خلیل جبران کا ترجمہ شدہ افسانہ ’’جل پریاں‘‘

ترجمہ: محمد اسماعیل ازہری لکھنوی
سورج نکلنے سے ذرا پہلے، جزیروں سے گھرے سمندر کی تہ ہے، جس میں رنگا رنگ موتی بکھرے پڑے ہیں۔ ان موتیوں کے قریب بے یارو مددگار ایک نوجوان لاش پڑی ہے۔ اُس لاش کے قریب سنہرے بالوں والی ایک جل پری ہے، جو اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ سب مرجان کی اُوٹ سے اپنی نیلی خوب صورت آنکھوں کے ذریعے اس لاش کو تکتی ہیں۔ پھر آپس میں کچھ سرگوشیاں کرتی ہیں۔ ان کی آوز ہے جیسے گلاب جل کے خمیر میں گندھی کسی گل بداماں کی مدھم سی ہچکی۔ ان کی یہ مدھر ہچکیاں سمندر کے کانوں سے ٹکرا نے لگیں، تو موجوں نے اُنھیں اپنے دوش پر سوار کرکے ساحل پر اُتار دیا، اور پھربادِ نسیم نے اُنھیں میرے کانوں تک پہنچا دیا۔
ایک نے کہا: ’’یہ کوئی انسانی لاش ہے، جو کل سمندر کے غضب کا شکار ہوکر یہاں آپڑی ہے۔‘‘
دوسری نے اُسے ٹوکا: ’’نہیں! کل سمندر غصے میں بالکل بھی نہیں تھا،بلکہ ماجرا یہ ہے کہ یہ انسان جو خدا کے بڑے چہیتے بنے پھرتے ہیں۔ کل ان کے بیچ خوں ریز لڑائی چھڑی ہوئی تھی، جس میں خون بہا، جانیں گئیں، حتی کہ دیکھو پانی کا رنگ تک سرخ ہوگیا ہے اور یہ نوجوان بے چارہ اسی جنگ میں ماراگیا ہے۔‘‘
تیسری نے بھی اس گفت گو میں حصہ لیتے ہوئے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم یہ جنگ کیوں ہوئی، کیسے ہوئی؟ لیکن ایک بات میں خوب سمجھتی ہوں کہ یہ انسان زمین پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد اب سمندر پر بھی اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اُس نے عجیب و غریب ہتھیار ایجاد کرلیے ہیں، جن کے لیے سمندر کی بھیانک خاموشی اور اس کا ہوش رُبا تلاطم سب ایک سے ہیں۔ ان ہتھیاروں کے آگے سب زیر ہیں۔ جب سے انسان کے ان برے ارادوں کی خبر سمندر کے دیوتا ’نِبتون‘ کو لگی ہے، وہ ان سے بہت خفا ہے۔ اس لیے ہمارے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے وہ انسانی بلی دے رہے ہیں اور اس کی چوکھٹ پر انسانی لاشوں کے چڑھاوے چڑھارہے ہیں۔ کل جو ہم لوگوں نے بکھری ہوئی لاشوں کے پھیلے ہوئے چیتھڑے دیکھے تھے، وہ انسان کی طرف سے ہمارے دیوتا کے لیے آخری چڑھاواتھا۔‘‘
چوتھی نے بھی آخرِکار اپنی مہرِ سکوت توڑی: ’’بڑا تعجب ہوتا ہے، نبتون کتنا عظیم ہے…… لیکن اپنے سینے میں وہ دل نہیں پتھر رکھتا ہے۔ اگر مَیں سمندر کی ملکہ ہوتی، تو اپنی سلطنت میں خون کی قربانیاں کبھی نہ برداشت کرتی۔ اچھا اب آؤ چلیں! ذرا اس نوجوان لاش کوقریب سے دیکھیں۔ ہوسکتا ہے یہ انسانوں کے بارے میں ہماری معلومات میں کچھ اضافہ ہی کرے۔‘‘
وہ پریاں لاش کے قریب گئیں اور اس کی جیبوں کی تلاشی لینے لگیں۔ اُس کی اندرونی جیب میں جو اُس کے دل کے قریب تھی، اُنھیں ایک خط رکھا ہوا ملا۔ اُن میں سے ایک نے جلدی سے لپک کر خط نکالا اور سب کے سامنے اسے پڑھنا شروع کردیا۔ خط کی بالائی سطر پر لکھا تھا: ’’میری روح کے مالک، میرے دل کے مکیں، میرا سب کچھ……! دیکھو ناں، رات آدھی گزر گئی ہے۔ پر ابھی تک میری آنکھوں میں دور دور تک نیند کا نام ونشان تک نہیں۔ اگر ان آنکھوں میں کچھ ہے، تو وہ میرے اشک ہیں، جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی چیز مجھے بہلا سکتی ہے، تو وہ صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے تمھارے اس جنگ کے خونی پنجوں سے بچ کر صحیح سلامت واپس لوٹ آنے کی امید۔ اپنے حافظے پر زور دیتی ہوں، تو لگتا ہے کچھ بھی اب یاد نہیں رہا۔ یاد ہے تو صرف جاتے وقت کہے ہوئے تمہارے یہ الفاظ: ’دیکھو یاراں! ہر انسان کے پاس اشکوں کی ایک امانت ہوتی ہے، جس کو اسے ایک نا ایک دن واپس لوٹانا ہی پڑتا ہے۔‘
میری جان! میرے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے ، سمجھ نہیں آتا اب کیا لکھوں! اس لیے اپنے آپ کو کاغذ پر بہنے کے لیے چھوڑ رہی ہوں! اب تو بس ایک روح بچی ہے، جس کو تمھاری جدائی کا غم اندر اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹے جارہا ہے۔ ایک محبت کا جذبہ ہے، جو اس روح کو تھپکیاں دے رہا ہے، ایک ایسا جذبہ جس کا نشہ کسی پر چڑھ جائے، تو اس کے غم کو لذت میں بدل دے، اس کی کتابِ زندگی سے سارے دکھ مٹا کر، اس کے پنوں پر قہقہوں کی لازوال داستان رقم کر دے۔ جب اس محبت نے ہم دو دلوں کو ایک کیا تھا، اُس وقت ہم اُس سے یہ توقع بھی کرنے لگے تھے کہ اب ہمارے دوجسم بھی ایک ہوجائیں گے جن میں صرف ایک روح دوڑے گی! لیکن براہو اِس جنگ کا کہ اِس نے ہمارے سارے حسیں خواب شکستہ کر دیے۔ تمھارا فرض اور تمھاراوطن تمھیں آواز دے رہا تھا، تمھیں اس پر لبیک کہنا ضروری تھا۔ اس لیے تم نے اپنے فرض اور اپنے وطن کو ہی اول مقام پر رکھا…… لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ کس طرح کا فرض ہے، جو دو محبت کرنے والوں کو جدا کردے، جو عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کردے۔یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر جنگ چھیڑ دے اور زمین کے چمن کو لاشوں سے بھر دے۔ یہ کون سا فرض ہے جو صرف بے چارے گاؤں کے ایک غریب لڑکے کو ہی نبھانا پڑتا ہے۔ ناز ونعم میں پلے طاقت ور اور اشرافیہ کے بچوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اگر فرض قوموں کے امن اور اُس کی سلامتی کو تباہ کر رہا ہے۔ حب الوطنی انسانی زندگی کا سکون غارت کررہی ہے، تو ایسے فرض اور ایسی حب الوطنی کو میں نہیں جانتی، مَیں نہیں ماتی!
نہیں نہیں میری جان! میری بات پر دھیان مت دینا…… بلکہ بہادر بن کر اپنے ملک کا سر فخر سے بلند کرنا اور اپنی حب الوطنی کی لاج رکھنا۔ ایسی پگلی کی باتوں پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں، جس کی آنکھوں کو محبت نے اندھا کردیا ہے اور ہجر کی کلفتوں نے اُس کی بصیرت کو فنا کردیا ہے ۔ محبت اس زندگی میں اگر تمھیں ہمارے پاس واپس نہ بھی لاپائی، پھر بھی مجھے یقین ہے کہ آنے والی جاودانی زندگی میں وہ مجھے تم سے ضرور ملادے گی!
جل پریوں نے آہستہ سے اس خط کو اسی جگہ اس کے دل کے قریب واپس رکھ دیا، جہاں سے اُنھوں نے اُسے اُٹھایا تھا اور ایک غمگین سکوت خود پر طاری کیے دور تک تیر گئیں، جب وہ اس نوجوان لاش سے تھوڑا دور چلی گئیں، تو ان میں سے ایک نے پیچھے مڑکر آخری بار اسے دیکھا ، پھر لہجے میں تاسف بھر کر کہنے لگی: ’’انسان کا دل نبتون کے دل سے بھی زیادہ بے رحم ہے!‘‘
(خلیل جبران کے عربی افسانے ’’بنات البحر‘‘ کا اُردو ترجمہ)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے