انتخابی عملے کے ووٹ کاسٹ کروانے کا مسئلہ

Blogger Rafi Sehrai

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2024ء کے لیے 10 لاکھ سے زاید انتخابی عملے کی ٹریننگ مختلف مراحل میں جاری کر رکھی ہے۔ یہ عملہ پولنگ کے عمل کو مکمل کروائے گا۔ سیکورٹی پر مامور عملہ اس کے علاوہ ہے۔ دفاتر میں بیٹھ کر انتخابی عمل کو مانیٹر کرنے، رزلٹ کمپائل کرنے، اس کی نگرانی کرنے اور ٹرانسپورٹ کا عملہ بھی انتخابی عمل کا حصہ ہوگا۔
یوں اگر دیکھا جائے، تو قریباً 20 لاکھ افراد الیکشن کے موقع پر کسی نہ کسی مقام پر سرکاری ڈیوٹی میں مصروف ہوں گے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
انتخابات کو شفاف، غیر متنازع اور قابلِ اعتبار بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے انتخابی قواعد میں بعض ترامیم، اضافے اور نئی شقیں متعارف کروائی ہیں جو کہ احسن قدم ہے۔ پاکستان میں کبھی انتخابی نتائج کو غیرمتنازع تسلیم نہیں کیا گیا۔ بھاری مارجن سے ہارنے والا اُمیدوار بھی انتخابی نتائج کو خوش دلی سے قبول نہیں کرتا۔ اگر مارجن چند سو ووٹوں کا ہو، تو ہارنے والا اُمیدوار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے درخواست ضرور دیتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ہارنے والا امیدوار دوبارہ گنتی میں جیت جاتا ہے اور پہلی گنتی میں جیتا ہوا اُمیدوار ہار جاتا ہے۔ پھر اُن دونوں کے درمیان عدالتی جنگ شروع ہو جاتی ہے، جو بعض اوقات اگلا الیکشن آنے تک جاری رہتی ہے۔ ہمارے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی جناب قاسم سوری تو عدالتی اسٹے آرڈر کے ذریعے پورا ٹینور نکال گئے تھے۔
الیکشن کمیشن وقتاً فوقتاً انتخابی اصلاحات کرتا رہتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ انتخابی اخراجات کے لیے الگ بنک اکاؤنٹ، فارم نمبر 45 میں نئی شقوں کا اضافہ، پوسٹل بیلٹ کی ریٹرننگ آفیسر کو بروقت ترسیل سمیت کئی ترامیم و اضافے تجویز کیے گئے ہیں۔
ہمارے ہاں ایسابھی ہوچکا ہے کہ عام ووٹوں کی گنتی میں لیڈ لینے والا اُمیدوار پوسٹل بیلٹ پیپر کی گنتی کوشامل کرنے کے بعد دوسرے نمبر پر چلا جاتا ہے۔ انتخابات میں پوسٹل بیلٹ پیپر کی اہمیت بہت زیادہ ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں 10 فی صد افراد بھی پوسٹل بیلٹ کی سہولت سے استفادہ نہیں کرتے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ٹکراو کی نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے 
انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے لیے ضابطہ اخلاق  
انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق برائے قومی میڈیا 
جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات  
باہر شیر اندر ڈھیر  
پوسٹل بیلٹ پیپر اُن سرکاری ملازمین کو جاری کیا جاتا ہے، جن کی الیکشن کے موقع پر کسی پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی لگی ہوتی ہے۔ چوں کہ یہ سرکاری ملازمین ڈیوٹی چھوڑ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جاسکتے، لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اُن کے لیے یہ سہولت مہیا کی ہے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر سے ایک سادہ سا بنیادی معلومات پر مشتمل فارم حاصل کرکے اُسے پُر کرکے وہیں جمع کروا دیتے ہیں۔ الیکشن سے چند روز قبل اُنھیں بہ ذریعہ ڈاک بیلٹ پیپر مل جاتا ہے، جسے مکمل کرکے سرکاری ملازمین حوالۂ ڈاک کر دیتے ہیں، جو ضلعی ریٹرننگ آفیسر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے ہر حلقے کے پوسٹل بیلٹ پیپرز اکٹھے کرکے انتخابی امیدواروں کے الگ الگ لفافوں میں بند کر کے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر تک پہنچا دیے جاتے ہیں، جنھیں عام ووٹوں کی گنتی کے وقت انتخابی نتائج میں شامل کرلیا جاتا ہے۔
پوسٹل بیلٹ کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر 8300 پر میسج کرتے ہیں۔ آپ کو فوراً ہی جوابی میسج کے ذریعے آپ کا حلقہ، پولنگ سٹیشن نمبر اور ووٹ نمبر کی تفصیل مل جاتی ہے۔ یہ تفصیل درخواست فارم پر درج کر کے ڈسٹرکٹ الیکشن آفس میں جمع کروا دی جاتی ہے۔ وہاں سے بذریعۂ ڈاک چند روز بعد درخواست دہندہ کو پوسٹل بیلٹ موصول ہو جاتا ہے۔ وہ پوسٹل بیلٹ کو پُر کر کے اپنے انگوٹھے کا نشان ثبت کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن آفس کو بہ ذریعۂ ڈاک واپس ارسال کر دیتا ہے۔
ہمارے ہاں اکثر سرکاری ملازمین اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ صرف پوسٹل ووٹ کے حصول کے لیے وہ ضلعی صدر مقام کا سفر اختیار کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ ایک تو دوردراز کے سفر کی تکلیف، اُوپر سے سفر کا خرچہ بھی اپنی جیب سے ادا کرنا اُنھیں گھاٹے کا سودا لگتا ہے۔ اس طرح سے ملازمین کے لاکھوں ووٹ کاسٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں، جو ٹرن آؤٹ میں بھی نمایاں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ الیکشن ڈیوٹی پر مامور سرکاری ملازمین کے لیے پوسٹل بیلٹ پیپر کا حصول آسان بنائے۔ اس کے لیے قابلِ عمل تجویز یہ ہے کہ الیکشن سے قریباً دو تین ہفتے قبل جب سرکاری ملازمین کی الیکشن کے لیے ٹریننگ کروائی جاتی ہے، اُسی وقت پوسٹل بیلٹ پیپر کے حصول کے لیے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر تمام ملازمین سے درخواست فارم پُر کروا لے اور تین چار روز کے اندر بذریعۂ ڈاک اُنھیں پوسٹل بیلٹ پیپرز روانہ کر دیے جائیں۔ اس طرح سے واپسی کی مقررہ تاریخ تک سرکاری ملازمین پوسٹل بیلٹ پیپر واپس سپردِ ڈاک کرکے اس اہم قومی فریضے کو ادا کر سکیں گے۔
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پوسٹل بیلٹ پیپر کا پیکٹ اُس ادارے کے سربراہ کو ارسال کر دیا جائے جہاں سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ سربراہِ ادارہ، پوسٹل بیلٹ پیپر متعلقہ افراد تک پہنچا کر رسید ریٹرننگ آفیسر آفس میں جمع کروا دے۔
طریقہ جو بھی اختیار کیا جائے، لیکن الیکشن ڈیوٹی پر مامور انتخابی عملے کے ووٹ لازمی کاسٹ ہونے چاہئیں۔ اس سے ٹرن آؤٹ میں نمایاں اضافہ ہی نہیں ہوگا بلکہ سرکاری ملازمین بھی اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کر کے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرسکیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے