سوشل میڈیا کی آزادی اور باآسانی رسائی سے جہاں مختلف قسم کے فائدے حاصل کئے جا سکتے ہیں، وہاں بہت سے نقصانات بھی پیش آ رہے ہیں۔ بیسیوں نقصانات میں سب سے بڑا نقصان اخلاقی زوال کا ہے۔ خصوصاً سیاسی جماعتوں کے معتقدین نہ صرف ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ہیں بلکہ نت نئی گالیاں ایجاد کرکے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تصاویر کو ایڈٹ کرکے کبھی گدھا اور گھوڑا بناتے ہیں، تو کبھی کتا اور خنزیر۔ پگڑی اور داڑھی کی تضحیک کرتے کوئی تھکتا نہیں۔ بعض کے نزدیک علما تو گویا تمام برائیوں اور فساد کی جڑ ہیں۔ آئیں ذرا دیکھتے ہیں کہ اخلاق کیا چیز ہے اور دنیا کے مختلف مذاہب خصوصاً اسلام اس بارے کیا درس دیتا ہے؟
معاشرتی و اجتماعی زندگی کے بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ معاشرت کی پہلی اینٹ اخلاقِ حسنہ ہی ہے۔ حسنِ اخلاق کے بغیر انسان نہ صرف یہ کہ انسان نہیں رہتا بلکہ درندگی و بہیمیت پر اتر آتا ہے۔ انسانیت کا زیور حسنِ اخلاق ہے۔
چھٹی صدی عیسوی میں دنیا اخلاقی اعتبار سے کنگال اور دیوالیہ ہوچکی تھی۔ انسانیت و شرافت کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ تہذیب و اخلاق کے ستون اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے۔ تہذیب و تمدن کے گہواروں میں خود سری، بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دور دورہ تھا۔ روم و ایران اخلاق باختگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے تھے۔ شراب عربوں کی گھٹی میں پڑی تھی، جو جاہل معاشرے میں بڑائی اور خوبی کی بات تھی۔ سودی لین دین، کمزوروں کا استحصال اور اس سلسلے میں بے رحمی و سخت گیری عام تھی۔ بے شرمی وبے حیائی، رہزنی و قزاقی معمولی بات تصور کی جاتی تھی۔ جنگ جوئی اور سفاکی بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا تھا۔ بے جا انتقام اور تعصب کا شمار قومی خصوصیتوں میں ہوتا تھا۔ ایسے اخلاق سوز اور غیر انسانی ماحول میں اسلام نے جو عمدہ اخلاقی نظام پیش کیا، وہ انسانی طبائع کے لیے اکسیر ثابت ہوا اور ان کی وجہ سے تہذیب و ثقافت سے بے بہرہ قوم عرب میں ایسے اخلاقی نمونے پیدا ہوئے جن کی نظیر انسانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ چوری، ڈاکا، قتل و خوں ریزی، غیبت و بد گوئی، کینہ و حسد، تکبر، حق تلفی وغیرہ افعال و عادات ہر مذہب وسماج میں مذموم ہیں جبکہ وقار و سنجیدگی، خوش کلامی و نرمی، عدل و تواضع، امانت و دیانت وغیرہ ہر معاشرے میں اچھے اخلاق شمار کیے جاتے ہیں، لیکن اسلام کے اخلاقی نظام اور دیگر اخلاقی قدروں میں کئی اعتبار سے بہت فرق پایاجاتا ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر نظاموں میں اچھے اور برے اخلاق کا معیار عقلِ سلیم، پاکیزہ شعور اور تجربہ ہے جبکہ اسلام میں ان سب سے بڑھ کر ایک متعین اتھارٹی ہے اور وہ ہے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتھارٹی۔ اچھے اخلاق وہی ہیں جنہیں اللہ اور رسول نے اچھا قرار دیا ہو اور اس طرح برے اخلاق وہ ہیں جنہیں اللہ اور رسول برا کہیں۔ اسلام میں اچھے اور برے اخلاق کا مسئلہ طے شدہ ہے۔ وہ کسی انسانی عقل یا تجربہ کا محتاج نہیں۔ اسلام نے کسی طرزِ عمل کو اچھا یا برا اس لیے نہیں کہا کہ اسے لوگ ایسا ہی کہتے اور سمجھتے چلے آئے ہیں؛ بلکہ خود اسے اپنے اصولوں کی بنیاد پر اچھا یا برا کہا ہے۔ اسلامی اخلاقیات چوں کہ مستقل بنیادوں پر قائم ہیں، اس لیے وہ ناقابلِ تغیر اور مستقل ہیں۔
اسلام کا اخلاقی نظام مختلف دائروں میں تقسیم ہے اور اس کی ابتدا انسان کی انفرادی زندگی سے ہوتی ہے۔ معاشرہ کے ایک فرد کے بطور ایک انسان اخلاقی ذمہ داری کیا ہے؟ اسے اسلام نے اپنی جامع اخلاقی تعلیمات میں سمیٹ دیا ہے۔ جھوٹ و بہتان طرازی، کبر و نخوت، ظلم و ستم، بدسلوکی و بے رحمی، فریب و دھوکا دہی، شراب نوشی و جوا بازی، زناکاری و بے حیائی، جنگ و جدال وغیرہ امور کو برا ئی قرار دیا گیا جبکہ اس کے بالمقابل عمدہ اخلاق کی ہمت افزائی کی گئی۔ انفرادی دائرہ کے بعد گھریلو سطح پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک و خدمت گزاری کی تعلیم دی گئی۔ بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان و صلہ رحمی، بیوی بچوں کے ساتھ محبت وشفقت کی تعلیم دی گئی۔ پھر گھریلو سطح سے اٹھ کر معاشرتی سطح پر پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور لوگوں کے ساتھ انسانی سلوک اور احترام کا درس دیا گیا۔ اسلام کے نظامِ اخلاق کا حاصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر مرحلہ میں اعلیٰ کردار کو اپنایا جائے۔
اسلام نے باہمی معاملات کو مطلب پرستی اور خود غرضی نہیں بلکہ ہمدردی و خیر خواہی کے جذبہ سے انجام دینے کی تعلیم دی۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی روح ہمدردی و خیر خواہی، عدل و انصاف اور مساوات و احترامِ نفس ہے۔ اسلام کی خصوصیت یہ ہے اس نے یہ اعلیٰ اخلاقی اصول وضع کیے اور معاشرے میں اسے صد فی صد لاگو کرکے دکھا بھی دیا۔ اس سلسلے میں اسلام کی آواز اتنی مؤثر تھی کہ محض قرآن کے اس اعلان سے کہ شراب گندگی اور شیطانی عمل ہے (سورۃ المائدۃ) مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ حالاں کہ نشہ چھڑانا اور وہ بھی شراب کا کتنا مشکل ہے۔ آج ساری دنیا اس بارے میں پریشان ہے کہ قوم سے نشے کی لت کیسے ختم کی جائے، مگر اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ قرآن نے اسے جڑ سے ختم کردیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخ انسانی کے سب سے اعلی اخلاقی معیار قائم کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق گوئی اور سچائی کا یہ عالم تھا کہ کفار مکہ کے سردار ابو سفیان کو ہرقل کے دربار میں اس کے اس سوال پر کہ ’’کیا تم نے کبھی محمد سے کچھ جھوٹ سنا ہے؟‘‘ یہ گواہی دینی پڑی کہ "نہیں”۔ (صحیح بخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت کا یہ حال کہ پورا مکہ آپ کا دشمن ، آپ کی دعوت سے ان کو انکار؛ لیکن امانتوں کے لیے اگر کوئی محفوظ جگہ تھی، تو اسی نبی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر و تحمل کی انتہا یہ تھی کہ طائف کی خوں چکاں شام اور آپ کا لہو لہان جسم، ایسا دن جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ وہ میری زندگی کا سخت ترین دن تھا۔ اس دن جب پہاڑوں کا فرشتہ اللہ کے حکم سے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں، تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو ٹکرادوں اور یہ گستاخ قوم پس جائے۔ اس وقت رحمۃ للعالمین کا جواب تھا کہ نہیں۔ میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ ان کی نسل میں ایسے لوگ پیدا فرمائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔(صحیح بخاری) اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عفو و درگذر اور تواضع و شفقت کا ثبوت دیا، کیا اس کی نظیر کسی تاریخ میں ملنی ممکن ہے؟
غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اعلیٰ ترین اخلاق و اوصاف کا ایسا نمونہ ہے کہ اس سے بہتر نمونہ پیش نہیں کیا جاسکتا اور ایسا جامع اخلاقی دستور العمل کہ اس سے بہتر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اخلاق کا فیضان تھا کہ آپ کی دعوت نہایت تیزی کے ساتھ عربوں میں پھیلتی چلی گئی۔ آپ اپنے بلند انسانی کردار سے دشمن کے دل کو فتح کر لیتے اور اس کی روح کو اسیر کرلیتے۔
قارئین، آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں، تو یقینا ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی درجہ میں بداخلاقی کا مرتکب ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ایمانوں میں بھی لازمی طور پر پستی آچکی ہے۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن بد اخلاقی کی برائی سے بچنا ازحد ضروری ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
…………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔