تاریخ پر لیو ٹالسٹائی کے خیالات کی اہمیت

Leo Tolstoy

انتخاب: نعمان ظہور
مؤرخ اور اَدیب دونوں اپنے نقطۂ نظر سے اپنے عہد کا مطالعہ کرتے ہوئے اور اُس کی اُلجھنوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ناول نگار جب اپنے عہد کی عکاسی کرتا ہے، تو اِس مقصد کے لیے وہ اپنے کردار خود تخلیق کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کے کردار کو کیا کرنا ہے۔ وہ اُن کے ذریعے معاشرہ کے ذہین اور وقت کے تقاضے کو اُجاگر کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مؤرخ جب ماضی کے بارے میں لکھتا ہے، جواب وہ حقائق اور دستاویزات کے مواد تک محدود ہوتا ہے اور اُس کی طاقت سے باہر ہوتا ہے، تو حقائق کو بدل سکے اور تاریخ کردار کو اپنی مرضی سے ڈھال سکے۔ اس لیے ادیب کو اس بات کی آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے تخیل کو استعمال کرکے جس طرح سے چاہے کرداروں کو ڈھال لے اور اُن کی روح کی تہہ تک پہنچ کر اُن کے جذبات ظاہر کرسکے۔ مؤرخ کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ حقائق کی موجودگی میں تخیل کو استعمال نہیں کر سکتا۔ اس لیے اس کے تاریخی کردار ایک دائرے میں رہتے ہوئے اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادیب کے کردار میں دل کشی اور جاذبیت ہوتی ہے۔ وہ زندہ اور احساسات سے بھرپور نظر آتے ہیں، جب کہ تاریخ میں یہ کردار جامد اور ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
مشہور ناول نگار لیو ٹالسٹائی (1910-1828) نے ’’جنگ اور امن‘‘ کے عنوان سے جو ناول لکھا ہے، اگرچہ اِسے تاریخی ناول تو نہیں کہا جاسکتا، مگر اِس ناول میں اُس نے اِس صورتِ حال کو بیان کیا ہے کہ جو نپولین کے روس پر حملے کے وقت تھی۔ ایک معاشرہ زمانۂ امن میں سے کس طرح سے تھا اور جب جنگ ہوتی ہے، تو وہی معاشرہ اور اس کے افراد کس طرح سے کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ اس ناول میں جگہ جگہ ٹالسٹائی تاریخ کے بارے میں اپنے نظریات بیان کرتا ہے۔ اس ناول اور اُن نظریات کی بنیاد پر برلن نے ایک مضمون "The Hedgehog and Fox” میں ٹالسٹائی کے نظریۂ تاریخ کو بیان کیا ہے۔
ٹالسٹائی کے اپنے زمانے میں تاریخ کے بارے میں نئے نظریات آچکے تھے، جن میں ایک اہم نظریہ تھا کہ تاریخ کو تشکیل دینے میں صرف شخصیات اہم رول ادا کرتی ہیں، اور ہر شخصیت تاریخ ساز ہوتی ہے۔ اس لیے تاریخ میں سوائے اُن شخصیات کے اور کوئی قابلِ ذکر نہیں ہوتا۔ ابتدا میں یہ عظیم شخصیتیں بادشاہوں، وزرا اور جرنیلوں کی ہوا کرتی تھیں، مگر بعد میں اُن میں علما، مفکروں اور شاعروں کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اس نظریے کے برعکس کچھ مؤرخوں نے 18ویں صدی میں نو آبادیاتی نظام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل دی کہ دنیا کی تاریخ میں جرمن قوم کا عظیم مقصد ہے اور یہ مقصد آزادی، مساوات اور یورپی تہذیب کا غلبہ ہے۔ ٹالسٹائی ان سب تاریخی نظریات کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تاریخ کا دائرہ اس قدر محدود نہیں، بلکہ وسیع اور پھیلا ہوا ہے اور یہ مورخ کا کام ہے کہ وہ تاریخ کو بطورِ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے واقعات کو صرف سطحی طور پر نہیں دیکھے، بلکہ ان کی گہرائی میں جائے۔
اکثر مؤرخ صرف سطحی واقعات کو دیکھتے ہیں۔ یہ اس طرح سے ہے کہ جیسے درخت کے پتے ہمیں اس کی جڑوں سے زیادہ خوب صورت اور دل کش لگتے ہیں، مگر درخت کی زندگی اور بنیاد پتوں میں نہیں بلکہ جڑوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے اگر تاریخی واقعات کی وجوہات کو نظر انداز کر دیا جائے، تو یہ تاریخ محض ترتیب وار واقعات کا مجموعہ بن کے رہ جائے گی، مگر اس کے ذریعے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔ کیوں کہ تاریخ میں یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ آؤن دی ٹریبل، جو کہ ایک نیک انسان تھا، آخر کیوں ظالم اور خوں خوار ہوگیا، یا اس طرح یہ سوال بھی ذہن میں اُبھرتا ہے کہ فرانسیسی انقلاب کے بعد تحریک اُٹھی۔ بالآخر ماسکو تک پہنچے، مگر اس عمل میں پورے یورپ میں قتل و غارت گری ہوئی۔ کھیتیاں اُجڑیں، مکانات جلائے گئے، تجارتی راستے بند ہوگئے، ہزارہا لوگ بے گھر ہوگئے اور حالات کے تحت مجبور ہوں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کر جائیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
لیو ٹالسٹائی کا اعتراف 
لیو ٹالسٹائی کا ادبی مقام 
جنگ اور امن (تبصرہ) 
اس بحران میں اُن عیسائیوں نے کہ جو عدمِ تشدد اور امن کے حامی سمجھے جاتے تھے، اپنے ہم مذہبوں کو قتل کیا۔ آخر یہ سب کیوں ہوا، اس کی کیا وجہ ہے؟ لوگوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی، ساتھیوں کو قتل کیا گیا اور تباہی و بربادی پھیلائی گئی۔ ان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نقطۂ نظر ان سوالات کا جواب تلاش کرتا ہے؟ کیوں کہ تاریخ کو مذہبی اور الٰہی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو خدا نے نپولین کو قہرِ الٰہی کی شکل میں بھیجا۔ اس نے خدا کے منصوبے کی تکمیل کی۔ یہ تاریخ اتنا سادہ اور سہل ہے کہ اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
تاریخی عمل کو سمجھنے کے لیے اہم سوال جو پیدا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں کہ جو لوگوں کو حرکت پر مجبور کرتی ہیں؟ اس کا جواب اکثر مؤرخ یہ دیتے ہیں کہ تاریخی عمل میں حرکت کے لیے عظیم شخصیت یا نظریہ ضروری ہوتا ہے۔ تاریخ میں فرد کے کردار کو بیان کرتے ہوئے دقت پیش آتی ہے کہ آخر اگر مؤرخوں کا تعلق کس قوم سے ہوتا ہے، وہ ایک ہی باتوں کو اپنی پسندیدہ شخصیت سے منسوب کر دیتے ہیں، جیسے فرانسیسی مؤرخ کے لیے نپولین تاریخ ساز شخصیت تھا، تو روسی مؤرخ کے لیے الیگزینڈر، جرمنی کا مؤرخ اپنی کسی شخصیت کو چن لے گا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی قوم کے مؤرخ واقعات کو علاحدہ علاحدہ نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً: ٹیر (Thiers) نپولین کو ذہین اور بلند و بالا شخصیت کے طور پر دیکھتا ہے، مگر دوسرا مؤرخ جو جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے، اُس کے لیے وہ ایک دھوکے باز اور فریبی تھا۔ مؤرخ ان متضاد بیانات کی وجہ سے اس قوت کی نشان دہی نہیں کرسکتے کہ جو قوموں کو متحرک رکھتی ہے اور یوں تاریخ اہم سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتی ہے۔
ٹالسٹائی اس بحث سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ تاریخ ایک محدود علم ہے۔ یہ سیاسی، معاشی اور سماجی پہلو کو تو بیان کرتی ہے، مگر انسان کی روحانی اور باطنی زندگی اس کی گرفت سے باہر رہتی ہے۔ اس طرح تاریخ انسان کی زندگی کی بہت سے ہی مختصر حصے کو اپنے دایرۂ کار میں لاتی ہے۔
ٹالسٹائی تاریخ میں عظیم افراد اور ان کے کردار کی نفی کرتا ہے۔ اس لیے کہ تاریخ میں وہی لوگ مفید کام سرانجام دیتے ہیں، جو تاریخی عمل سے بے خبر ہو کر کچھ کرتے ہیں، مگر وہ افراد جو تاریخی تقاضوں سے مجبور ہوکر کچھ کرتے ہیں، اُن کے کام لاحاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی فرد کا یہ دعوا کہ انسانی فطرت کو سمجھتا ہے اور منصوبہ بندی کے ذریعے انسانوں کو اپنے قابو میں لا سکتا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسا شخص خود ہی بدنصیبی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال نپولین کی ہے، جس نے یہ تاثر دیا کہ وہ سب کچھ سمجھتا ہے اور اس میں اتنی ذہنی صلاحیت ہے کہ وہ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے اور تاریخی عمل سے جو مسائل پیدا ہوئے، وہ اُنھیں بخوبی حل کرسکتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ آخر میں نپولین قابلِ رحم شخصیت بن گیا اور حالات نے جو ایک عظیم المیہ پیدا کیا، اُس کا سب سے بڑا المیہ وہ خود ہوگیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ وہ افراد جو یہ دعوا کرتے ہیں کہ وہ تاریخ ساز ہیں اور تاریخی عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں، ایسے لوگ نہ صرف کھوکھلے ہوتے ہیں، بلکہ خود فریبی کا شکار بھی ہوتے ہیں…… اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے بے مقصدیت پیدا کرکے حقیقت سے دور رہتے ہیں۔
اسی لیے عظیم افراد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ معمولی اور ناواقف لوگ ہوتے ہیں، جو ساری ذمے داریوں کو سنبھال لینے کا دعوا کرتے ہیں، مگر خود اپنی بے وقتی کو تسلیم نہیں کرتے۔ بڑا آدمی یا فرد اُس جانور کی طرح ہوتا ہے کہ جسے ذبح کرنے کے لیے قربانی کے لیے تیار کرکے فربہ کیا جاتا ہے۔ اُس کے گلے میں جو گھنٹی ہوتی ہے، اُس کے بجنے سے وہ سمجھتا ہے کہ پورا ریوڑ اس کی آواز پر حرکت کرتا ہے اور وہ اُن کا لیڈر ہوتا ہے، مگر اُس کا اصل کردار رہنمائی اور لیڈری کا نہیں ہوتا، بلکہ قربانی کا ہوتا ہے، مگر یہ عظیم افراد اس راز کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتے اور آخر میں قربان گاہ تک پہنچ کر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
ٹالسٹائی کے نزدیک انسان کی شخصیت بڑی پیچیدہ اور اُلجھی ہوئی ہے اور یہ بڑی مشکل ہے کہ انسان کی شخصیت کو کسی قانونی ضابطے کے تحت لایا جاسکے، یا اس کے نقطۂ نظر کے تحت بیان کیا جاسکے ۔
ٹالسٹائی نے تاریخ کی جس کم مائیگی کی طرف اشارہ کیا ہے، اُس میں حقیقت ہے، مگر بیسویں صدی میں تاریخ نے اپنے دایرۂ کار کو وسیع کیا اور اس کی کوشش ہے کہ وہ انسان کے کردار، اُس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت، اُس کے جذبات و احساسات کو بھی واقعات کے حوالے سے دیکھے۔ اس میں تاریخ ایک دوسرے سماجی علوم کی مدد لے رہی ہے، اُن کی مدد سے افراد معاشرہ کو نئے انداز میں دیکھ رہی ہے۔ اس لیے اب تاریخ محض سیاسی واقعات کا مجموعہ نہیں رہی، بلکہ اس میں سماجی و ثقافتی اور نفسیاتی پہلو بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئی تاریخ سے انسانی ذہن اور انسانی عمل کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ٹالسٹائی نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ تاریخ اُن کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ کون سے حالات ہیں کہ لوگ پُرامن شہری کی بجائے پُرتشدد ہوجاتے ہیں؟ کن حالات میں نسلی، لسانی اور مذہبی ثقافت اُبھرتی ہے؟ افراد اور لوگوں کے مفادات کبھی اُن کو محب وطن بنا دیتی ہیں، تو کبھی وہ بالکل بے حس ہو جاتے ہیں۔ جب سے قوموں میں جمہوری روایات کے تحت سیاسی و سماجی شعور آیا ہے، اس کے ساتھ ہی اُن کے کرداروں میں تبدیلی بھی آئی ہے اور تاریخی عمل میں ان کی شرکت بڑھ گئی ہے، اور اسی کے ساتھ عظیم افراد کی قوت بھی گھٹ گئی ہے ۔
تاریخ پر ٹالسٹائی کے ان خیالات کی اہمیت ہے کہ وہ ایک ادیب بھی ہے اور اس کی قوتِ متخیلہ اس قدر گہری ہے کہ وہ انسانی کرداروں میں داخل ہوکر ان کے احساسات اور جذبات کو جانچ لیتی ہے۔ اسی لیے وہ ادب اور تاریخ کو جب ملا کر خیالات کا اظہار کرتا ہے، تو اس میں ایک نئی ترواٹ ہوتی ہے۔ اس کے ہاں بھی بہت سے سوالات بغیر جواب کے رہ جاتے ہیں، مگر یہ ضروری ہے کہ قاری خود بھی اپنے ذہن کو استعمال کر کے ان سوالات کا جواب ڈھونڈے تا کہ سچ کی تلاش میں وہ بھی برابر کا شریک ہو۔
(ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’بدلتی ہوئی تاریخ‘‘ سے انتخاب)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے