چند سال پہلے کی بات ہے، ایک غریب آدمی نے کہا کہ اُس کے ہاں بچے کی پیدایش متوقع ہے…… لیکن کچھ پیچیدگی کی وجہ سے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ جراحی ہوگی۔ 70 ہزار روپے خرچہ آئے گا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔
قارئین! مَیں نے اپنے دوستوں کے گروپ میں بات کی۔ ایک ڈاکٹر نے کہا کہ میرے ہسپتال میں بھیج دو۔ 30 ہزار روپے میں سارا کام ہو جائے گا۔
احسان حقانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ihsan-haqqani/
اس طرح ایک اور دوست نے کہا کہ میری اہلیہ کے ہسپتال میں بھیج دو۔ دوا دارو کے دس پندرہ ہزار کے علاوہ ہم کوئی پیسے نہیں لیں گے۔
ایک تیسرے دوست نے کہا کہ میرے پاس سرکاری ہسپتال بھیج دو۔ سارا کام تقریباً مفت ہو جائے گا۔ اللہ پاک مغفرت فرمائے، وہ ڈاکٹر صاحب بعد میں کرونا میں شہید ہو گئے، آمین!
ٹھیک عید الفطر کا دن تھا، جب خاتون کو تکلیف شروع ہوئی۔ چوں کہ دوسرے دوست کی اہلیہ کا ہسپتال نسبتاً قریب تھا، اس لیے وہ مریضہ کو وہاں لے گیا۔ کچھ دیر بعد غریب دوست نے فون کیا اور کہا کہ آپ کی جاننے والی ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ ’’فوری آپریشن کی ضرورت ہے۔ 30 ہزار خرچہ ہے…… لیکن تمھاری سفارش کی وجہ سے صرف 15 ہزار لیں گے۔ 5 ہزار ابھی جمع کرو، تاکہ کام شروع ہو۔ اتنی دیر میں باقی رقم کا انتظام کرلو۔‘‘
اُس نے کہا کہ مَیں نے 5 ہزار روپے دے دیے ہیں…… اور باقی میں مدد چاہیے!
مَیں نے کہا کہ فوراً مریض کو فُلاں سرکاری ہسپتال پہنچا دو۔ اگر یہ ڈاکٹر 5 ہزار روپے واپس دیں، تو ٹھیک…… نہیں تو پیسے چھوڑو اور مریض کو سرکاری ہسپتال پہنچاؤ!
کچھ دیر بعد غریب دوست نے فون کیا کہ ڈاکٹر صاحبہ کَہ رہی ہیں کہ ہم نے مریضہ کو ڈلیوری انجکشن لگایا ہے۔ اگر آپ اس کو دوسرے ہسپتال لے جائیں گے، تو خدا نخواستہ راستے میں اس کی حالت خراب ہو سکتی ہے۔
کچھ دیر بعد میرے دوست (ڈاکٹر صاحبہ کے شوہر) نے فون کیا اور کہا کہ اپنے اس بے وقوف دوست کو سمجھا۔ اس کا بچہ ماں کے پیٹ میں دس بارہ گھنٹے پہلے مرچکا ہے۔ اگر فوری طور پر آپریشن کر کے نکال نہ لیا گیا، تو بچہ تو مرا ہے ہی، ماں بھی مر جائے گی۔
قارئین! اب مَیں گھبرا گیا۔ غریب دوست کو تفصیل تو نہیں بتائی، لیکن کہا کہ بھائی! اس ہسپتال میں یا سرکاری ہسپتال میں، فیصلہ آپ کریں۔ اُس نے کہا کہ بھائی میں نے لڑ جھگڑ کر اپنا مریض ’’رہا‘‘ کرا لیا ہے اور سرکاری ہسپتال کے راستے میں ہوں۔
قصہ مختصر کرتا ہوں…… سرکاری ہسپتال نے الٹرا ساونڈ کے بعد کہا کہ زچہ و بچہ دونوں ٹھیک ہیں۔ درد کی وجہ بدہضمی ہے۔ گھر جاؤ۔ اگر درد ہوا، تو فوراً آنا…… نہ ہوا ،تو ایک ہفتے بعد ڈیلیوری کے لیے آنا۔
ہفتہ بعد نارمل ڈیلیوری سے ایک صحت مند بچی پیدا ہوئی، جو اِس وقت تقریباً ساڑھے تین سال کی ہے۔
بچے کی پیدایش تک میں تجسس کے ساتھ دعائیں کرتا رہا۔ پیدایش کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کے شوہر اپنے دوست کو فون کیا کہ بھائی! آپ تو بتا رہے تھے کہ بچہ مرچکا ہے، وغیرہ۔ اُس نے بغیر کسی شرمندگی کے کہا کہ اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے؟
مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ایک عورت، ایک ڈاکٹر، ایک مسیحا چند ہزار روپے کے لیے ایک زندہ بچے کو مردہ قرار دے سکتی ہے…… اور ایک صحت مند مریض کا پیٹ پھاڑ کر اپنے لیے چند سکے نقد کرنا گوارا کرسکتی ہے…… لیکن یہ واقعہ میرا آنکھوں دیکھا ہے…… اور اس طرح کے اور بھی تجربات کا چشم دید گواہ ہوں۔
پرائیویٹ کلینکس ہمیشہ آپریشن کی طرف جائیں گے۔ کیوں کہ اسی میں اُن کا ’’فائدہ‘‘ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔