20ویں صدی کا عظیم لکھاری ’’ارنسٹ ہیمنگوے‘‘

تحقیق و تحریر: ارسلان قادر
اُسے ساری رات نیند نہیں آئی۔ وہ ای سی ٹی (ECT) کے شاکس سہتے سہتے تھک چکا تھا۔ اُسے بہت سے شکوک و شبہات تھے کہ ان الیکٹرو شاکس سے اس کی یادداشت ختم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایف بی آئی والے مسلسل اس کی نگرانی کرتے رہتے تھے اور کسی کو لگتا تھا کہ مارکسی نظریات کے حامل لوگوں کے ساتھ اس کے روابط ہیں۔ 1961ء کے موسمِ بہار کی شروعات میں اُس نے خود کُشی کی کوشش کی، لیکن بچ گیا۔ اُس کے والد نے بھی خود کُشی کی تھی۔
ارنسٹ ہیمنگوئے نے 2 جولائی 1961ء کی صبح شاٹ گن سے خود کو ختم کر دیا۔ 20ویں صدی کے عظیم لکھاری جس نے شاہ کار ناول اور افسانے تخلیق کیے، جن میں ہمیں عزم و ہمت اور جینے کی مسلسل کوشش نظر آتی ہے، اُسی عظیم لکھاری نے خود کُشی کرلی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اُس کا اوک پارک میں دل نہیں لگتا تھا۔ وہ کیوبا کو یاد کرتا تھا۔ اُسے ہوانا میں موجود وہ کیفے اور کشتی شدید یاد آتی تھی۔ اپنی 62 سالہ زندگی میں وہ اَدب کا نوبل پرائز اور کئی بڑے بڑے انعام جیت چکا تھا۔ اُس نے کئی جنگوں میں حصہ لیا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ پہلی عالمی جنگ کا پہلا زخمی تھا۔ اُسے گولیاں لگیں، اُس کی بینائی متاثر ہوئی اور اُس نے جنگی زخمیوں کی ایمبولینس میں بطورِ ڈرائیور بھی خدمات انجام دیں۔
اُس کے شہرہ آفاق افسانے "Big two hearted rivers” اور "The Killers” آج بھی افسانوی فن میں اعلا سطح کے حامل ہیں۔ اُس کے ناول "Old Man and the Sea” زندگی کی جہد مسلسل کو عیاں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ "The sun Also rises” اور "Farewell to arms” کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اُس کی زندگی پر بننے والی فلم "Hemingway and Gellhorn” دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اِس کے علاوہ اُس کے عظیم ناول بوڑھا اور سمندر کو بھی فلمایا جا چکا ہے۔
’’انسان شکست کے لیے پیدا نہیں ہوا‘‘ کہنے والے ادیب نے اپنے لیے خود کُشی کی راہ کا انتخاب کیا۔
میرے پاس اُس کے ناولوں میں سے چند باتیں محفوظ ہیں۔ آئیں، آپ بھی پڑھیں اور اس عظیم لکھاری کو یاد رکھیں:
1:۔ ’’آپ کے پاس کھانے کے لیے کیا ہے؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔ ’’زرد چاول اور مچھلی کا پیالہ…… کچھ کھاؤ گے؟‘‘ بوڑھے نے پوچھا۔ ’’نہیں، مَیں گھر پر کھاؤں گا۔ آگ جلا دوں؟‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’نہیں! مَیں بعد میں جلالوں گا، یا پھر چاول ٹھنڈے ہی کھالوں گا۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’مَیں چھوٹا جال لے جاؤں ؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔ ’’بالکل……!‘‘ بوڑھے نے کہا۔
وہاں کوئی جال نہیں تھا اور لڑکے کو یاد تھا کہ یہ انھوں نے کب بیچا تھا، لیکن وہ اِس قصے کو ہر روز دہراتے رہتے تھے ۔وہاں چاول اور مچھلی کا کوئی پیالہ موجود ہی نہیں تھا اور لڑکے کو اس کا علم بھی تھا۔
2:۔ ’’اُسے احساس ہوا کہ محض اپنے آپ سے اور سمندر سے باتیں کرنے کی نسبت کسی دوسرے کی موجودگی میں باتیں کرنے میں کتنا لطف آتا ہے۔‘‘
3:۔ کسی کے بہت زیادہ پیار میں خود کو کھو دینا اور اس بات کو بُھلا دینا کہ آپ خود بھی اہم ہیں۔ سب سے تکلیف دہ امر ہے۔
4:۔ کون کیسے جیا اور کس جرات سے جیا، اصل میں یہی اِسے دُوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ورنہ اَنت تو سب کا موت ہی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے