پچھلے کچھ مہینوں سے مکرر یہ عرض کرتا چلا آرہا ہوں کہ شمالی اور جنوبی علاقوں میں ’’سب اچھا‘‘ نہیں…… بلکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ’’کچھ بھی اچھا نہیں!‘‘
مجھے قطعاً خوشی نہیں ہوتی جب اس قسم کی باتوں کو دہراتا ہوں…… لیکن کیا کروں:
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
شمال میں میرا گھر ہے اور جنوب میں معاش کا ذریعہ…… اس وجہ سے دونوں علاقوں کے حالات کا گواہ ہوں۔ ’’قصیدہ گو قلم کار قبیلے‘‘ سے میرا تعلق نہیں، جن کا شیوہ فقط شاہ کا مصاحب بننا ہے۔ اس لیے یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہمیشہ سے زمینی حالات کو سامنے رکھنے ہی کو ترجیح دی۔
شمال اور جنوب میں بدامنی کی جو حالیہ لہر اُٹھی ہے، یہ خوف ناک صرف اس لیے نہیں کہ حسبِ سابق اس میں ان دونوں علاقوں کے لوگ مررہے ہیں، ثقافت کا جنازہ نکل رہا ہے، ماحول متاثر ہورہاہے…… اور زندگی خوف کے سائے میں گزر رہی ہے، بلکہ اس حوالے سے بھی صورتِ حال تشویش ناک ہے کہ اب مذکورہ علاقوں میں کھلے عام تحفظ کے ذمے داروں پر اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔
قارئین! لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ تحفظ کے نام پر بنے اداروں اور ایجنسیوں، رینجرز، ملیشا، پولیس (و علی ہذا القیاس) کے باوجود امن دشمنوں کا ان علاقوں میں گھس کر مسجد، مدرسہ، تھانہ، چیک پوسٹ اور بازاروں کو نشانہ بنانے کی کیا تُک بنتی ہے……!
اس گھٹن میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کے مصداق شمالی اورجنوبی علاقوں میں جن زیرِ زمین معدنیات کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا ہے، اُس حوالے سے مرکزی وزرا کا دعوا ہے کہ اُن کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ اُن میں سے کچھ پر کام کا آغاز ہوا بھی ہے، جو کہ خوش آیند ہے، مگر مقامی لوگوں میں سے ڈھیر سارے یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ مذکورہ معدنیات کا یہاں ہونا ہمارے لیے نعمت ہے یا زحمت……! کیوں کہ مذکورہ ذخائر کی سیکورٹی کے لیے بھی ہر طرف چیک پوسٹیں لگا دی گئی ہیں، جن سے مقامی لوگوں کا گزرنا محال ہوگیا ہے۔
ساتھ میں یہاں ملازمتوں میں بھی مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جب کہ مذکورہ معدنیات اور اُن سے جڑی عالمی، علاقائی اور مقامی مفاداتی جنگ کے تمام تر نقصانات صرف مقامی لوگوں کو اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ یہ نقصانات قیمتی جانوں کے ضیاع، کاروباروں کی بندش، ماحول کی تباہی اور خوف میں گزرتی زندگی کی صورت میں نمایاں ہیں۔
ماضیِ قریب میں جب شمال اور جنوب کے علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے عسکری کارروائیاں کی گئی تھیں، تبھی مقامی لوگوں سے اسلحہ بھی اکٹھا کیا گیا تھا اور اُنھیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ اب آپ کی حفاظت ریاست کے ذمے ہے۔ مقامی راہ نماؤں میں سے ڈھیر سارے یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلحہ لے کر ریاست نے ہمیں خوں خوار دہشت گردوں کے سامنے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیا ہے۔ بدامنی میں اضافہ ہورہا ہے، مگر ریاست کی ترجیح شاید ان علاقوں میں زیرِ زمیں معدنیات کا حصول ہے، برسرِ زمیں مرنے والے انسانوں کی حفاظت نہیں……!
مقامی لوگوں کا یہ الزام بظاہر وزنی ہے۔ اگر ریاست تحفظ فراہم نہیں کرسکتی، تو اپنے دفاع کے لیے ان لوگوں کو مسلح تو کرے، تاکہ معصوم لوگ کم از کم دہشت گردوں کا آسان ہدف تو نہ بنیں۔ ریاست چلانے والے کچھ بھی کہیں…… اور قلم فروش یا شاہ کے مصاحب ٹائپ قلم کار کچھ بھی لکھیں، حقیقت یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی علاقوں میں مرکز گریز قوتوں کو تقویت مل رہی ہے۔ نتیجتاً عوام کے سینوں میں نفرت، غصہ اور بے زاری کی وجہ سے لاوا پک رہا ہے۔
اب کئی دنوں سے یہ خبر بھی زیرِ گردش ہے کہ شمال کے ایک خوب صورت علاقے ’’سوات‘‘، جس کو ایشیا کا سویٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے، میں ایک بار پھر شاہراہوں پر چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے، تو یہ اہلِ علاقہ کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کیا ہے؟ کیوں کہ اس علاقے کا ماضیِ قریب گواہ ہے کہ چیک پوسٹوں سے دہشت گردوں کو کم اور مقامی لوگوں کو زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔ ایسا بھی کوئی ریکارڈ نہیں کہ مذکورہ چیک پوسٹوں پر کسی بڑے دہشت گرد کو پکڑا گیا ہو۔
اگر امن سب کی ضرورت ہے، تو پھر یہ شمال اور جنوب والوں کے لیے ڈراؤنا خواب کیوں ہے؟
اس طرح مرکز اس خوش فہمی میں کیوں مبتلا ہے کہ بے شک ان علاقوں میں انسان مرتے جائیں، مگر ہم ان کی معدنیات پر عیاشیاں کرتے رہیں گے…… یہ ہر گز مناسب نہیں کہ کسی کے گھر میں میت پڑی ہو اور آپ اُس میں پڑے دانے چرانے میں مصروف ہوں۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ شمال اور جنوب میں امن ہوگا، تو مرکز پُرامن رہ پائے گا۔ ورنہ جو آگ مذکورہ علاقوں میں لگائی جا رہی ہے، مَیں نہیں سمجھتا کہ اس کی تپش سے مرکز یا یہ ریاست چلانے والے بچ سکتے ہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔