ایسا بس پاکستان ہی میں ممکن ہے!

ایک بڑا مشہور لطیفہ ہے، جو ہر بار نیا ہی لگتا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجیے:
’’حاجی صاحب کی عمر 75 سال تھی۔ پولنگ اسٹیشن پر سب سے پہلے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد انتخابی عملے کے قریب ہی زمین پر بیٹھ گئے۔ جب اُنھیں بیٹھے کافی دیر گزر گئی، تو پریذائیڈنگ آفیسر نے اُن سے ازراہِ ہم دردی پوچھ لیا کہ خیریت تو ہے؟ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ حاجی صاحب نے جواب دیاِ ’’اپنی زوجہ محترمہ کا انتظار کر رہا ہوں!‘‘ پریذائیڈنگ آفیسر نے پوچھا:’’آپ اُنھیں ساتھ کیوں نہیں لائے؟ اکٹھے آ جاتے تو آپ کو اس قدر انتظار نہ کرنا پڑتا‘‘، ’’ساتھ کیسے لاتا؟‘‘ حاجی صاحب نے افسردگی سے جواب دیا۔ ’’محترمہ کو تو فوت ہوئے پندرہ برس ہوچکے۔ سنا ہے کہ مرحومہ ہر الیکشن میں ووٹ ڈالنے ضرور آتی ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے چلا آیا کہ اُن سے ملاقات کر لوں۔‘‘
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
کہنے کو تو یہ ایک لطیفہ ہے، مگر حقیقت میں ہمارے ہاں انتخابات کے موقع پر یہ پریکٹس عام ہے۔ خاص طور پر خواتین دوسری عورتوں کے شناختی کارڈز پر ووٹ ڈال آتی ہیں۔ اگر انتخابی عملہ مہربان ہو اور مخالف امیدوار کا پولنگ ایجنٹ موجود نہ ہو، تو شناختی کارڈ کے بغیر بھی ایک بندہ ایک سو ووٹ کاسٹ کرلیتا ہے۔ بیلٹ پیپرز کی کاؤنٹر فائلز پر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے علاوہ ہاتھوں کی تمام انگلیوں اور پاؤں کی انگلیوں کے نشانات بھی لگوائے جا سکتے ہیں۔ شاید اسی لیے بائیومیٹرک مشینوں کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کی بات چلی تھی، مگر بوجوہ اس پر سیاسی پارٹیوں کا اتفاق نہ ہو سکا۔
انتخابات کے موقع پر دھاندلی کی شکایات اور مُردوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کی شکایات تو عام سی بات ہے، مگر حیرت انگیز طور پر اب مُردے حکومتی پالیسیوں پر بھی احتجاج کرنے لگے ہیں۔ یہ عجیب و غریب واقعہ ضلع فیصل آباد کی حدود میں پیش آیا۔
آپ کو معلوم ہی ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے پنجاب کے سرکاری ملازمین حکومت کی طرف سے اپنے سلب کیے گئے حقوق اور اصلاحات کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ دفتروں میں کام بند ہو چکا ہے۔ ملازمین دھرنا دے کر ایک سائیڈ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اساتذہ صاحبان نے بھی 10 اکتوبر سے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ وہ سکولوں میں دھرنا بھی دیتے ہیں اور احتجاجی جلوسوں، ریلیوں اور جلسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ حکومتِ پنجاب سرکاری ملازمین کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے اُن کی آواز دبانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں اُن پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ گھسیٹا بھی جاتا ہے اور گرفتار کر کے جیلوں میں بھی ڈالا جا رہا ہے۔ اس وقت ڈیڑھ سو سے زائد سرکاری ملازم زیرِ حراست ہیں، جن میں زیادہ تعداد اساتذہ کی ہے۔
حکومت نے اساتذہ پر دباو بڑھانے کے لیے ہنگامی طور پر افسران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ سکولوں کے خصوصی وزٹ کریں اور غیرحاضر اساتذہ کی رپورٹ کریں۔ اساتذہ صاحبان کو شوکاز نوٹس دیے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف نقصِ امن کے تحت مقدمات کا اندراج کر کے اُنھیں گرفتار بھی کیا جا رہا ہے، تاکہ باقی اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو خوف زدہ کیاجا سکے۔
ایسا ہی ایک شوکاز اور جواب طلبی کا نوٹس چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن فیصل آباد کی طرف سے 14 اکتوبر 2023ء کو میمو نمبر 6602/CC کے تحت جاری ہوا ہے، جس میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی وساطت سے گورنمنٹ ہائی سکول جڑانوالہ کے چند معلمین کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فیصل آباد نے لیٹر نمبر 6641/G11 مجریہ 13 اکتوبر 2023ء کے ذریعے رپورٹ دی ہے کہ آپ حضرات حکومت کے خلاف احتجاج اور نعرہ بازی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ نیز اپنے ساتھ طلبہ کو بھی شامل کیا ہے۔ اس لیے آپ 23 اکتوبر کو رات تین بجے (جی ہاں! رات تین بجے) اپنے جواب کے ساتھ حاضر ہوں۔ ورنہ پیڈا ایکٹ 2006ء کے تحت آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اس ساری تفصیل میں حیرت کی بات یہ نہیں کہ اساتذہ کو رات تین بجے کیوں بلایا گیا ہے…… بلکہ اصل حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں استادِ محترم جناب محمد اسلم خاں SST گورنمنٹ ہائی سکول جڑانوالہ کا نام بھی شامل ہے، جو 9اکتوبر 2023ء کو انتقال فرما گئے تھے اور 10 اکتوبر کو دن گیارہ بجے ان کی نمازِ جنازہ اُنھی کے سکول کے احاطہ میں ادا کی گئی۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سیکنڈری ایجوکیشن اوکاڑا کی رپورٹ کے مطابق استادِ محترم محمد اسلم خاں نے 13 اکتوبر کو زندہ ہو کر نہ صرف پنجاب حکومت کے خلاف احتجاج اور نعرے بازی کی، بلکہ طلبہ کو بھی اس کام میں ملوث کیا۔
یقینا فوت ہونے والے استادِ محترم محمد اسلم خان کے لواحقین بھی اُنھیں ووٹ کاسٹ کرنے والے حاجی صاحب کی طرح اساتذہ کے احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں میں تلاش کر رہے ہوں گے، تاکہ اُنھیں تلاش کرکے 23 اکتوبر کو رات 3 بجے جناب چیف ایگزیکٹو کی خدمت میں پیش کیا جا سکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے