کامریڈ تنویر احمد خان (لاہور) نے مجھے شوکت صدیقی سے متعارف کرایا۔ اُن کے گھر کا پتا دیا اور لینڈ لائن فون نمبر بھی۔
شوکت صدیقی صاحب سے خط و کتابت شروع ہوگئی اور کبھی کبھار فون پر بھی بات ہونے لگی۔ بہت ملن سار، سنجیدہ، دبنگ اور انسان دوست شخصیت تھے۔ اُن کی تحریروں سے واقفیت بہت پہلے سے تھی، لیکن قلمی اور فونک رابطے کے بعد وہ اور بھی اچھے لگنے لگے۔ پُروقار، بردبار انسان تھے۔ جذباتی اور جوشیلے (کچھ کے نزدیک لڑاکا بھی ضرور رہے ہوں گے) مگر مجھ تک وہ جس حالت میں پہنچے، وہ قابلِ احترام اور قابلِ فخر تھے۔ سنا تھا کہ کسی زمانے میں سموکنگ اور ڈرنک دونوں ہی کرتے تھے، مگر ڈاکٹروں کے کہنے پر دونوں ہی چھوڑ چکے تھے۔ عارضۂ قلب لاحق ہوچکا تھا۔ اللہ کے بعد ڈاکٹر کی مانتے تھے۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
شوکت صدیقی پر خاکہ لکھنے کا بھی سوچ رکھا تھا، مگر خاکہ لکھنے میں بہت وقت لیتا ہوں۔ 9 ماہ سے 2 سال تک کا وقت لے ہی جاتا ہوں۔ کچھ دن پہلے کراچی سے نورالدین صاحب کا ایس ایم ایس آیا جس میں اطلاع دی گئی تھی کہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی والے اُن کا ’’نمبر‘‘ شائع کرنے جا رہے ہیں، جس کے لیے تحریریں بھجوانے کی ’’ڈیڈ لائن‘‘ 15 فروری 2023ء تک ہے۔ بات شوکت صدیقی کی ہو اور عرفان اُس پر توجہ نہ دے، یہ کیسے ہو سکتا ہے!
مجھے شوکت صاحب کے گھر گزارا ہوا ایک ہفتہ آج بھی تر و تازہ اور مسرور کر دیتا ہے۔ یہ وہ مسرت ہے، جو مجھے بڑا بنا دیتی ہے۔ میرا فخر ہے۔ دوستوں سے کہتا ہو ں کہ اگر شوکت صاحب کے گھر ایک ہفتے رہنے کا پیکیج ایک طرف ہوتا اور دوسری طرف امریکہ کا وزٹ ہوتا، تو مَیں پھر بھی شوکت صاحب کی قربت کو ترجیح دیتا اور مجھے کوئی اور ترغیب ڈانواں ڈول نہ کرتی۔ یہ وہی مہینا تھا جب مَیں دنیا میں آیاتھا۔ ستمبر وہ مہینا ہے جس میں پھل تو پھل آلو بھی میٹھے ہوجاتے ہیں۔
شوکت صدیقی صاحب کا دستخط کردہ ناول: ’’خدا کی بستی‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے، جس پر 28 ستمبر 2001ء کی تاریخ درج ہے اور میری آنکھوں میں آنسو ہیں…… اُردو ادب کے دیوتا کو یاد کر کے۔ میرے اس مضمون میں آپ کو وہ باتیں نہیں ملیں گی جو فیس بک، گوگل یا وکی پیڈیا پر موجود ہیں۔ یہ تو سینہ بہ سینہ چلنے والی وہ تاریخ ہے، جو تاریخ کو اُلٹا کے رکھ دیتی ہے۔ میرے گھر میں، میری کتابوں اور ضروری کاغذات کو آگ لگ گئی تھی۔ جس نقصان کو مَیں نے سب سے بڑا نقصان سمجھا…… وہ جناب شوکت صدیقی صاحب کے خطوط ہی تھے۔ کیا خوب صورت لکھائی تھی اُن کی۔ مختصر مگر مدلل بات کرتے تھے۔ میرے بارے میں اُن کا یہ جملہ ’’سو باتوں کی ایک بات…… عرفان احمد خان ناول لکھنے کا فن جانتے ہیں!‘‘ سال 2000ء میں شائع ہونے والے میرے ناول ’’سنگچور‘‘ پر پرنٹ ہے۔ یہ میرے لیے کسی شیلڈ یا ایوارڈ کے برابر ہے۔
اُن کی ساری زندگی محنت و مشقت سے عبارت رہی۔ کراچی میں کچھ لوگ اُنھیں ’’جوڑ توڑ کا بادشاہ‘‘ بھی کہتے تھے۔ لوگوں کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ مَیں نے شوکت صدیقی کو دورانِ قیام کیسا پایا؟ یہ سوال قاری کے ذہن میں لازمی ہوگا۔ مَیں اس سوال کا جواب بہت تسلی بخش انداز میں دوں گا، قاری پر یہ واضح کرتے ہوئے کہ مَیں پیری مریدی کو نہیں مانتا۔ ہر شخصیت کے بارے میں اپنی اور خالص رائے قائم کرتا ہوں۔ کوئی بھی مجھ سے زبردستی اپنی تعریف نہیں کرواسکتا۔
شوکت صدیقی کے گھر میرے قیام کے گواہ اُن کے پبلشر (رکتاب، کراچی) جناب نثار حسین صاحب ہیں۔ اُنھوں نے مجھے شوکت صاحب کے گھر دیکھا۔ کچھ اور شخصیات بھی اُن کے گھر میری آمد سے واقف تھیں، جن کا تذکرہ اس مضمون میں آئے گا۔ مَیں اُن دنوں پنجاب بنک میں تھا۔ شوکت صدیقی کا نام اتنا بڑاتھا کہ میرے سخت گیر باس قاضی لطیف (جنھیں تک چھپ کر ’’قاضی کثیف‘‘ بھی کہاجاتا تھا) نے بھی مجھے کراچی جانے کے لیے چھٹی بخوشی دے ی۔ ’’بخوشی‘‘ لفظ غالباً مَیں نے پہلی مرتبہ استعمال کیا ہے، ورنہ یہ لفظ تواِس سے پہلے فلمی اشتہاروں میں پڑھا تھا: ’’سینئر نے بخوشی پاس کر دیا!‘‘ یہ جملہ پڑھ کر بہت ہنسی آتی تھی کہ سینئر بورڈ کو کس بات کی خوشی؟ یہ تو سینئر بورڈ کا فرض تھا۔
لاہور سے کراچی ٹرین پر سیٹ اور برتھ بک کروائی۔ دو سوٹ کیس میرے ساتھ تھے۔ شوکت صاحب کی حسبِ ہدایت کراچی پہنچ کر اُن کو فون کیا۔ میرے پاس اُس وقت 3310 Nokia موبائل تھا۔ شوکت صاحب نے مجھے اپنے ڈرائیور کی مدد سے پبلک ٹرانسپورٹ کا سمجھایا اور مجھے سعودی (قونصلیٹ) کے پاس اُتر کر انتظار کرنے کو کہا۔ وہاں اُن کا ڈرائیور مجھے لینے آگیا اور مَیں ڈیفنس میں شوکت صدیقی کے گھر خیابانِ مجاہد پہنچا۔ دوپہر ایک بجے کا وقت تھا۔ شوکت صاحب بہت پُرجوش انداز میں بغل گیر ہوئے۔ میر ا سامان ملازم کے ذریعے اوپر والے کمرے میں رکھوایا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ وہ کمرہ اُن کی بیٹیوں کے لیے مخصوص تھا، مگر اُنھوں نے مجھے بھی اپنا بیٹا سمجھ کر کوئی فرق روا نہیں رکھا تھا۔ اُنھوں نے مجھے فوری طور پر نہا دھو کر نیچے آنے کو کہا۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچکاتھا ۔ کھانے کی میز پر خوب باتیں ہوئیں۔ اُنھوں نے صاف کہا کہ وہ چکنائی سے پاک پرہیزی کھانا کھاتے ہیں، مگر مجھے جس کھانے کی بھی ضرورت ہو، بلا تکلف خانساماں سے کَہ سکتا ہوں اور مَیں نے بعد اَزاں ایسا ہی کیا۔ کھانے پینے کے حوالے سے لحاظ نہ کرنا میرے اندر والد صاحب کی طرف سے آیاتھا۔ وہ بھی میری خالاؤں کی طرف جاتے، تو بھوک لگنے کی صورت میں صاف ہی کَہ دیتے: ’’روٹی لاؤ!‘‘
ایک بار میری خالہ حنیفہ نے جلدی جلدی موٹی موٹی سی روٹی پکا کر دی، جو میری والدہ کی بنائی ہوئی روٹی کے مقابلے میں خاصی بدوضع تھی، تو صاف گوئی کا شان دار مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ کیا اُپلے تھاپ کر لے آئی ہو؟‘‘ خالہ میری موجودگی کے باعث بہت شرمندہ ہوئیں۔
مَیں نے شوکت صدیقی کے خانساماں کو ایسے ایسے کھانے فرمایش کیے کہ میرے جانے کے بعد توبہ توبہ کرتا ہوگا۔ شکر ہے کہ اُس وقت میرے ساتھ قاسم ضیا یا انیس رحمان جیسے خوش خوراک دوست نہیں تھے، ورنہ شوکت صاحب کا خانساماں راہِ فرار اختیار کرتا۔ مجھے اتنا کھلا پلا کر بھی شوکت صاحب کی تسلی نہیں ہو رہی تھی: ’’عرفان کچھ اور بتاؤ؟ میں تمھاری آمد سے بہت خوش ہوں۔ بہت سوچ کر مَیں نے پام فریٹ فش کی فرمایش کر دی۔ پاکستان میں مشہور ہے کہ مچھلی صرف اُن مہینوں میں کھانی چاہیے جس میں اُردو حرف ’ر‘ آتا ہو، یا انگلش حرف "R” آتا ہو۔‘‘ تعمیل ارشاد ہوئی۔ رات کو ڈنر پر پام فریٹ فش حاضر تھی۔ تازہ جھینگے بھی بہت کھائے شوکت صاحب کے گھر۔
شوکت صاحب کے گھر میں ایک چھوٹا سا لان تھا، جس میں وہ آرام کرسی پر سانیو ریڈیو پر رات کو ’’بی بی سی‘‘ سنا کرتے تھے۔ یہ اُن کا پرانا شوق تھا۔ صبح کے وقت اُ ن کے گھر بہت سے اخبارات (انگریزی، اُردو دونوں) بھی آتے تھے۔
شوکت صاحب کے گھر اگلی صبح ناشتے پر مَیں نے سوال کیا: ’’شوکت صاحب سُنا ہے جون ایلیا شراب بہت پیتے ہیں؟‘‘ شوکت صاحب مسکرائے: ’’بھائی، وہ شراب پیتا نہیں اُس میں سلائس ڈبو ڈبو کر کھاتا ہے!‘‘ اس جواب کے بعد تو بات ہی ختم ہو گئی تھی، مگر شوکت صاحب نے بات ختم نہ کی: ’’شراب مکمل فلم ہے اور بیئر اُن کا ٹریلر!‘‘ کیا خوب صورت جملہ ہے۔ پھر جو موضوع شوکت صاحب نے چھیڑا، وہ تو پورا پی ایچ ڈی کے تھیسز کا ٹاپکہے۔ میرے محدود علم میں لامحدود افسانہ کرتے ہوئے کہا: ’’اُردو اَد ب میں ’اوریجنل رائٹرز‘ بہت کم ہیں، زیادہ تر "Extensions” ہیں، یعنی توسیعی شخصیات۔ ابوالکلام آزاد کی "Extension” مختار مسعود ہیں۔‘‘ مَیں چونکا ’’رشید احمد صدیقی کی توسیع مشتاق احمد یوسفی ہیں اور شفیق الرحمن کی "Extension” مستنصر حسین تارڑ ہیں۔ شاعری میں فیضؔ احمد فیض کی "Extension” احمد فرازؔ ہیں۔‘‘ مَیں منھ کھولے شوکت صدیقی کی باتیں سن رہاتھا اور حفظ کر رہا تھا۔ وہ میرے لیے اپنا ذہن کھول رہے تھے۔ شاید یہ وہ باتیں تھیں جو وہ میرے علاوہ کسی سے بھی نہیں کرسکتے تھے، یا پھر مجھے ایسا محسوس ہو رہاتھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں مشہور ہے کہ اُن سے جو بھی ملتاتھا یہی سمجھتا تھا کہ میں ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پیارا ہوں۔
اُس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن پنجاب یونیورسٹی، نیو کیمپس، لاہور میں اسی موضوع پر میرا لیکچر ہو رہا ہوگا۔ مستنصر حسین تارڑ، برگیڈئیر شفیق الرحمان (ادبیات پاکستان کے پہلے چیئرمین) کی "Extension” نکلیں گے۔ مَیں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
مَیں نے شوکت صاحب سے مستنصر حسین تارڑ کے با رے میں مزید پوچھا، تو اُنھوں نے بتایا ’’اپنے ناول ’راکھ‘ (1997ء) کو ایوارڈ دلوانے کے لیے سفارش کروانے یہاں میرے گھر آیا تھا۔ مَیں نے بہت ٹالا کہ بارش ہو رہی ہے۔ پھر کسی دن ملاقات رکھ لیں۔ جٹ اُجٹ ہے، نہ ٹلا۔ عورتوں جیسے نمایشی لہجے میں کہا: ’شوکت صاحب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مَیں کراچی آؤں اور آپ سے نہ ملوں!‘ مَیں نے فوراً کہا: ’تارڑ صاحب! آپ پہلی مرتبہ کراچی آئے ہیں؟‘ تو شرمندہ ہو کر کہا: ’شوکت صاحب! مَیں ابھی آرہا ہوں آپ کی طرف! ‘ سچی بات ہے، مجھے اس جھوٹے پر یقین نہیں تھا۔ مَیں اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ قیلولے کے لیے لیٹنے ہی والاتھا کہ ملازم نے آکر بتایا کہ لاہور سے کوئی صاحب آئے ہیں اور خود کو تارڑ کَہ رہے ہیں ۔ مَیں نے ملازم سے کہا کہ اُنھیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ۔ مَیں آتا ہوں۔ مَیں ڈرائنگ روم پہنچا، تو عجیب منظر دیکھا۔ ٹی وی سے برعکس ایک آفت زدہ سا نظر آنے والا شخص، بارش میں بھیگ کر بھیگا بلّا بنا میرے سامنے تھا۔ مَیں نے آتش دان روشن کروایا۔ کافی اور کیک پیش کیے، تو تارڑ کی جان میں جان آئی۔ آتے ساتھ میری برتی گنتی کی شکایت کی: ’شوکت صاحب آپ کی کال بیل بجاتے ہوئے مجھے کرنٹ پڑا ہے۔‘ مَیں نے بات مذا ق میں ٹالی: ’تارڑ صاحب! بن بلائے مہمان کو یہ گھنٹی کرنٹ مارتی ہے۔ ‘ تارڑ کمرشل آدمی ہے۔ چہرہ بھی پیشہ وروں جیسا ہے۔ مجھے دانہ ڈالنے لگا: ’شوکت صاحب! آپ کس تھرڈ کلاس پبلشر سے اپنی کتابیں پرنٹ کروا رہے ہیں؟ مَیں آپ کی ڈیل سنگِ میل سے کروا دیتا ہوں۔ بہت رائلٹی دیتے ہیں وہ۔ مَیں تو اُن سے سفر نامہ لکھنے کا ایڈوانس بھی لے لیتا ہوں۔‘ مَیں نے تارڑ صاحب کو کسی غلط فہمی میں نہ رکھا: ’تارڑ صاحب! مَیں اپنے پبلشر نثار حسین سے مطمئن اور خوش ہوں۔ وہ میرے بچوں جیسا ہے۔ مجھے کوئی لالچ نہیں سنگِ میل سے شائع ہونے کا اور مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ ’وچولے‘ کب سے بن گئے؟‘ تارڑ کو اندازہ ہوگیا کہ تیر نشانے پر نہیں لگا۔ پھر اپنے مطلب کی طرف آگیا اور ’راکھ‘ کو ایوارڈ دلوانے کا کہا۔ گھر آئے مہمان کی کچھ تو عزت کرنی تھی۔ اُسے ایوارڈ دلوانے کا جیسے ہی وعدہ کیا۔ بڑے پروفیشنل انداز میں اُٹھا اور ہاتھ ملا کر رخصت ہوا۔ اُس کے بعد کئی بار کراچی آیا ہے مگر مجھ سے نہیں ملا۔‘‘
مَیں تو تارڑ کے گھٹیا پن کے بارے میں پہلے سے بہت کچھ جانتا تھا، مگر آج تو شوکت صاحب نے اُوتھ کمشنر کی طرح تصدیق کر دی تھی۔
فیڈرل بی ایریا (سمن آباد) میں رہنے والی آپا بلقیس بانو کے خاوند محمد معروف کرخی جو سول انجینئر بھی تھے اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی، بلکہ اچھے گارکا بھی…… میرے والد کے پرانے اور اچھے دوست تھے۔ میرا جب بھی کراچی آنا ہوتا، قیام اُنھی کے گھر ہوتا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اُن کی محبت پر شوکت صاحب کی محبت غالب آگئی تھی۔ مَیں اندر ہی اندر سے ڈرا بھی ہواتھا کہ جب بانو آپا صاحبہ کو پتا چلے گا کہ مَیں کراچی آیا، مگر اُن سے نہیں ملا، تو سخت خفا ہوں گی۔ مَیں نے شوکت صاحب سے کہا: ’’آپ کی ایک بہت بڑی پرستار ہیں بانو آپا، جن کے گھر میں آپ کے ڈرامے ’’خدا کی بستی‘‘ کاٹی وی سکرپٹ پہلی بار پڑھا تھا۔ وہ آپ کا ڈراما دیکھنے کی خاطر گھر سے باہر ہونے کی صورت میں کسی بھی ٹی وی انٹینا والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا کرتی تھیں اور ’’خداکی بستی‘‘ دیکھ کر ہی اُٹھتیں تھیں‘‘۔ شوکت صاحب بہت خوش ہوئے: ’’تو پھر بات کرواؤ ناں اُن سے! ‘‘ مَیں نے فوراً اُن کے لینڈ لائن نمبر سے بانو آپا صاحبہ کا نمبر ملا دیا۔ پہلے اُن سے سرسری بات کی۔ شوکت صاحب کا بتایا اور فون شوکت صاحب کو تھما دیا۔ شوکت صاحب اور بانو آپا کی خاصی دیر بات ہوتی رہی۔ پھر شوکت صاحب کا دوائی کھانے کا وقت ہوگیا۔ اُنھوں نے ریسیور مجھے تھما دیا اور چلے گئے۔ حسبِ توقع بانو آپا مجھ پر سخت خفا ہوئیں: ’’تمھارے خالو مزے میں ہیں، نہیں مری۔ کل ہی میری طرف آؤ۔ تمھارے کان تو اب میں کھینچوں گی۔‘‘ اُنھوں نے مجھ سے شوکت صاحب کا نمبر بھی لے لیا۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب بھی ’’ڈی ایچ اے‘‘ ہی میں رہتے تھے۔ مَیں نے شوکت صاحب سے اُن کی طرف جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور جانے کی اجازت چاہی۔ شوکت صاحب نے کہا : ’’نہ جاؤ۔ اُن سے مل کر تمھیں مایوسی ہوگی۔ خشک سے آدمی ہیں۔‘‘ مَیں نے صاف کہا: ’’سر! آپ اور وہ برابر کے ہیں۔ بڑے رائٹر ہیں۔ مَیں تو حقیر سا بندہ ہوں۔ نیاز مندی سے ملاقات چاہتا ہوں۔ وہ خشک بھی ہوئے، تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جلدی جلدی مل کر آجاؤں گا۔‘‘
اس موقع پر شوکت صاحب کا چہرہ بتا رہاتھا کہ وہ میرے یوسفی صاحب کی طرف جانے سے خوش نہیں، مگر میرا دل رکھنے کے خیال سے خاموش رہے۔ اپنی کار مع ڈرائیور میرے حوالے کی اور ہمیں روانہ کیا۔ وہاں سے یوسیفی صاحب کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ مَیں نے شوکت صاحب کے ڈرائیور کو باہر انتظار کرنے کو کہا اور گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ یوسیفی صاحب سوٹڈ بوٹڈ بیٹھے تھے، جیسے کہیں روانہ ہونے والے ہوں۔ مَیں نے اپنا مختصر ترین تعارف کروایا۔ بڑے خوش ہوکر ملے۔ مجھے حیرت ہوئی۔ کچھ دیر بعد اُن کی اہلیہ بھی تشریف لے آئیں اور ہماری بات چیت میں شریک ہوگئیں۔ دونوں میاں بیوی ایکسٹرا اسمارٹ تھے۔ لگتا تھا صرف ہوا پر ہی چلتے ہیں۔ مجھے خدشہ ہوا کہ مجھے بھی کھانے پینے کا کچھ خاص نہیں پوچھا جائے گا…… مگر میری خاطر تواضع ’’ہائی ٹی‘‘ سے کی گئی۔ پھر یوسفی صاحب مجھے بچوں کی طرح اپنے گھر کے فلورز دکھانے لگے۔ پہلے فلور پر شعبۂ موسیقی کے حوالے سے بیش بہاخزانے موجود پائے۔ گراما فون، سیٹیں اور پھر ’’سی ڈیز‘‘ سبھی کچھ وہاں جلوہ افروز تھا۔ سب کچھ صاف ستھرا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ روزانہ وہاں صفائی کی جاتی تھی۔
فرسٹ فلور کے بعد سیکنڈ دیکھا، جو کتابوں سے چھت تک بھرا ہواتھا۔ وہاں یوسفی صاحب نے ایک تاریخی اور میرے نزدیک قابل رشک جملہ کہا : ’’عرفان صاحب! مجھے کسی کتاب کے لیے اپنے گھر سے باہر جانا نہیں پڑتا۔‘‘ یہ بہت بڑی بات تھی…… یعنی ہر اہم کتاب اُن کے پاس موجود تھی۔ وہاں اُنھوں نے مجھے پہلی بار ایک نایاب کتاب ’’سارے سخن ہمارے‘‘، یہ سرخ رنگ کی مراکو جلد والی خوب صورت ڈبے میں بند فیض احمد فیضؔ کی کتاب تھی۔ جو لندن سے اُردو مرکز (اُردو مرکز میں افتخار عارف اور خود یوسفی صاحب ہوتے تھے) نے شائع کی تھی۔ اُس کتاب کی اشاعت اور مارکیٹنگ کے لیے وہی طریقۂ کار اختیار کیا گیاتھا، جو عبدالرحمان چغتائی نے ’’مرقع چغتائی ‘‘ کے سلسلے میں اپنایا تھا۔
’’مرقع چغتائی‘‘ خاص ایڈیشن 500 کی تعداد میں تیار کیا گیاتھا ۔ اس زمانے میں کلر پرنٹنگ خاصی مہنگی تھی۔ اس لیے کتاب پر رنگین تصاویر کاٹ، کاٹ کر ہاتھ سے چسپاں کی گئی تھیں اور کتاب کے ہر نسخے پر عبدالرحمان چغتائی نے اپنے دستخط بھی کیے تھے اور کتاب کا نسخہ نمبر بھی ہاتھ سے لکھا تھا۔
’’سارے سخن ہمارے‘‘ دیکھ کر دل کھل اُٹھا۔ اُسے ہاتھوں سے محسوس کیا، آنکھوں میں بسایا اور اس کی خوش بو اپنے دل و دماغ میں اُتار لی۔ اُس نسخے پر گولڈ وائر بھی لگایا گیاتھا۔
دو فلورز کا دورہ کرنے سے بھوک لگنے لگی تھی۔ میرے کہے بغیر ہی کھانا چن دیا گیا۔ ڈائننگ ٹیبل پر یوسفی صاحب اُن کی بیگم اور پھر راقم موجود تھا۔ اچانک مجھے شوکت صدیقی صاحب کے ڈرائیور کا خیال آیا، جو میرے انتظار میں سوکھ رہا تھا۔ مَیں نے اُس کے لیے بھی کھانا ملازم کے ہاتھ بھجوایا۔ کھانے کے دوران میں، مَیں نے یوسفی صاحب کی تعریف کی، تو شرماتے ہوئے بولے: ’’ آپ نے مجھے نہ بھی پڑھا ہو، تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ اَدب کے اُبھرتے ہوئے ستارے ہیں۔‘‘ مَیں کچھ جذباتی سا ہوگیا۔ ’’یوسفی صاحب! آپ حیران ہوں گے کہ مَیں آپ کو کب سے پڑھ رہا ہوں! ‘‘
’’کب سے؟‘‘ یوسفی صاحب اور ان کی بیگم ذرا چونکے اور میری طرف زیادہ توجہ سے دیکھا۔
’’یوسفی صاحب! مَیں آپ کو اُس وقت سے پڑھ رہا ہوں، جب آپ لاہور کے رسالے ’چاند‘ میں مشتاق احمد کے نام سے لکھا کرتے تھے۔‘‘
کچھ دیر کے لیے خاموشی رہی۔ پھر یوسفی صاحب نے کہا : ’’آپ نے درست کہا۔ مَیں کسی زمانے میں ’چاند‘ میں لکھا کرتا تھا۔ لنچ کرتے ہی میں باہر نکلا اور ڈرائیور کے ساتھ شوکت صاحب کے گھر واپس آیا۔ شوکت صاحب ڈرائیور پر خفا ہوئے کہ تم لوگ کہاں چلے گئے تھے؟ مَیں نے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ ڈرائیور نے اُنھیں بتایا کہ یوسفی صاحب کی طرف ہی تھے۔ وہاں ہی دیر ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہاتھا کہ شوکت صاحب کو ہماری بات پر یقین نہیں آیا۔ وہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ ہم شہر کی سیر کو نکل گئے تھے اور بہانہ یوسفی کا بنا رہے ہیں۔ مَیں نے شوکت صاحب کا دل اُسی وقت صاف کرنے کی غرض سے یوسفی صاحب کو کال کی۔ وہ سمجھے میں وہاں کچھ بھول آیا ہوں۔ مَیں نے اُنھیں کہا کہ آپ شوکت صدیقی صاحب سے بات کریں اور اُنھیں بتائیں کہ ہم آپ کے پاس کتنی دیر رہے؟ شوکت صدیقی صاحب کو یوسفی صاحب نے کچھ تفصیل بتا کر مطمئن کردیا۔
شوکت صدیقی صاحب، ڈرائیور کے ساتھ ڈاکٹر کی طرف چلے گئے اور میں پبلک ٹرانسپورٹ پر اکیلا آوارہ گردی کرنے چلا گیا۔ واپسی پر دیر ہوگئی۔ راستہ بھی بھول گیا۔ ایسے عالم میں واپڈا والوں کا ٹرک نظر آیا۔ اُن کو روکا اور بتایا کہ میں رستہ بھول گیا ہوں۔ اُن کو شوکت صدیقی صاحب کا پتا بتایا تو کہنے لگے: ’’مڑہ! انھیں کون نہیں جانتا۔ جلدی سے بیٹھو۔ ہم تمھیں اُن کے گھر اُتار دے گا۔‘‘ ٹرک شوکت صدیقی صاحب کے گھر کے آگے رُکا، تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شوکت صدیقی صاحب میرے انتظار میں گھر سے باہر چکر لگا رہے تھے۔ مجھے ٹرک سے اُتر تا دیکھ کر اُن کی جان میں جان آئی۔ ڈنر کا پوچھا، مگر میں فُل ہوکر آیاتھا۔
شوکت صدیقی صاحب کے گھر جو سب سے خوب صورت نظارہ مَیں نے کیا، وہ اُن کی خواب گاہ کی طرف جانے والا وہ کوریڈور تھا، جس کے دائیں بائیں لکڑی کی دیوار میں فکس الماریوں میں کتابیں ہی کتابیں لگی تھیں۔ ہر لائبریری کو توجہ سے دیکھنا میری عادت تھی۔ مَیں کتابیں دیکھنے لگا۔ شوکت صاحب میری رہنمائی کے لیے اُدھر آئے اور مجھے حیران کرتے ہوئے کہا: ’’یہ مختلف کتابیں نہیں، بلکہ میری ایک ہی کتاب ’’خدا کی بستی ‘‘ کے دنیا بھر کی زبانوں میں بار بار شائع ہونے والے مختلف ایڈیشن ہیں۔‘‘ مَیں نے وہاں موجود کئی کتابوں کو کھول کھول کر دیکھا۔ اعلا ترین طباعت تھی، ہر باب پر تصویریں یا سکیچ بھی بنے ہوئے تھے۔ کاغذ بھی شان دار تھا۔
مَیں اور شوکت صاحب لان میں آکر بیٹھ گئے اور شوکت صدیقی صاحب مجھے تفصیل بتانے لگے: ’’اب تک دنیا بھر کی 47 زبانوں میں میرے ناول ’خدا کی بستی‘ کے تراجم ہوچکے ہیں۔ ناول کے گھر روس میں، روس کی سرکاری زبان کے علاوہ وہاں کی 16 علاقائی زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔ انگلش ترجمہ تو ’ڈیوڈ میتھوز‘ جیسی بڑی ادبی شخصیت نے کیا۔ جرمن ایڈیشن بھی بڑا اعلا ہے، مگر سب کا ریکارڈ توڑ اہے جاپانی ایڈیشن نے، جس کا پہلا ایڈیشن 5 لاکھ کی تعدا د میں شائع ہوا اور یہ لائبریری ایڈیشن تھا، جس کے بعد 5 لاکھ کا ایک اور ایڈیشن عوام کے لیے یعنی اوپن مارکیٹ کے لیے شائع ہوا۔ مجھے آج بھی دنیا بھر سے رائلٹی کے چیک آتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ ایمان دار اور ادب کے متوالے ہیں۔ اگر مجھے کہیں سے ’خدا کی بستی‘ کے پیسے نہیں ملے، تو وہ اُردو، ہندی، بنگالی اور چینی زبانوں کے ایڈیشن ہیں۔ یہ سب بے ایمان اور بھوکے ننگے ملک ہیں۔ کراچی میں مجھ جیسے ترقی پسند کا پالا ع س مسلم جیسے مسلمان اور جماعتِ اسلامی کے اِزار بند کی گانٹھ سے پڑا ۔ اُس نے لارک پبلی کیشنز کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیاتھا۔ ’خدا کی بستی‘ کا پہلا ایڈیشن اسی نے شائع کیاتھا ۔ ’خدا کی بستی‘ ٹی وی پر چلا، تو ناول کو اور شہرت ملی۔ اُس نے کئی ایڈیشن نکالے اور مجھے ہوا نہیں لگنے دی۔ کیا جماعتِ اسلامی پر ایک ترقی پسند رائٹر کی کمائی حلال ہے؟ آپ تو لاہور میں منصورہ کے پاس ہی رہتے ہیں۔ کبھی پوچھئے گا اُن لوگوں سے……! ‘‘
مَیں نے شوکت صدیقی صاحب کی بات کاٹی: ’’سر! منصورہ سے پہلے وہاں ثنائی فلم سٹوڈیو ہوا کرتا تھا، جس پر جماعت اونے پونے پیسے دے کر قابض ہوگئی۔ جماعت کا قصور نہیں جگہ کا قصور ہے۔ فلمی سٹوڈیو سے تو ایسی ہی آوازیں اٹھیں گی: ’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘، ’آجا قاضی تینوں اکیاں اُڈیکدیاں۔‘‘
شوکت صدیقی صاحب ہنسنے لگے، تو مَیں نے موضوع تبدیل کیا: ’’سر! آپ کا جانگلوس کے حوالے سے شکیل عادل زادہ (مدیر: سب رنگ ڈائجسٹ) سے کیا پھڈا ہوا تھا؟‘‘
شوکت صدیقی صاحب نے اپنی ہنسی آہستہ آہستہ سمیٹی اور مجھے بتانا شروع کیا: ’’عرفان صاحب، شکیل عادل زادہ بہت قابل، ذہین اور سمجھ دار ایڈیٹر ہے۔ مجھ سے ’جانگلوس‘ کی پہلی قسط لکھوانے کے بعد اُس نے قسط میرے نام کے بغیر ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ کے پورے سٹاف کو باری باری پڑھائی اور اُنھیں 100 میں سے نمبرز دینے کو کہا۔ جب سب نے اُسے اچھے نمبرز دیے، تو اُس نے ’جانگلوس‘ قسط وار شائع کرنے کی ہامی بھرلی اور مجھے کھل کر لکھنے کو کہا۔ مجھے معاوضہ بھی وہ دیا، جو مجھ سے پہلے کسی رائٹر کو نہ تو ملا تھا نہ کسی کے وہم و گمان ہی میں تھا۔ اب ہوا یہ کہ مَیں نے اپنی طرف سے جانگلوس لکھ کر مکمل کر دیا، مگر اس کے معاملات خراب ہونے لگے۔ مجھے معاوضہ تو بہت اچھا اور پورا مل گیاتھا، مگر میری خواہش تھی کہ یہ میری زندگی ہی میں کھل کر شائع ہو اور عوام تک پہنچے۔ یوں یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ مَیں نے عدالت کو بتایا کہ کہنے کو ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ ماہانہ ہے، مگر اب اس کا شمارہ کبھی 3 ماہ بعد آتا ہے اور کبھی 6 ماہ بعد۔ اس طرح تو یہ میری زندگی میں پورا شائع نہیں ہوسکے گا۔ یا تو میری عمر 300 سال ہوم تو مکمل شائع ہونے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ بات اصولی تھی عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ہماری اصولی لڑائی صرف عدالت کے اندر تک تھی۔ عدالت سے باہر ہم آج بھی دوست ہیں۔‘‘
شوکت صدیقی صاحب کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں خیال آیا:
’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘
شوکت صدیقی صاحب جیسے دلچسپ آدمی کے ساتھ زندگی گزر جائے، تو پتا نہ چلے۔ مَیں تو صرف ایک ہفتے کے لیے ہی آیاتھا۔ صبح صبح شوکت صدیقی صاحب نے ناشتے کے بعد مجھے بتایا کہ ’’تمھاری بانو خالہ کا باربار فون آرہا ہے کہ عرفان کو ہماری طرف بھیجیں۔ میرا دل تو نہیں چاہتا، مگر اُن کا دل رکھنا بھی ضروری ہے۔‘‘
مَیں نے اُن سے رخصت لی اور اپنے دونوں بڑے سوٹ کیس اُٹھا کر باہر سڑک پر آگیا۔ شوکت صاحب کا ڈرائیور چھٹی پر تھا۔ اصولاً تو میرا مضمون یہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا، مگر اس رخصتی والے دن کی روداد بانو آپا کے گھر تک پہنچنے تک دلچسپ ہے اور اللہ سے بندے کے قریبی تعلق کو ثابت کرتی ہے۔
دو سوٹ کیس اُٹھا کرمجھے ڈیفنس کی مین روڈ تک جانا دو بھرکر رہا تھا۔ گرمی بھی محسوس ہو رہی تھی۔ اللہ سے دُعا کی کہ مَیں اس وزنی سامان کے ساتھ کسی طرح بس پر بیٹھ جاؤں۔ اللہ تیری شان…… ایک سبزی والا اپنی ساری سبزی فروخت کر کے خالی ریڑھی لیے وہاں سے گزر رہا تھا۔ اُسے مجھ پر ترس آیا۔ اُس نے میرے دونوں بڑے سوٹ کیس اُٹھا کر اپنے ٹھیلے پر رکھ لیے۔ اُس نے اُدھر ہی جانا تھا۔ مین روڈ پر اُس نے میرے سوٹ کیس مجھے تھمائے اور چلا گیا۔ میری مطلوبہ بس آئی اور میں دونوں سوٹ کیس لے کر سوار ہوگیا۔ اللہ کا بہت شکر ادا کیا، جس نے تکلیف سے بچایا۔ پھر یہ خیال آیا کہ جہاں میں جا رہا ہوں، وہاں بھی خاصا پیدل چلنا پڑتا ہے۔ وہاں کیا بنے گا؟ ایک بار پھر اللہ سے دُعائیں مانگنی شروع کر دیں۔اللہ اب بھی میری شہ رگ سے قریب ہی تھا۔ میری دُعائیں قبول ہوئیں۔ فیڈرل بی ایریا (گلبرگ) سے بس النور جانے کے لیے مڑی۔ میرا سٹاپ رستے میں سمن آباد والا تھا۔ اب ہوا یہ کہ بیچ سڑک میں کوئی تقریب ہو رہی تھی۔ سڑک شامیانے لگا کر بند کردی گئی تھی۔ میری بس کو راستہ بدل کر گلیوں کے اندر سے اُدھر سے گزرنا پڑا، جہاں اصل میں مجھے جانا تھا۔ جیسے ہی بس بانو آپا کے گھر کے بالکل سامنے سے گزری میں نے بس رُکوالی۔ اپنے بھاری بھر کم سوٹ کیس اُتارے اور سکون کا سانس لیا۔ بانو آپا کے گھر سے بچے آکر میرے سوٹ کیس اُٹھا کر اوپر لے گئے۔
یہ دوواقعات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جب آپ کی زندگی میں نیک روحیں داخل ہوتی ہیں، تو حالات بھی آپ کے حق میں جانے لگتے ہیں۔ کراچی کے کئی ٹورز کیے، مگر 2001ء والے اس ٹور کی تو بات ہی اور تھی جو صرف اور صرف جناب شوکت صدیقی کی خاطر کیا۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔