ایک سڑک پر بورڈ لگا ہوا تھا جس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا: ’’حدِ رفتار 60 کلومیٹر۔‘‘
یہ بورڈ ڈرائیوروں کو بہت دور سے نظر آجاتا تھا۔ چناں چہ وہ اس کے قریب پہنچتے پہنچتے گاڑی کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹا سے کافی کم کرلیتے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
جب وہ اُس بورڈ کے قریب پہنچتے، تو دوسری طرف آڑ میں کھڑا ہوا ایک ٹریفک پولیس کا سپاہی نکلتا اور ڈرائیور کو رُکنے کا اشارہ کر کے اُس کے ہاتھ میں جرمانے کی پرچی تھما دیتا۔ ڈرائیور احتجاج کرتے ہوئے بتاتا کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، اور ناحق اُسے جرمانے کیا گیا ہے۔ پولیس مین اُسے دوبارہ بورڈ پڑھنے کا مشورہ دیتا جس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا: ’’حدِ رفتار 60 کلومیٹر۔‘‘
تب ڈرائیور کی نظر اس عبارت سے پہلے انتہائی باریک لکھے ہوئے الفاظ پر پڑتی جو کچھ یوں تھے: ’’کم از کم۔‘‘
قارئین! یعنی پوری عبارت اس طرح سے تھی: ’’کم از کم حدِ رفتار 60 کلومیٹر۔‘‘
ٹریفک پولیس والوں نے لوگوں کی جیبوں سے رقم نکالنے کا ایسا انوکھا طریقہ اختیار کیا تھا، جس پر احتجاج تو کیا جاسکتا تھا، مگر مفر ممکن نہیں تھا۔
یہی کچھ آج کل حکومت عوام کے ساتھ کر رہی ہے۔ حال ہی میں اس نے گیس کی قیمتیں قریباً تین گنا کر دی ہیں۔ اتنے بڑے اضافے پر شہری انتہائی پریشان اور انگشتِ بدنداں ہیں کہ یہ نگران حکومت ان کے ساتھ کر کیا رہی ہے!
اتنا بڑا اضافہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ عوام بے کسی کے ساتھ ساتھ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے مذکورہ سائن بورڈ کی طرح حکومت نے صارفین کے ساتھ ایک اور ہاتھ یہ کر دیا ہے کہ گیس کی قیمت میں اس اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے کرنے کا اعلان کیا ہے…… یعنی گذشتہ چار ماہ میں صارفین گیس کے جتنے بل جمع کرواچکے ہیں، اس سے قریباً دوگنا رقم یک مشت ان کی جیبوں سے نکالنے کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔
کبھی بجلی، کبھی گیس، کبھی چینی، کبھی دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ دیکھ دیکھ کر اب تو عوام میں رونے کی سکت بھی نہیں رہی۔
عوام ایک خواب، ایک سکتے کے عالم میں بیٹیوں کے چھوٹے موٹے زیور، اپنی جمع پونجی، گھر کی مشینری اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا بیچ کر یوٹیلٹی بلوں کی مد میں حکومتی خزانہ بھرنے میں لگے ہیں، مگر شاید اس خزانے میں روزانہ کی بنیاد پر سیندھ لگا کر اسے ساتھ ساتھ ہی خالی بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا…… یا پھر یہ خزانہ بھی عمر و عیار کی زنبیل بن گیا ہے، جس نے ہر چیز کو اپنے اندر سما لینا ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں مینڈیٹ سے زیادہ طویل العمر نگران حکومتیں بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ ووٹ لے کر آنے والی سیاسی حکومتیں اپنی مقبولیت بچانے اور قبولِ عام بننے کی خاطر عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتی ہیں۔ دیہاڑی داروں کو ایسی کوئی مجبوری نہیں۔ اُنھوں نے سیاست کرنی ہے، نہ عوام کے پاس ووٹ کے لیے جانا ہے۔ اس لیے اُنھوں نے بے حسی کا لبادہ ہی نہیں اوڑھ رکھا، بلکہ سراپا بے حسی اور مجسم ظلم بنے ہوئے ہیں۔ تبھی تو کارخانہ داروں اور بڑے سرمایہ داروں کو اشیا مہنگی کرنے کے باوجود سبسڈی دی جا رہی ہے، مگر عوام کو ہر قسم کی سبسڈی سے محروم کر کے یوٹیلٹی سٹوروں پر اشیائے صرف بازار سے بھی مہنگی کر دی گئی ہیں۔
اس وقت سب سے زیادہ متاثر طبقہ سفید پوش اور سرکاری ملازمین کا ہ۔ سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ اُنھیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ بجلی کے یوٹیلٹی بل دیں، یا بچوں کی خوراک خریدیں……!
اولاد کے تعلیمی اخراجات برداشت کریں، یا ان کے لیے لباس خریدیں……!
دوستوں، رشتہ داروں کی شادی کا کارڈ آ جائے، تو گویا صفِ ماتم بچھ جاتی ہے کہ اب یہ اضافی خرچہ کہاں سے لائیں…… گھر میں تو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں……!
سرکاری ملازمین سب سے زیادہ مظلوم بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ مکمل طور پر حکومت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ موجودہ نگران حکومتوں نے ان ملازمین کو اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔ مراعات چھین کر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر مہنگائی کے عفریت کے آگے اُنھیں پٹخ دیا ہے۔ پٹرول اور گیس کے بل ان کی استطاعت سے دور ہوچکے ہیں کہ بقول برادرِ مکرم مسعود اوکاڑوی
بیس روپے سرکار بڑھا کر
پندرہ پیسے لَیس کرتی ہے
اس قدر مہنگائی کا طوفان برپا کرنے سے پہلے انسانیت کے ناتے سے ہی سوچ لیا جائے کہ کیا آپ نے سرکاری ملازمین یا سفید پوش طبقے کی آمدنی میں بھی اتناضافہ کر دیا ہے، جس قدر مہنگائی کا بوجھ ان پر لاد دیا ہے؟
دُکھ تو اس کا ہے کہ عدلیہ نے بھی عوام سے منھ موڑ لیا ہے۔ بات خودکشیوں تک پہنچ چکی ہے، مگر کسی صوبے کے ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ’’سوموٹو‘‘ لینے اور حکومتی نمایندوں کوبجلی، پٹرول اور گیس کو بے تحاشا مہنگا کرنے پر عدالت میں طلب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
ہوتی بھی کیسے؟ ان کو بجلی، گیس اور پٹرول مفت دست یاب ہیں۔ عوام جائے بھاڑ میں۔ اگر اپنی تنخواہ سے یوٹیلٹی بلز ادا کرنے پڑتے، تو ممکن ہے اُونچی کرسی پر بیٹھنے والے یہ منصف عوام کو انصاف دلا سکتے۔
فی الحال تو عوام مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ عوام کی تقدیر کی مالک حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بیلنے میں جاتے ہوئے عوام کے نچڑتے ہوئے خون کو بے حسی کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔ عوام کا فی الوقت ایک پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں۔
باقی صورتِ حال منیر نیازی سے معذرت کے ساتھ کچھ یوں بیاں کی جاسکتی ہے کہ
اک بے حِسی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
خونِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
رہے نام اللہ کا……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔