بعض لوگ قسمت کے بڑے دھنی ہوتے ہیں۔ زندگی کے جس شعبے میں بھی چلے جائیں، کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ خوش قسمت ترین ہوتے ہیں کہ ایک سے زاید شعبوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور سبھی شعبوں میں کامیابی اُن کے قدم چومتی ہے۔ اس سلسلے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی مثال دی جاسکتی ہے، جو کرکٹ میں اس قدر عروج تک پہنچے کہ جس کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ سماجی خدمات کے شعبے کی طرف رجحان ہوا، تو شوکت خانم جیسا عظیم الشان پراجیکٹ مکمل کر دیا۔ تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے تو ’’نمل یونیورسٹی‘‘ کا قیام عمل میں آگیا۔ سیاست کے میدان میں قدم رکھا، تو وزارتِ عظمیٰ جیسے سب سے بڑے منصب پر پہنچ گئے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
پامسٹری اور آسٹرالوجی کی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ جس شخص کے ہاتھ میں دماغ کی دو لکیریں ہوتی ہیں، وہ اپنی فانی زندگی میں ایک سے زاید جنم لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ایسا شخص ایک سے زاید شعبوں میں زبردست کامیابی اور شہرت سمیٹتا ہے اور اس طرح ایک ہی زندگی میں کئی جیون جی لیتا ہے۔
یہ توعلم نہیں کہ ایک وقت کے لیجنڈ گلوکار اور فانی زندگی کے دوسرے جنم میں عالمی شہرت یافتہ نعت خواں کہلانے والے جنید جمشید کے ہاتھ میں بھی دماغ کی دو لکیریں تھیں یا نہیں…… مگر اُنھوں نے ان دونوں شعبوں میں بے پناہ شہرت اور عزت سمیٹی جب کہ تیسرے شعبے میں وہ ایک کامیاب بزنس مین کے روپ میں سامنے آئے۔
جنید جمشید 3 ستمبر 1964ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے لاہور سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ اپنے والد کی خواہش اور نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان ایئر فورس جوائن کی۔ اُن کی بڑی خواہش تھی کہ ’’ایف 16‘‘ اُڑائیں…… مگر نظر کی کم زوری آڑے آئی اور اُنھیں پاکستان ایئر فورس کو خیرباد کہنا پڑا۔ وہ بڑے متحرک نوجوان تھے۔ ہمہ وقت کچھ کرنے کی دُھن اُس کے سر پر سوار رہتی۔ اُنھوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا میوزیکل گروپ ’’وائٹل سائنز‘‘ بنایا اور لیڈنگ سنگر کے طور پر پرفارم کرنے لگے۔
جنید جمشید نے 1987ء میں ملی نغمہ ’’دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘‘ ریلیز کیا اور اس گیت نے اُنھیں راتوں رات سپر سٹار بنا دیا۔ اس ملی نغمے نے قومی ترانے کی حیثیت اختیار کرلی۔ چھوٹے بڑے سب کی زبان پر یہی نغمہ تھا۔ ہر محفل اور ہر تقریب میں یہ گیت گایا جانے لگا۔ جنید جمشید کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گئی۔ پورے 15 سال تک جنید پاپ سنگر کی حیثیت سے ٹاپ پر براجمان رہے۔ ان سے متاثر ہو کر بہت سے پاپ سنگنگ گروپ معرضِ وجود میں آئے، مگر جو پذیرائی جنید جمشید کے حصے میں آئی، وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔
پاپ سنگر کے طور پر جنید کے البم ’’وائٹل سائنز ون‘‘، ’’وائٹل سائنز ٹو‘‘، ’’اعتبار‘‘، ’’ہم تم‘‘، ’’تمھارا اور میرا نام‘‘، ’’اُس راہ پر‘‘، ’’دی بیسٹ آف جنید جمشید‘‘ اور ’’دل کی بات‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئے۔یہ سبھی البم کامیاب رہے اور جنید کے حصے میں وہ شہرت آئی، جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
نثار بزمی کی یاد میں 
منو بھائی کی یاد میں 
میاں گل عدنان اورنگ زیب کی یاد میں 
محمد افضل خان لالا کی یاد میں 
شیر افضل خان بریکوٹی کی یاد میں
پاپ سنگر کے طور پر انتہائی کامیاب کیریئر رکھنے والے جنید جمشید کی زندگی میں 2002ء میں اچانک انقلاب آگیا۔ شاید قدرت کی طرف سے بے پناہ شہرت دے کر اُنھیں اس انقلاب کے لیے ہی تیار کیا جا رہا تھا۔ جنید اپنی کار میں میوزیکل شو کرنے کے لیے گھر سے نکلے۔ کراچی ڈیفنس کے علاقے میں اُن کی کار کی ٹکر سے ایک کتا جاں بحق ہوگیا۔ اُنھوں نے کار سے اُتر کر کتے کو سڑک سے ہٹایا اور قریبی خالی پلاٹ میں دفنا دیا۔ تبھی اُس نے اللہ کو گواہ بنا کر میوزک کی دنیا چھوڑنے کا وعدہ کرلیا۔ اُن کے دل اور دماغ نے ایک ساتھ پلٹا کھایا تھا۔ اُن کا رجحان دین کی طرف ہوگیا۔ جنید نے اچانک گلوکاری کو خیر باد کَہ دیا۔ اس کے لیے اُنھیں کافی مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیوں کہ اُنھیں بہت سے آرگنائزروں سے آیندہ دو سال تک کے طے شدہ پروگراموں کے لیے ایڈوانس میں لیے گئے پیسے واپس کرنا پڑے، مگر یہ اُن کے لیے گھاٹے کا سودا نہ تھا۔ اُنھوں نے اس راستے کا انتخاب کر لیا تھا جس پر چلنے والا کبھی گھاٹے میں رہتا ہی نہیں۔
گلوکاری کو خیر باد کہنے کے بعد جنید جمشید نے اپنی زندگی دینِ اسلام کے فروغ اور تبلیغ کے لیے وقف کر دی اور پھر دنیا نے اُنھیں بطورِ مبلغ، داعی اور نعت خواں دیکھا۔ اُن کا حمدیہ اور نعتیہ کلام 2005ء میں ’’جلوۂ جاناں‘‘، 2006ء میں دوسرا البم ’’محبوبِ یزداں‘‘، 2008ء میں ’’بدرالدجا‘‘ اور 2009ء میں ’’بدیع الزماں‘‘کے نام سے ریلیز ہوئے۔ اس دوران میں جنید جمشید نے اپنا بزنس شروع کیا، جس کی شاخیں آج پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ اور اللہ تعالا نے اُن کے کاروبار میں اتنی برکت ڈالی جس کا کئی فیشن ڈیزائنر صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
بلاشبہ جنید جمشید ایک متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔ اُنھوں نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہم راہ چترال میں تبلیغی دورے پر گئے اور 7 دسمبر 2016ء کو اسلام آباد واپسی کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ 661 میں سوار ہوئے۔ یہ فلائٹ راستے میں فنی خرابی کا شکار ہوگئی اور حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گئی، جس میں عملے کے پانچ ارکان سمیت 48 افراد اللہ کے حضور پیش ہوئے۔
جنید جمشید اپنی زندگی کے آخری تین سال اے آر وائی رمضان ٹرانس میشن کا مستقل حصہ رہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذہبی پروگراموں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ قدرت کو شاید اُنھیں بلانے کی بہت جلدی تھی اسی لیے ایک مختصر سی زندگی میں وہ کئی زندگیاں جلدی جلدی جی گئے اور اپنی یادوں کے نقوش چاہنے والوں کے دل و دماغ پر ثبت کرگئے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اُنھوں نے چترال سے اپنی زندگی کی آخری یادگار تصویر پوسٹ کی، جس کے کیپشن میں اُنھوں نے لکھا: ’’مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ جنت میں ہوں اور تبلیغ کا کام کر رہا ہوں!‘‘
جنید جمشید کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2007ء میں تمغائے امتیاز سے نوازا گیا اور 2014ء میں اُنھیں دنیا کی 500 با اثر مسلم شخصیات میں بھی شامل کیا گیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔