں پر تیرتا ہے، تو قدرت کی صناعی پر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔
اختر شیرانی نے کسی ایسے ہی دل فریب منظر کو دیکھ کر یہ چھیل چھبیلے، رنگ رنگیلے اشعار قلم بند کیے ہوں گے کہ
مہتاب ہے یا نور کی خوابیدہ پری ہے
الماس کی مورت ہے کہ مندر میں دھری ہے
مرمر کی صراحی مئے سیمیں سے بھری ہے
اور تیرتی ہے نیل کے موجوں کے سہارے
نیل کے موجوں کے سہارے تیراکی کرتا ہوا چاند ایک عاشق اور اس کے محبوب کی آنکھوں کے افق پر طلوع ہوکر کبھی قاصد کا روپ بھی دھار لیتا ہے۔ وطن سے دور کوئی دل والا جب دشمنوں کی قید میں آتا ہے، تو چاندنی رات میں اکثر وہ یہی گنگناتا ہے کہ
کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں
کتنا دلچسپ نظارا ہوگا
یہ سلاخوں میں چمکتا ہوا چاند
تیری آنگن میں بھی نکلا ہوگا
چاند کے بارے میں قرآنِ کریم کا اسلوب کتنا معجز اور کس قدر حسین ہے: ’’اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور۔ اور اس کے (سفر) کے لیے منزلیں مقرر کیں۔ تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (مہینوں) کا حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بغیر کسی صحیح مقصد کے پیدا نہیں کیا۔ وہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں۔‘‘
…………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔