یادوں کی پوٹلی سے

Blogger Fazal Raziq Shahaab

سرِ دست اہل دانش سے ایک سوال ہے۔ سب سے پہلے تو یہ واضح کروں کہ مَیں ذات پات کے حوالے سے قرآنی رہنمائی کا قائل ہوں کہ شعوب و قبائل صرف پہچان کے لیے ہیں…… اور اکرام صرف اعمال و تقوا کی بنیاد پر ہے۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ مینگورہ کے سب سے بااثر طبقہ یعنی تاجر پیشہ بورژوا کلاس نے تحقیقات کرواکر یہ ثابت کرنے کی سعی کی ہے کہ اُن کا نسلی تعلق متراوی پختون سے ہے، جو یوسف زئیوں کی آمد اور غلبے سے پہلے یہاں سوات میں حکم ران تھے۔ یہ تین پختون قبیلوں میں سے ایک قبیلہ ہیں، جن کو شاہانِ غور نے ہندوشاہی کے خاتمے کے بعد سوات میں لاکر بسایا تھا۔ دیگر دو قبیلے ممیالی اور گبری تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ مینگورہ کا وہ طبقہ جن کو لوگ ’’پراچہ‘‘ کہتے تھے، یا ’’سیٹھان‘‘ پکارے جاتے تھے، وہ تو متراوی پختون نکل آئے۔ کیا یہ نئی تحقیق اُن تمام پراچکان پر منطبق ہوگی جو سوات کے ہر گاؤں، ہر قصبہ اور ہر بستی میں صدیوں سے مقیم ہیں۔ جو دن رات گدھے، خچر اور ٹٹو دوڑا دوڑا کر معاشرے کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں۔ جن کی خدمات کھیت کھلیان سے گھر تک ہر وقت جاری و ساری رہتی ہیں، جن کی صدیوں پرانی تجارتی گزرگاہیں یہاں سے لے کر کاشغر، سمرقند اوربخارا تک پہاڑوں اور دریاؤں کو عبور کرتی ہیں۔ جن راستوں کو "Mule Tracks” کہتے ہیں اور جن پر تجارت کرنے والوں کو "Muleteers” کے نام سے متشرقین نے یاد کیا ہے…… یا جو ہمارے تمام قصبوں میں مقامی مالکانِ زمین کی خدمت میں دن رات لگے رہتے ہیں…… تو عرض یہ ہے کہ اُن کو بھی کوئی محقق اپنی "Origion” بتائے۔ کیا یہ گبری ہیں، یا ممیالی……؟ ویسے جینیاتی تحقیقات نے تو ڈھیر سارے دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔
٭ اب کچھ ڈگر کی پرانی سیاست کا ذکر ہوجائے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سوات کی سیاست عام طور پر ’’دو ڈلہ‘‘ کے اُصولوں پر چلتی رہی ہے۔ یہ ’’دو ڈلہ‘‘ اُصول ریاست کے قیام سے پہلے بھی موجود تھے اور بعد میں بھی۔ بس فرق صرف اتنا آیا کہ ایک ڈلہ "Pro Wali” اور دوسرا "Anti Wali” بن گیا۔ یہ اُس طرح کے شدت پسند مخالف نہیں تھے کہ ریاست کو کم زور کرتے، مگر کچھ نہ کچھ مخالفت ضرور نمایاں دکھائی دیتی تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
علامہ نور الاسلام المعروف فلائنگ کوچ مولوی صیب 
محمد افضل خان لالا کی یاد میں 
سوات ہوٹل  
چترال کا پہلا تاریخ دان  
حاجی شیر زادہ (مرحوم)، مینگورہ کے ایک کامیاب تاجر  
کچھ تصدیق اقبال بابو (مرحوم) کے بارے میں 
سیاسی لحاظ سے جو والی کے حمایتی تھے، وہ مسلم لیگ میں چلے گئے…… اور دوسری طرف والے نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام سے وابستہ ہوگئے۔
جب مغربی پاکستان ایک یونٹ تھا، تو اس کی اسمبلی میں ریاست کی 8 نشستیں تھیں۔ ڈگر سے اس نشست پر یعقوب خان نے بھی ریاست کی نمایندگی کی تھی۔ وہ ایک سادہ مزاج پختون تھے۔ بعد میں عمومی فارمولے کے مطابق دوسرے ڈلے میں چلے گئے۔ اُن کے مخالف ڈلہ میں اُنھی کے خاندان کے ایک سر بر آوردہ شخص عبدالروف خان نے نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اُن کے ایک بھائی محمد روف خان ریاست کی فوج میں صو بے دار میجر تھے۔ دوسری جانب یعقوب خان کے بیٹے شاہ بروس خان صوبے دار تھے۔
ریاست کے ادغام کے بعد عبدالروف خان نے مسلم لیگ قیوم گروپ میں شمولیت اختیار کی اور یعقوب خان نیشنل پارٹی میں چلے گئے۔ وہ اُس وقت کافی عمر رسیدہ ہوگئے تھے۔71 کے الیکشن میں عبدالروف خان قیوم لیگ کے ٹکٹ ہر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔
یعقوب خان صاحب کو نیپ سے تعلق کی بنا پر کئی دفعہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ نیپ پر پابندی کے بعد ان کو ہری پور جیل بھیج دیا گیا۔
اب وہ صحت کے مسائل سے بھی دوچار تھے۔ نصراللہ خٹک جب صوبے کے وزیرِ اعلا تھے، تو اُنھوں نے خود ڈگر آکر یعقوب خان کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی۔
عبدالروف خان 77 کے الیکشن میں دوبارہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے، مگر وہ انتخابات پی این اے کی تحریک کی نذر ہوگئے اور مارشل لا نے سب کچھ لپیٹ لیا۔
٭ کچھ اچھی روایات جو اَب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں:۔
ہمارے افسر آباد کے قیام کے دوران میں سول افسروں کا ٹرانسفر ہوتا رہتا تھا، مگر فوجی افسروں کی رہایش تقریباً مستقل رہتی تھی اور صرف ریٹائرمنٹ پر اپنے اپنے گاؤں شفٹ ہوجاتے۔ میرے والد بھی چوں کہ فوجی دفتر میں ملازم تھے، تو ہم بھی افسر آباد کے مستقل رہنے والوں میں شامل تھے۔ جب کسی سول آفیسر جیسے تحصیل دار حاکم یا مشیر وغیرہ یہاں تبدیل ہوکر آتے، تو جانے والے گھر خالی کرچکے ہوتے۔ نئے آنے والے کو دو تین دن "Settle” ہونے میں ضرور لگتے، تو ان دنوں کے لیے وہ فوجی افسروں کے باری باری مہمان ہوتے، یعنی ان کو کھانا چائے وغیرہ ان کے گھروں سے آتا۔
اسی طرح جب ہم پرانے افسر آباد سے سڑک کے کنارے بنگلے میں شفٹ ہوگئے، تو ڈاکٹر شیرین جان اور دوسرے پڑوسیوں نے ہمیں دو روز تک کھانا بھجوایا۔
ادغام کے بعد صرف ہم ہی نے یہ روایت قائم رکھی۔1980ء میں ہم گاؤں آگئے، لیکن یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ روایت بھی ریاست کے ساتھ دم توڑ گئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے