چترال کا پہلا تاریخ دان

بابا سیئر کے بارے میں چترال کے باہر کے لوگوں کو آگہی دینے کے لیے مستنصر حسین تارڑ نے خامہ فرسائی کی ہے۔ لکھتے ہیں:’’تم چترال کے سب سے عظیم صوفی شاعر کے مزار سے اگر لا تعلق ہو کر گزر گئے، تو تم نے گناہ کیا۔ چند لمحوں کے لیے رُک کر اس درویش شاعر کی عظمت کو سلام کیوں نہ کیا؟ تم نے گناہ کیا۔ بابا سیار چترال کے لیے وہی کچھ ہیں جو دہلی کے لیے نظام الدین اولیا ہیں، اجمیر کے لیے معین الدین چشتی ہیں، سندھ کے لیے بھٹائی ہیں اور لاہور کے لیے داتا صاحب ہیں۔‘‘ (1)
احمد علی شاہ مشال کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ahmad/
بنی نوع انسان کاحیاتیاتی ارتقا کا عمل سائنس دانوں کے مطابق آج سے تقریباً دو لاکھ سال پرانی ہے۔ جب ہموسیپین یا انسانوں نے اپنی بقا کی خاطرایک جگہ سے دوسری جگہ نقلِ مکانی شروع کی، تووہ انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ کہلاتا ہے۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان دنیا میں پھیلتے گئے۔ جدید علمِ جنیات کی رو سے بلاتفاق برصغیر کی سر زمیں پر 73 ہزار سال پہلے انسانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے، مگر باقاعد ہ انسانی زندگی کا آغاز سات ہزار قبلِ مسیح میں مہر گڑھ میں ہوئی۔ جب ہم انسانوں کی معلوم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں، تو سات ہزار سال سے پہلے کی تاریخ ہمیں دھندلی نظر آتی ہے جس کی وجہ اسے پہلے کی تاریخ کے حوالے سے مستند معلومات کا فقدان ہے۔ شاید آنے والے وقتوں میں تاریخ دان، ماہرینِ آثاریات، ماہر الانساب، ماہرِ جنیات اور ماہرینِ بشریات مل کر اس دھندلی ہوئی تصویر سے بھی ہمیں روشناس کراسکیں۔ بہر حال تاریخ ایک ایسا مضمون ہے جس میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات اور تہذیبوں کے بارے میں معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں اور مورخ کے فرائض کے بارے میں ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ مورخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض نقال نہ ہو بلکہ تاریخ سے متعلق تمام علوم کو جانتا ہو، اُسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ حکم رانی و سیاست کے قواعد کیا ہیں، موجودات کی طبیعت کس ڈھب کی ہے، مختلف قوموں کا مزاج کیا ہے، زمان و مکاں کی بوقلمونی سے احوال و عوائدکے گوشے کیوں کر متاثر ہوتے ہیں؟ مختلف مذاہب میں فرق کیا ہے اور حدودِ اختلافات کیا ہیں اور کہاں سے ان کے ڈانڈے ملتے ہیں؟ اس طرح یہ بھی جاننا کہ حال کیا ہے اور اس میں اور ماضی میں کیا چیزیں ملتی جلتی ہیں اور کن نِکات پر اختلاف ہے، تاکہ جو موجود ہیں اُن کی منا سبتوں اور مشابہتوں سے ماضی کے دھندلکوں کی تشریح کی جائے۔ جو لوگ ان نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے، وہ اس حقیقت کونہیں جانتے ہیں کہ تاریخ کا ہرواقعہ ایک منفرواقعہ نہیں ہوتا، بلکہ اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے اور کئی سمتوں سے اس کی حقانیت پر روشنی پڑ سکتی ہے، وہ ہولناک غلطیو ں میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں اور ایسے دیومالائی قصے تاریخ کے باب میں پیش کرتے ہیں، جو قطعی مہمل اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ (2)
چترال اور اس کے قریبی علاقے جیسے گلگت، بلتستان، کوہستان اور نورستان وغیرہ اپنی دشوار جغرافیائی حالات کی وجہ سے ارد گرد کی تاریخ سے عموماً الگ تھلگ رہے۔ قدیم تاریخی ماخذ میں ان علاقوں کے تذکرے بہت شاذ و نادر اور سرسری ہیں۔ خود چترال کے اندر لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ اس لیے مقامی طور پر تاریخ نویسی کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ زبانی روایات کو سینہ بہ سینہ بقل کرنے کی روایت کافی مقبول رہی ہے، لیکن حکم ران خاندانوں کے اقتدار میں استحکام نہ رہنے اور ان کے ساتھ صاحبِ حیثیت خاندانوں کی قسمتوں میں اُتار چڑھاو کی وجہ سے زبانی تاریخ دانی اور شجرہ خوانی کا سلسلہ ٹوٹنا رہا ہے۔ زبانی روایات سے تاریخ اخذ کرنے کے سلسلے میں دو قسم کے مسائل ہمیشہ درپیش رہے ہیں: اول یہ کہ زبانی روایت میں تاریخی ترتیب اور زمانے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ دوم یہ کہ راوی عموماً اپنے خاندان یا اپنے سرپرستِ حکم ران خاندان کے بارے میں روایت کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ مبالغے سے نہیں بچ سکتا۔ مبالغے کی کثرت کی وجہ سے اکثر تاریخی روایت اور اساطیر (Myth) کو خلط ملط کیا جاتا ہے، اور حقیقی تاریخی واقعات کو اساطیر سے الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ (3)
نام محمد سیر عرف مہ سیر، مرزا خطاب اور سیر تخلص ہے۔ زبانِ عام و خاص بابا سیر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چترال کے معروف قبیلے محمد بیگے کے دوست محمد لال کے ہاں سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات کے مطابق غالباً 1766ء میں پیدا ہوئے اور 1837ء وفات بتاتے ہیں (وکی پیڈیا کے مطابق پیدایش: 1633ء، انتقال: 1708ء) ابتدائی تعلیم اپنے والدِ بزرگوار سے حاصل کی۔ پھر بروز کے قریب شیڑی نامی گاؤں میں ایک عالم سے ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ وہاں سے بلاھند کا رُخ کیا۔ سمرقند بھی گئے، جہاں فارسی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد بغداد چلے گئے جہاں عربی علوم حاصل کیے۔ (4)
بابا سیئر چترال کے علاقے شوگرام کے رہنے والے تھے۔ وہ ایک ایسی لڑکی سے محبت کرتے تھے جو دریائے چترال کے اُس پار ریشن کی رہایشی تھی۔ ایک دفعہ بابا سیئر پل پار کرکے ریشن کی طرف جا رہے تھے کہ اُنھیں رسوں سے بنے طویل پل کی دوسری طرف سے وہ لڑکی اس طرف آتی دکھائی دی۔ اب بابا سیئر ایک زبردست الجھن میں گرفتار ہوگئے۔ اگر وہ آگے بڑھتے ہیں، تو تنگ پل کی وجہ سے اپنی محبوبہ کو چھو کر گزرنا پڑے گا، اگر واپس پلٹتے ہیں، تو اُس کی طرف پشت کرنا پڑے گی جو اس کی توہین ہے۔یہ الجھن ایسی تھی کہ بابا سیئر کے پاس اس کا کوئی حل موجود نہیں تھا۔ آخر اُنھوں نے جو فیصلہ کیا وہ آج بھی چترال کی لوک روایات کا حصہ بن گیا ہے۔ اُنھوں نے دور نیچے بپھرے ہوئے دریائے چترال میں چھلانگ لگا دی، تاکہ دونوں مشکلوں سے بچ جائیں۔ ’’ڈاق اژی غم نو ژانیم دوستو غَشو غم جاومان یارئے، مہ کریم تت بیکو ساری دریاہو دی جم جاومان یارئے۔‘‘ (مفہوم) مجھے پیدایش کے بعد غم کا تو نہیں پتا، اگر کوئی میرے محبوب سے گستاخی کرے، مَیں اُس کو غم سمجھتا ہوں۔ میری پشت آپ کی طرف ہو، اس سے دریا میں چھلانگ لگانا بہتر سمجھتا ہوں۔
خوش قسمتی سے بابا صاحب کو تیرنا آتا تھا۔ اس لیے دوسری طرف نکل گئے، لیکن سردیوں کے موسم میں یقینا یہ جست ہمت کی بات ہے۔ (5)
محمد سیر چترال کے پہلے تاریخ دان گردانے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے ابو قاسم فردوسی کی مشہورِ زمانہ کتاب شاہ نامہ فردوسی کی طرز پہ شاہ نامہ سیر لکھا جو چترال کی تاریخ پہ لکھی گئی پہلی کتاب کہلاتی ہے۔ جس کا زیادہ حصہ ان کے ہم عصر حکم ران محترم شاہ دوم کی جنگوں کے گردگھومتا ہے اور محترم شاہ دوم کے بیٹے فرخ سیر کے اپنے باپ کے ساتھ بغاوت پہ آکے ختم ہوتا ہے۔ شاہ نامہ سیر سے اُس وقت کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور مرزا سیر نے اس شاہ نامے میں اُس وقت کا مختلف مشاہیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ شاہ نامہ سیر کو بنیاد بناکر بعد میں آنے والے تاریخ دانوں نے اس پر تحقیق کرکے مختلف کتب لکھے ہیں۔ شاہ نامہ سیر کا اصل مسودہ ناپید ہے، لیکن مختلف ادوار میں لکھاریوں نے ان کا نقل کیا ہے جو آج بھی موجود ہیں، جنھیں آج کل اکثر لکھاری مرزا سیر کے شاہ نامے کا اصل قلمی نسخہ سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے ۔
مرزا سیر کے شاہ نامہ کے بارے میں چترال کے ایک دوسرے تاریخ دان اور فارسی کے عالم مرزا غفران لکھتے ہیں جو داری فارسی شاہ نامہ سیر کے نقل کنندہ مسودوں میں ملتی ہے وہ مرزا سیر کے علم کے معیارکے مطابق نہیں، جو اس نے اپنا دیوان مرتب کیا ہے، اس کا معیار کافی بلند ہے۔ مرزا غفران کے مطابق، مرزا سیر کے شاہ نامہ سیر کو نقل کرنے والوں نے "Substandard” داری فارسی کے اضافیات کے ساتھ نقل کیے ہیں جو کہ مرزا سیر کی علمی استعداد کے مطابق نہیں۔ مرزا سیر فارسی زبان کے بہت بڑے عالم اور شاعر تھے۔ اتنے بڑے عالم کا شاہ نامہ سیر میں داری فارسی کا استعما ل ناقابلِ فہم ہے۔ کیوں کہ مرزا غفران ان کے فارسی شاعری اور علم کے حوالے سے لکھتے ہیں، مرزا سیر بلبل ہیں شاخسار سخنوری کے اور گل زارِ فصاحت گستری کے اور ان کے کلام سہ نثر ظہوری کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ (6)
مستانہ ام سیر چو کشادم لب از عدم
ما در بجا ئے شیر بکا مم شراب ریخت
(ترجمہ) سیر نے جب آنکھ کھولی اور ہونٹ ہلایا، تو مست ہوا میر ی ماں نے گھٹی میں دودھ کی جگہ تیرے عشق کا شراب مجھے پلایا تھا۔
شاعر روزِ ازل کے سوال، کیا میں تمھا را رب نہیں ہوں؟ اور سوال کا جواب، ہاں تم ہی ہمارا رب ہو، یعنی وعدہ الست کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عشقِ حقیقی میری روح کے اقرار میں شا مل ہے۔(7)
چترالی زبان کھوار اور فارسی کے عظیم صوفی شاعر۔ مرزا محمد سیئر پاکستان کے ضلع چترال سے تعلق رکھتے تھے۔ چترال کے گاؤں ریشن میں آپ کا مزار واقع ہے۔ کھوار اکیڈمی نے بابا سیئر کو کھوار شاعری کے حافظ شیرازی سے تشبیہ دی ہے۔ اور ایک قرارداد کے ذریعے اکادمی ادبیات پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ چترال کے صوفی شاعر بابا سیئر کے نام کا ایوارڈ جاری کیا جائے۔(8)
حوالہ جات:
1:۔ اردو انڈیپنڈنٹ ڈاٹ کام، بابا سیئر: چترال کے ’’شاہ عبداللطیف بھٹائی‘‘، سید اولاد الدین شاہ، 5 جنوری 2022ء۔
2:۔ چترال ٹوڈے ڈاٹ نیٹ، چترال کی تاریخی دستاویزات اور کتب پر ایک نظر، ارشد عرفان ، 25 ستمبر 2022ء۔
3:۔ محرکہ ڈاٹ کام، تاریخِ چترال کا ابتدائی دور-کچھ مسائل۔ ممتاز حسین، 1 جنوری 2016ء۔
4:۔ ایکسپلور چترال، فیس بوک پیج، 8 جولائی 2016ء۔
5:۔ اُردو انڈیپنڈنٹ ڈاٹ کام، بابا سیئر: چترال کے ’’شاہ عبداللطیف بھٹائی‘‘، سید اولاد الدین شاہ، 5 جنوری 2022ء۔
6:۔ چترال ٹوڈے ڈاٹ نیٹ، چترال کی تاریخی دستاویزات اور کتب پر ایک نظر، ارشد عرفان ، 25 ستمبر 2022ء۔
7:۔ بامِ جہان ڈاٹ کام، محمد سیر کا صو فیانہ کلام، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، 28 نومبر 2022ء۔
8:۔ وکی پیڈیا۔
تمت بالخیر!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے