نظم ’’راکھ کی جنمی، سگریٹ کی بیٹی‘‘ کی شاعرہ

تحریر: ارسل بلوچ
بیٹی کی جیت کیسی لگتی ہے؟ یہ تو وہی جانیں جنھیں یہ خوشی ملتی ہے۔ گذشتہ دنوں یہ خوشی ہمارے یارِ غار، عاصم علی شاہ کے حصے میں آئی اور اس کے صدقے اپنا دل بھی خوشی سے بھرگیا۔
کچھ عرصہ قبل مَیں نے اُس کی ایک نظم ترجمہ کی تھی جو امریکہ میں ایک پولیس افسر کے ہاتھوں قتل ہونے والے جارج فلوئیڈ، کے واقعے پر کہی گئی تھی۔ اُسے بہت سراہا گیا تھا۔ اُسی بچی ’’زوہا علی شاہ‘‘ نے شاعری کا ایک عالمی مقابلہ جیتا ہے۔ یہ ’’انگلش اینڈ میڈیا سنٹر‘‘ کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔ ہماری بھتیجی کو گلوبل چمپئن قرار دیا گیا ہے۔
مَیں اُس پہلی نظم پر بھی خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اب ساری زندگی کی ذلت اور خواری کے بعد اتنا تو پتا چل ہی گیا ہے کہ کون سچا شاعر ہے،کس کے اندر اوریجنل فن کار روح ہے۔ یہ بچی بہت قیمتی ہے۔ ڈھیر ساری دعائیں اور نیک خواہشات اُس کا پہلا حق ہیں۔
سوہا کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اس کے تائے، چاچے، مامے دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں اور دعاؤں کا ایک طوفان اُس کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کچھ داد عاصم علی شاہ کو بھی دے دیجیے، ہماری سوپر ٹیلنٹیڈ بھتیجی کے ساتھ ساتھ۔
اب زوہا علی شاہ کی ایک نظم ’’راکھ کی جنمی،سگریٹ کی بیٹی‘‘ کا ترجمہ ملاحظہ ہو جسے شیراز راج نے کیا ہے:
میرے باپ نے میری ماں سے پوچھا
کیا وہ اپنا نام برقرار رکھنا چاہتی ہے
اس کا جواب قطعی اور واضح تھا،ہاں!
محبت سے تہی،چاہت سے عاری رشتہ
جلد ہی یہ گھر گویا ویران ہو گیا
پیار سے خالی گھر، جلد ہی بھر گیا
سویڈن کے اصلی، نسلی، شاہکار فرنیچر سے
قیمتی لکڑی کی میزیں، چمکیلی، منقش
جو سج گئیں ایک عورت کی مشقت کے پھل سے
خوشبوؤں سے ، ذائقوں سے
اشتہا انگیز، لزیذ کھانے، جو جلد بازی میں کھائے گئے
ندیدہ پن سے ڈکارے گئے
گفت گو سے خالی صحبت طعام، بس ہوں ہاں
ایک بھری پری، خاموش میز کتنی تکلیف دِہ ہوتی ہے ناں
محبت سے تہی، چاہت سے عاری شادی کو
بکھرنے سے بچانا ضروری تھا، کسی بھی طرح
جلد ہی ایک بچے کا جنم ہوا،
غالباً ایک نئی زندگی
اس سنسان، تاریک خول میں، اس گھر میں
ایک ننھی سی، نئی روشنی
اور جب یہ حقیقی روشنی نہ بن سکی
تو اُس کا نام روشنی رکھا دیا گیا
لیکن وہاں ایک چنگاری کتنی دیر بھڑک پاتی
جہاں سرد مہری، یخ بستگی گویا برف باری
برف کے ننھے کھپروں سے ملے زخم سہتے سہتے
ہم موسمِ سرما کا حسن کبھی دیکھ ہی نہ پائے
میری ماں نے کبھی جوڑا نہیں باندھا
بال ہمیشہ ڈھلوان ہی رکھے
بِن بیاہی عورت کی نشانی
اس نے شاید خود کو کبھی بیوی سمجھا ہی نہیں
صرف ایک ماں
اس شخص کی ماں، جس سے وہ بیاہی گئی
اس بچی کی ماں، جس کی کبھی خواہش نہ کی
میرے باپ نے کبھی خود کو شوہر نہیں سمجھا
اور نہ ہی باپ سمجھا
اُس کے لیے گھر بس ایک جگہ تھی رہنے کی
اُس کا خاندان بس کچھ لوگ تھے، ایک گھر میں رہایش پذیر
اُس کی واحد محبت تھی تمباکو کے دھوئیں کا راکھ رچا بادل
دھوئیں کا یہ مرغولہ
جو میرے چہرے پر بکھرتا رہا
میری سانسوں میں گھلتا رہا
مَیں نے اپنا بچپن اس کثیف دھوئیں میں کھیلتے گزارا
اپنے پھیپھڑوں میں تاریکی انڈیلتے
میں دھوئیں میں پیدا ہوئی
راکھ کی جنمی
سگریٹ کی بیٹی
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے