کئی سالوں سے عام لوگوں اور تحقیق کرنے والے طلبہ کی طرف سے اس سوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یا بار بار یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ سوات میں بڑے بڑے اور طاقت ور یوسف زی خوانین موجود تھے، تو ضرورت پڑنے پر اُنھوں نے اپنے میں سے کسی کو سوات کا حکم ران کیوں نہیں بنوایا؟ ہر دفعہ اُنھوں نے باہر سے کسی کو بلا کر حکم ران بنوایا، خواہ 1849-50ء میں سید اکبر شاہ تھا یا 1915ء میں سید عبدالجبار شاہ…… یا 1917ء میں سوات سے تعلق رکھنے والا غیر یوسف زے میاں گل عبدالودود؟
ڈاکٹر سلطانِ روم کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/dr-sultan-e-rome/
اس سوال کا جواب تاریخی پس منظر میں جائے بغیر صحیح طور پر دینا، سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے۔ لہٰذا اس کے لیے سولھویں صدی عیسوی میں سوات پر یوسف زی قبیلے کے قبضے اور اس کے نتیجے میں یہاں پر معرضِ وجود میں آنے والے سماجی و سیاسی نظام پر کچھ بحث کرنا ضروری ہے۔
سولھویں صدی عیسوی میں جب یوسف زی قبیلہ سوات پر قابض ہوکر یہاں پر ایک بالادست طاقت بنا، تو اس نے یہاں کوئی حکوت قائم کی اور نہ کسی کو اپنا حکم ران ہی بنوایا…… بلکہ اُنھوں نے ایک ایسے سیاسی و سماجی نظام کی بنیاد ڈالی جس میں وہ دو حریف ڈلوں یعنی دھڑوں (واحد ڈلہ، جمع ڈلے) میں بٹے رہے۔ ہر ایک دھڑے کا اپنا ایک سربراہ ہوتا تھا اور یہ دھڑا بندی اوپر وادیٔ سوات کی سطح سے نیچے گاؤں کی سطح تک موجود تھی۔
اس نظام میں متعلقہ افراد مَلَک اور خان کے القابات سے اپنا راہ نما یا نما یندے چنتے تھے۔ اُن راہ نماؤں کو بعض حقوق اور مراعات حاصل ہوتی تھیں، لیکن اُن کے فرائض اور ذمے داریاں بھی تھیں۔ اُن کے فرائض اور ذمے داریوں میں اپنے متعلقہ لوگوں کے مفادات کا تحفظ، قبائلی جرگوں میں اُن کی نمایندگی کرنا، اور لڑائی جھگڑوں میں اُن کی سرکردگی کرنا بھی شامل تھا۔ اگر اُن میں سے کوئی اپنے فرائض اور ذمے داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتا، تو اُس کو اُس منصب سے ہٹا کر اُس کی جگہ کسی دوسرے کو اپنا مَلَک یا خان منتخب کیا جاتا تھا۔
اگرچہ اس نظام میں سوات کے باشندے اندرونی طور پر تقسیم تھے، اُن میں اتحاد مفقود تھا اور ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہتے تھے، تاہم اجتماعی خطرات کی صورت میں وہ آپس کے لڑائی جھگڑوں، باہمی رقابتوں اور دشمنیوں کو پسِ پشت ڈال کر مشترک دشمن کا سامنا اور مقابلہ کرتے تھے۔ اس کی ایک بڑی مثال سولھویں صدی عیسوی ہی میں ہندوستان کے مغل حکم ران اکبر کا سوات پر حملوں اور لشکر کشی کے مواقع پر دیکھنے کو ملا، جس میں آخرِکار مغل حکم ران اور اُس کی فوجیں نہ صرف اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہوئیں، بلکہ اُن کو ہزیمت بھی اُٹھانا پڑی اور اُن کی بڑی رسوائی بھی ہوئی۔ اس کے بعد بوقتِ ضرورت اس قسم کے طرزِ عمل کی مثالیں 1849ء یا 1850ء میں سید اکبر شاہ کو حکم ران بنوانے، 1857ء میں اُس کی وفات پر اُس کے بیٹے مبارک شاہ کے حکم ران بننے کے بعد اُس کو اقتدار سے ہٹا کر سوات سے نکلوانے، 1863ء کی جنگِ امبیلہ کے موقع پر، 1895ء اور 1897ء میں ملاکنڈ کی جنگوں کے موقع پر، 1915ء میں نوابِ دِیر کے خلاف جنگ کے موقع پر، 1915ء میں ریاستِ سوات کے قیام اور عبدالجبار شاہ کو اس کا حکم ران منتخب کرنے، ستمبر 1917ء میں عبدالجبار شاہ کو اقتدار سے سبک دوش کرنے اور اُسی مہینے میاں گل عبدالودود کو حکم ران بنانے کی ہیں۔
سوات کے یوسف زی اپنی کسی ریاست اور حکومت کے قیام اور کسی کو اپنا حکم ران مقرر کرنے کی ضرورت محسوس کرتے تھے اورنہ آپس میں دھڑا بندیوں میں تقسیم اور مشت و گریباں رہنے سے نجات کا سامان کرتے نظر آئے۔ اس کی بڑی وجہ ان کا اپنے میں سے کسی کو اپنے اوپر حکم ران بنانے یا مسلط کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ ان میں آپس میں برابری یا ہم سری کا ایک احساس تھا، جو اُن میں کسی کو حکم ران بننے کی صورت میں ختم ہونے کا خدشہ تھا۔ اس کا اظہار اُس وقت کھل کر سامنے آیا،جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1849ء میں پنجاب کی سکھ ریاست کو ختم کرکے اُس کے علاقے اپنے قلم رو میں شامل کیے۔ اِس کے نتیجے میں موجودہ خیبر پختونخوا کے وہ علاقے بھی اُن کے قلم رو میں شامل ہوئے جو پنجاب کی سکھ ریاست کا حصہ تھے۔
موجودہ خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرِ نگیں آنے کے بعد پختون قبائل سے اُن کی مڈبھیڑ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں اُنھوں نے سم رانیزی کے خلاف تعزیری مہمات بھیجنا شروع کیں اور اس سلسلے میں وہ وادیٔ سوات کی سرحد تک پہنچ گئے۔ جب یہ تعزیراتی مہمات وادیٔ سوات کی سرحدوں تک پہنچ گئیں، تو سوات کے قبائلی عمائدین اپنی آزادی کو درپیش خطرے کا سد باب کرنے، اپنی آزادی کو برقرار رکھنے اور اپنے دفاع کی خاطر ایک بادشاہ نام زد کرنے پر تیار ہوئے۔ تاہم اِس موقع پر اِس منصب کے لیے یوسف زی قبائلی عمائدین میں سے کئی ایک دعوے دار یا امیدوار سامنے آئے۔ اِس پر دِیر کے اُس وقت کے خان (غزن خان جو کہ خود یوسف زے ہی تھا) نے یہ دھمکی دی کہ وہ کسی یوسف زی سردار کو حکم ران تسلیم نہیں کریں گے۔ اُس نے کسی یوسف زی سردار کی حکم رانی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک غیر یوسف زی پیر اخون عبدالغفور المعروف سیدو باباکو حکم ران بنانے کی تجویز پیش کی اور اپنی طرف سے اُس کو بہ طورِ حکم ران ماننے پر آمادگی ظاہر کی۔ غزن خان کی اس دھمکی اور انکار نے ایک اُلجھن اور پیچیدہ صورتِ حال پیدا کی۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ریاستِ سوات کے قلعے 
ریاستِ سوات اور سیاحت
ریاستِ سوات کا عدالتی نظام
ریاستِ سوات کے سول اور عدالتی نظام کے چند پہلو   
ریاستِ سوات دور کے سڑکیان 
ایک طرف سیدو بابا خود حکم رانی کے منصب کو بہ وجوہ قبول کرنے پر تیار نہ تھا، تو دوسری طرف غزن خان کسی یوسف زی کا حکم ران ماننے پر آمادہ نہ تھا۔ لہٰذا یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کسی کو حکم ران بنانے کے انتخاب کا یہ مسئلہ پھوٹ کا سبب نہ بن جائے اور اُس وقت کی اہم ترین ضرورت یعنی انگریزوں یا برطانویوں کا مقابلہ کرنے اور اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی کو اپنا حکم ران بنانے اور اتحاد قائم رکھنے کا خواب بکھر نہ جائے۔ تاہم اس مسئلے کا حل سیدو بابا ہی نے یہ نکالاکہ اُس نے سوات سے باہر کے ایک فرد سید اکبر شاہ (جو کہ ستھانہ کا باشندہ تھا، سید احمد بریلوی کا ساتھی رہ چکا تھا، اور سید علی ترمذی المعروف پیر بابا کی اولاد میں سے تھا) کا نام حکم رانی یا بادشاہت کے لیے اپنی طرف سے تجویز کیا۔
مزید یہ کہ سیدو بابا نے اُسے ایک طاقت ور، ذہین اور اسلامی اُصولوں پر کار بند شخص قرار دیا۔ علاوہ ازیں وہ پیر بابا کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے سیّد ہونے کی اضافی خوبی کا حامل بھی تھا۔ لہٰذاغزن خان کا کسی یوسف زی سردار یا خان کو حکم ران ماننے سے انکار ایک غیر یوسف زی اور سوات کا باشندہ نہ ہونے والے ایک اجنبی فرد کو 1849ء یا 1850ء میں سوات کا حکم ران بنانے پر منتج ہوا۔
سید اکبر شاہ 11 مئی 1857ء کو اپنی وفات تک سوات کا حکم ران رہا۔ اُس کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا سید مبارک شاہ اُس کا جانشین اور سوات کا حکم ران بنا۔ ایک طرف سوات کے بااثر لوگ یا مَلَک اور خوانین اور زمینوں کے مالک، جو اس قسم کی باتوں کے خوگر نہ ہونے کی وجہ سے، پہلے سید اکبر شاہ کے دور میں حکومتی پابندیوں اور زرعی پیداوار پر عشر وغیرہ کی ادائیوں سے ناخوش تھے اور اسی وجہ سے اُس کے بیٹے اور جانشین مبارک شاہ کی حکم رانی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس لیے کہ اِس صورت میں ایک طرف اُن کو اپنی زرعی پیداوار پر حکم ران کو عشر ادا کرنا ہوتا اور دوسری طرف حکومتی پابندیاں اور قدغنیں برقرار رہتیں۔ دوسری طرف مبارک شاہ کے سوات میں حکم ران رہنے کی صورت میں سیدو بابا کا اثر و رسوخ کم ہونے کا خدشہ تھا۔ یہ اس لیے بھی تھاکہ جن ہندوستانی سپاہیوں نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران میں مردان میں بغاوت کی، اُنھوں نے انگریز فوج کے مقابلے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے انگریزوں کے زیرِ قبضہ علاقوں سے فرار ہوکر سوات آنے پر سید مبارک شاہ کا ساتھ دیا۔ اس سے مبارک شاہ کی قوت میں کسی حد تک اضافہ ہوا اور سیدو بابا کا اثر ورسوخ کم ہونے کا خطرہ پیدا ہوا۔ لہٰذا سیدو بابا کی ذاتی وجوہات کی وجہ سے مبارک شاہ کی حمایت نہ کرنے اور اُسے اور اُس کے حامی اُن ہندوستانی سپاہیوں کو سوات سے نکالنے کے نتیجے میں سوات کی اُس ریاست کا خاتمہ ہوا۔
اس کے بعد اگرچہ سیدو بابا نے دو مرتبہ یعنی مئی 1871ء اور جون 1875ء میں اپنے بڑے بیٹے میاں گل عبدالحنان کو سوات کا حکم ران بنانے کی بلا واسطہ کوششیں کیں، لیکن وہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ 12 جنوری 1877ء کو سیدو بابا کی وفات تک سوات بغیر کسی حکم ران کے رہا۔ تاہم اس کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا میاں گل عبدالحنان، دِیر کا خان رحمت اللہ خان، اور رانیزی کے الہ ڈنڈ کا شیر دل خان سوات میں حکم رانی کی دوڑ میں شامل رہے۔ اس وقت سوات میں دو دھڑوں میں سے ایک کا سربراہ میاں گل عبدالحنان تھا اور دوسرے کا الہ ڈنڈ کا شیر دل خان تھا۔
اپریل 1880ء میں شیر دل خان کی وفات پر سوات کے سیاسی اختیارات بڑی حد تک دِیر کے خان رحمت اللہ خان کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ سوات میں کئی سالوں سے جاری دھڑے بندی کے مناقشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رحمت اللہ خان 1881ء کے آخر تک دریائے سوات کے دائیں جانب کے علاقوں کا عملی طور پر حکم ران بن بیٹھا۔ تاہم ایک طرف اپنے بیٹے اور دوسری طرف باجوڑ کے خان کے ساتھ مناقشوں کے نتیجے میں وہ پورے سوات کو اپنی عمل داری میں لانے میں ناکام رہا۔ ایک طرف دِیر کے خان رحمت اللہ خان اور اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے محمد شریف خان اور میاں گل عبدالحنان کے درمیان سوات میں حکم رانی کی رسہ کشی جاری تھی، تو دوسری طرف اس دوران میں باجوڑ میں عمرا خان نے اپنے بھائی کو قتل کرکے اقتدار پرقبضہ کرلیا۔ باجوڑ میں اپنی قوت کو مضبوط کرنے کے بعد عمرا خان بھی سوات کے اقتدار کی رسہ کشی میں شامل ہوا۔ اس دوران میں میاں گل عبدالحنان 1887ء میں وفات پاگیا۔
جندول کے خان، عمرا خان، کے سوات پر قبضے کے خطرے کے پیشِ نظر سوات کے خوانین نے کسی کو اپنا حکم ران بنانے کی ضرورت محسوس کی۔ تاہم اُن کے مابین اِس بات پر اختلاف تھا کہ کس کو حکم ران بنایا جائے؟ اُن میں بعض برطانوی حکومتِ ہند کی مداخلت کے حق میں تھے، بعض پلوسئی میں موجود ہندوستانی مجاہدین کے سربراہ کو حکم ران بنانے کی خاطر بلانے کے حق میں تھے، جب کہ تیسرے گروہ نے افغان جنرل فیض محمد خان (جو کہ اُن افغان مہاجرین میں سے تھا، جنھوں نے سوات میں سکونت اختیار کی تھی) کو اپنا سربراہ بنانے کی تجویز پیش کی۔
1889ء میں وادیٔ سوات کے بعض لوگوں نے پہلی بار ہندوستان میں برطانوی سامراجی حکومت کو سوات کے معاملات میں براہِ راست مداخلت کی وکالت کی۔ دوسری طرف جندول کے خان عمرا خان نے 1890ء میں کمشنر پشاور کو لکھے گئے ایک خط میں سوات پر قبضے کے ضمن میں برطانوی سامراجی حکومت کی طرف سے کسی قدغن کے بغیراپنے آزادانہ اقدام کی خواہش کا اظہار کیا۔
1892ء میں جندول کے عمراخان کے سوات پر قبضے کی کوششوں کے پیشِ نظر، سوات کے خوانین نے بھی برطانوی افسروں سے رابطہ کیا، تاکہ عمرا خان کی سوات پر دست درازیوں کے خلاف اُن کی حمایت حاصل کریں۔ اُنھوں نے یہاں تک دھمکی دی کہ اگر عمرا خان سوات پر حملہ آور ہوا، تو وہ اُس کے خلاف امداد کے لیے ہندوستانی مجاہدین یا امیر افغانستان سے مدد طلب کریں گے۔ اگرچہ 1893ء میں عمرا خان سوات میں کچھ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، لیکن یہاں کے گروہی تنازعات جاری رہے۔ ابھی عمرا خان کو سوات میں مکمل کامیابی نہیں ملی تھی کہ اُس نے چترال میں اقتدار کی کشمکش میں دخل اندازی کرتے ہوئے اپنی فوجیں وہاں بھیجیں۔ نتیجتاً برطانوی سامراج نے اُس کے خلاف فوجیں بھیجیں جس کے نتیجے میں برطانوی فوج سوات کے لوگوں کی مزاحمت کو توڑ کر، چترال جانے کی خاطر، پہلی دفعہ زیریں سوات سے گزرا اور نتیجتاً عمرا خان افغانستان فرار ہوگیا۔
1895ء میں برطانوی فوج کی اس کامیابی کے نتیجے میں ایک طرف برطانوی سامراج نے دِیر کے سابقہ خان شریف خان (جس نے برطانیہ کی اس مہم میں ساتھ دیا تھا) کو نہ صرف اپنی سابقہ حیثیت پر بحال کیا، بلکہ عمرا خان کے زیرِ قبضہ سارے علاقے اُسے تفویض کیے۔ دوسری طرف اُنھوں نے ملاکنڈ اور چکدرہ میں اپنی فوجیں تعینات کیں۔ اور تیسری طرف زیریں سوات کے دریائے سوات کے بائیں جانب کے علاقے تھانہ قصبہ بلکہ لنڈاکے کی حدود تک کے علاقے کو بلوچستان اور وادیٔ کرم کے طرز پر اپنے ڈھیلے ڈھالے انتظام کے تحت لے آئے۔ تاہم لنڈاکے سے آگے دریائے سوات کی بائیں جانب کی وادی اب بھی پرانی قبائلی انتشار کاشکار رہی۔ اور دریائے سوات کے دائیں جانب کے علاقے اگرچہ دِیر کے حکم ران کے زیرِ حکم رانی رہے، لیکن وہ بھی نہ صرف قبائلی انتشار اور مناقشوں کی آماج گاہ رہے بلکہ نوابِ دِیر (1897ء میں برطانوی سامراجی حکومت نے دِیر کے حکم ران، جس کا لقب ابھی تک ’’خان‘‘ تھا، کو ’’نواب‘‘ کا خطاب دیا) اور اُس کے کارندوں کی چیرہ دستیوں کے شکار بھی تھے۔
اب سوات میں حکم رانی کی کشمکش اور تگ و دَو اُن علاقوں تک محدود ہوگئی، جو یا تو نوابِ دِیر کے ماتحت تھے اور یا دریائے سوات کے بائیں جانب لنڈاکے سے مشرق کی جانب واقع تھے۔ دریائے سوات کے بائیں جانب کے علاقے میں سیدو بابا کے پوتے حکم رانی کے خواہش مند تھے اور اقتدار کے لیے تگ و دَو میں مصروف تھے۔ جب کہ دائیں جانب کا علاقہ نوابِ دِیر کے زیرِ قبضہ تھا۔ تاہم اس علاقے کے لوگ بحیثیتِ مجموعی نوابِ دِیر کی سخت عمل داری اور اُس کے کارندوں کی چیرہ دستیوں سے خوش نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی کو اپنا حکم ران بنانے کے چکر میں تھے، تاکہ نوابِ دِیر کی عمل داری سے اپنے آپ کو آزاد کراسکیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ وہ دو دھڑوں میں تقسیم تھے، جن میں سے ایک نوابِ دِیر کا حامی تھا۔ یہی بات بھی اپنے میں سے کسی کو حکم ران بنوانے اور نوابِ دِیر کی عمل داری سے چھٹکارا حاصل کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔
آخرِکار جب دونوں دھڑوں کے لوگ بحیثیتِ مجموعی نوابِ دِیر سے آزادی پر متفق ہوئے، تو نیک پی خیل (موجودہ تحصیل کبل کے علاقے) سے تعلق رکھنے والا زرین خان، جو ایک بااثر اور طاقت ور خان تھا، نے یہ تجویز پیش کی کہ اُسے صرف اپنا حکم ران بنایا یا تسلیم کیا جائے، باقی کام اُسی کا ہے۔ وہ بیرونی اور اندرونی دونوں طاقتوں سے نبٹ لیں گے۔ اس پر توتانو بانڈیٔ کے شاہ وزیر خان کے والد نقش بندی خان المعروف نقشے خان (جو کہ ایک پارسا اور زیرک فرد تھا) نے یہ مشورہ دیا کہ اپنے میں سے یعنی خوانین اور سوات کے لوگوں میں سے کسی کو بھی اپنا حکم ران نہیں بنوانا۔ اس لیے کہ اُس کی جڑیں یہاں ہوں گی اورایسے حکم ران کی مثال بلی کے بچے جیسی ہوگی، جسے اگر آپ دروازے کی طرف سے گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں، تو وہ چھت کی طرف سے واپس گھر میں آدھمکتا ہے اور اگر چھت کی جانب سے باہر پھینک دیتے ہیں، تو وہ دروازے کی طرف سے واپس آجاتاہے۔ اس وجہ سے باہر کے کسی فرد کو اپنا حکم ران بنا لینا، بطور ایک اجنبی کے اُس کی جڑیں یہاں نہیں ہوں گی اور یہاں پر اُس کا اپنا دھڑا بھی اُس کی پشت پر نہیں ہوگا۔ لہٰذا جب بھی آپ اُس سے خوش نہیں رہیں گے، تو اُسے آسانی سے سبک دوش کرکے سوات سے نکال دیں گے۔ سوات کے کسی فرد کی حکم رانی کی صورت میں ایسا کرنا مشکل ہوگا۔
اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے نوابِ دِیر کے زیرِ حکم رانی سوات کے علاقوں کے سرکردہ افراد نے 1913ء میں ،سوات میں پہلے حکم ران رہنے والے سید اکبر شاہ کے خاندان کے افراد سے رابطہ کیا اور اُنھیں سوات کی بادشاہت پیش کی۔ اُس خاندان کے افراد نے سید عبدالجبار شاہ کا نام تجویز کیا۔ تاہم اُس نے سوچ بچار کے بعد جرگہ کے افراد کو واپس بھیج دیا۔ اس لیے کہ اُس کے خیال میں اُس کے بادشاہ بننے کے مسائل، فوائد سے زیادہ تھے۔ چند ماہ بعد جرگے نے ایک بار پھر اپنی پیشکش کو دہرایا۔ اس بار آخرِکار عبدالجبار شاہ نے پیشکش قبول کی۔ عبدالجبار شاہ نے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے چیف کمشنر سے اس حوالے سے ملاقات کی اور اُسے سوات کے حکم ران بننے کی صورت میں اپنی وفاداری کی یقین دہانی کروائی اور ڈپٹی کمشنر ہزارہ کو بھی خط کے ذریعے اپنی وفاداری کی یقین دہانی کروائی۔ تاہم جب وہ سوات جارہا تھا، تو اسسٹنٹ کمشنر مردان مسٹر بروس نے اُسے بلا کر حکم رانی کے لیے سوات جانے سے منع کیا اور اُسے ملاکنڈ میں متعین پولی ٹیکل ایجنٹ سے ملنے کا بھی کہا۔
اگرچہ برطانوی افسران نے سوات کے لوگوں کی اس کوشش کو اپنے مفادات کی خاطر ناکام بنایا، لیکن سوات کے نوابِ دِیر کے زیرِ حکم رانی نیک پی خیل، سیبوجنی اور شامیزی کے علاقوں کے لوگوں نے سنڈاکئی بابا کے زیرِ سایہ متحد ہو کر 1915 ء کے آغاز میں نوابِ دِیر کے خلاف بغاوت کی۔ نتیجتاً نوابِ دِیر کی فوجوں کو شکست دے کر اُنھیں نیک پی خیل، سیبوجنی اور شامیزی کے علاقوں سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سنڈاکئی بابا کی سرکردگی میں ایک پنج رکنی کونسل قائم کی گئی، تا کہ نوابِ دِیر سے آزاد کردہ علاقوں کا کسی کو بادشاہ بنانے تک عبوری طور پر انتظام و انصرام کریں۔
اس کونسل نے سیدو بابا کے پوتے میاں گل عبدالودود اور سنڈاکئی بابا کو اپنا بادشاہ بنانے کی پیشکش کی، لیکن اُن میں سے ہر ایک نے اس پیشکش کو بہ وجوہ قبول کرنے سے معذرت کی۔ اِن دونوں کے انکار پر جرگہ ایک بار پھر عبدالجبار شاہ کے پاس گیااور اُسے ایک بار پھر سوات کا حکم ران بننے کی پیشکش کی۔ عبدالجبار شاہ نے اس پیشکش کو قبول کیا اور 24 اپریل 1915ء کو اُسے نیک پی خیل میں چندا خورہ کے مقام پر بادشاہ بنایا گیا۔ اُس نے چندا خورہ (جوکہ اَب عام طور پر کبل کے نام سے یاد کیا اور پہچانا جاتا ہے) کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ اُس نے ایک حکومتی انتظامی ڈھانچا تشکیل دیا، تاہم اُس کی حیثیت مختلف عوامل کی وجہ سے کم زور تھی۔ اصل اختیارات سنڈاکئی بابا کے ہاتھ میں تھے۔ کئی ایک عوامل کی وجہ سے آخرِکار 2 ستمبر 1917ء کو متعلقہ علاقوں کے لوگوں نے اُس سے حکم رانی سے دست بردار ہونے اور سوات چھوڑنے کو کہا۔ نتیجتاً وہ 4 ستمبر 1917ء کو سوات چھوڑ کر چلا گیا۔
عبدالجبارشاہ کے سوات چھوڑنے کے بعد لوگ ایک بار پھر میاں گل عبدالودود کو حکم ران بنانے کی پیشکش کرگئے، جسے اُس نے منظور کیا۔ لہٰذا ستمبر 1917ء میں چنداخورہ ہی کے مقام پر اُس کی بطورِ حکم ران دستار بندی کی گئی اور اس طرح اُسے ریاستِ سوات کا دوسرا حکم ران بنوایا گیا۔
میاں گل عبدالودود کو ریاستِ سوات کا حکم ران بنانے میں جن عوامل کا بڑا عمل دخل یا کردار رہا، وہ یہ تھے کہ وہ علاقے کے یوسف زی خوانین میں سے نہیں تھا، سیدو بابا کا پوتا ہونے کی وجہ سے اُس کا تعلق ایک مذہبی یا روحانی گھرانے سے تھا اور اس وجہ سے اُسے ایک تیسرے غیر جانب دار فرد (جسے دریمگڑے کہا جا تا ہے) یا فریق کی حیثیت حاصل تھی، اور پہلے ہی سے سوات کے خوانین میں اُس کے دھڑے سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔ مزید یہ کہ وہ اُس وقت کی ایک دوسری بااثر مذہبی یا روحانی شخصیت سنڈاکئی بابا کی اَشیر باد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوا، جو اُس وقت سوات میں ایک بادشاہ گر اور بادشاہ شکن کی حیثیت حاصل کرچکا تھا۔
حکم ران بننے کے بعد میاں گل عبدالودود کو درپیش چیلنجوں (مبارزوں) اور رُکاوٹوں اور اُن پر قابو پانے کے ذرائع اور طریقِ کار کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری انگریزی کتاب ’’سوات سٹیٹ: فرام جنسز ٹو مرجر‘‘، شائع کردہ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کراچی، کا باب 5، یا اُس کے اُردو ترجمے ’’ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء)‘‘، شائع کردہ شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز، مینگورہ، سوات کا باب 5۔
تاہم یہاں جن باتوں کا مختصراً ذکر ضروری ہے، اُن میں پہلا اہم کام یہ تھا کہ بادشاہ بننے کے بعد وہ دارالخلافہ کو چندا خورہ سے سیدو شریف یعنی اپنے گھر لے آیا۔اس کے علاوہ اہم فوجی اور انتظامی عہدوں اورمنصبوں پر اپنے معتمدافراد، جن میں زیادہ تر کا تعلق یوسف زی خوانین میں سے نہیں تھا، بلکہ یا تو سوات کے غیر یوسف زی افراد یعنی ستانہ دار تھے اور یا باہر کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افرادتھے۔ یہ اس لیے کہ ان کے ذریعے وہ خوانین اور مَلَکوں کی طاقت اور قوت کا ایک طرح سے سدِباب کرسکے یااُ ن کو قابو میں رکھ سکے۔
اِس طرح اُس نے غیر پختونوں (یاد رہے کہ یہاں غیر پختونوں سے مراد وہ لوگ ہیں، جو سوات کے سماجی نظام میں پختون تصور نہیں کیے جاتے تھے یا پختون نہیں مانے جاتے تھے) یا تیسرے فریق (دریمگڑوں) کے ذریعے اپنے آپ اور ریاست کو مضبوط کیا اور پختونوں، علاقے کے لوگوں اور خوانین و مَلَکوں کو ایک طرح سے اپنے پنجے اور گرفت میں لاکر قابو کرگئے۔ اگرچہ اس دوران میں اُسے کئی دفعہ اندرونی محاذ پر مختلف حوالوں سے مخاصمت، مزاحمت اور بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا، تاہم 1929ء کے آخر تک اُس نے اپنے مخالفین کویا تو کچل دیا، یا اُن کو اپنی اطاعت پر مجبور کیا اور یا اُس کو اُن سے مفاہمت کرنی پڑی۔ اِس طرح اُس نے خود کو اور ریاست کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھا۔ اور اس وجہ سے وہ فخریہ کہا کرتاتھا کہ اُس نے ریاستِ سوات کو اتنا مضبوط کیا ہے کہ اگر اُس کی ایک نابینا بیٹی بھی مسندِ اقتدار پر بیٹھ جائے، تو وہ 30 برس تک حکومت کرسکتی ہے۔ چارلس لینڈہام کے مطابق اِس کام میں برطانوی امداد اور تکنیکی مشورے بھی اُس کے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ اور اِس طرح سوات کے پختون پہلی دفعہ اپنے آپ کو ایک مطلق العنان حکم ران کے ماتحت پاگئے۔ یہ صورتِ حال اس وجہ سے بھی زیادہ تلخ یا کڑوی تھی کہ اُنھوں نے خود ہی اُسے بادشاہ منتخب کیا تھا یا بادشاہ بنوا دیا تھا۔
یہاں تک کہ اجمالی تفصیل سے اس نکتہ کو سمجھنے میں شاید کوئی مشکل نہ ہو کہ سوات میں بڑے بڑے اور طاقت ور خوانین موجود تھے، تو پھر لوگوں نے اُن میں سے کسی کو کیوں اپنا بادشاہ نہیں بنوایا، اور سوات میں باہر سے لائے ہوئے لوگوں کو کیوں حکم ران بنوایا؟
اس کا ایک اہم سبب دھڑا بندی کا سماجی نظام تھا، جس کی وجہ سے کوئی بھی دھڑا دوسرے دھڑے کے فرد کی بالا دستی اور حکم رانی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا، اس لیے کہ ایسی صورت میں اُن کی اور اُن کے دھڑے کی حیثیت کم زور اور ختم ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔ لہٰذا ایسی صورت میں وہ کسی تیسرے غیر جانب دار فرد، جسے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ دریمگڑے کہا جاتا ہے، کو اپنا حکم ران بنانے پر متفق ہوجاتے تھے۔ اور دوسرا اہم نکتہ نقش بندی خان المعروف نقشے خان کی بات یا مشورہ سے عیاں ہے۔
سید اکبر شاہ، اس کے بیٹے مبارک شاہ اور بعد میں سید عبدالجبار شاہ کی حکم رانی کی صورت میں چوں کہ اُن تینوں کا تعلق سوات سے نہیں تھا، لہٰذا جب سوات کے لوگ اُن سے ناخوش ہوئے، تو اُن کو اقتدار سے آسانی سے ہٹا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سید اکبر شاہ کو زہر دے کر مروا کر ہٹایا گیا۔ اُس کے بیٹے مبارک شاہ کو سوات کی حکم رانی کے منصب سے ہٹاکر سوات سے نکال دیا گیا، اور سید عبدالجبار شاہ کو حکم رانی سے برخاست کرکے سوات چھوڑنے کا کہا گیا اور نتیجتاً دو دن بعد وہ بغیر کسی مزاحمت کے سوات چھوڑ کر چلا گیا۔ جب کہ اِس کے بعد نقشے خان کے اُس مشورے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے میاں گل عبدالودود کے حکم ران بنانے کے نتیجے میں وہ کچھ ہوا (جس کا اجمالاً اوپر ذکر کیا جاچکا ہے) جس کا خدشہ نقشے خان نے ظاہر کیا تھا، یا جس کی پیشین گوئی اُس نے کی تھی۔
اس حوالے سے عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی بات، تجزیہ اور نکتۂ نظر بھی اس نکتے کو سمجھنے اور سمجھانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ 1915ء میں سوات کی بادشاہی کی کشمکش کے ضمن میں وہ سنڈاکئی بابا، جس کا ذکر وہ کوہستان ملا صاحب کے نام سے کرتا ہے، کے کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اُس نے ستھانہ کے سید عبدالجبار شاہ کو بادشاہ بنوایا تھا۔ اُسے چاہیے تھا کہ سوات کے کسی فرد کو سوات کے لوگوں کا سربراہ بنواتا، اس لیے کہ سوات، سواتیوں کا تھا اوراِس کی آزادی پر سوات کے لوگوں کا خون بہا تھا۔ بہتر تو یہ تھا کہ وہ مدینہ کے طرز اور طریقے پر لوگوں کی رائے سے ایک جمہوری نظام قائم کردیتا۔ تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پختونوں کی آپس کی جنگوں، دھڑے بندیوں، ایک دوسرے سے عداوت، بے اتفاقیوں اور دشمنی کی وجہ سے کوہستان ملا صاحب یہ کام نہیں کرسکتا تھا۔ پختونوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی ایسا کوئی موقع اِن کے ہاتھ آیا ہے، اِنھوں نے اپنے بھائی اور عزیز کے بجائے میاں ملا کو اپنے اوپر مسلط کیا ہے۔ اس طرح کی عزت ایک دوسرے کو دینا کبھی اِن کی دلی چاہت نہیں رہی ہے اور ایسی صورتوں میں اپنے بیچ بد نیت ہوچکے ہیں۔ اس طرح جن کو بھی اِنھوں نے اپنے ملک، قوم اور مذہب کے سربراہ کے طور پر تسلیم کیا ہے، تو اُنھوں نے اِنھیں خوب رگڑا ہے اور اِن کا استحصال کیا ہے۔ لیکن اِنھوں نے پھر بھی اس سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ (ملاحظہ ہو 1983ء میں کابل سے شائع شدہ، عبدالغفار خان کی پشتو زبان میں آپ بیتی، زما ژوند او جد و جہد (میری زندگی اور جد و جہد)، کے صفحات 122 تا 125۔)
یہ مذکورہ وہ اہم عوامل رہے ہیں جن کی وجہ سے سوات میں بڑے بڑے اور طاقت ور خوانین موجود ہونے کے باوجود اُنھوں نے اپنے میں سے کسی کو اپنا بادشاہ یا حکم ران نہیں بنوایا، اور کسی تیسرے فرد یا فریق کو بوقتِ ضرورت اپنا حکم ران یا باشاہ بنواتے رہے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔