وفاقی حکومت چھن جانے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے پاس پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی چار حکومتیں موجود تھیں۔ یہ کہنا چاہیے کہ 60 فی صد سے زائد علاقے اور لوگوں پر پی ٹی آئی حکم ران تھی۔ تب پی ٹی آئی کے وزرا طنزاً کہا کرتے تھے کہ پی ڈی ایم کی حکومت صرف 16 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاق کے اندر پی ڈی ایم کی حکومت تھی اور اس 16 کلومیٹر کے رقبے کو چاروں طرف سے پی ٹی آئی کی حکومتوں نے گھیر رکھا تھا۔ وفاق کا علاقہ ریاستوں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور پنجاب میں گھرا ہوا ہے۔ دیکھا جائے، تو عمران خان وفاقی حکومت ہار کر بھی بہت کچھ کے مالک تھے۔ وہ اگر تدبر، حوصلے اور سیاسی بصیرت سے کام لیتے، تو چند ہفتوں میں ہی اِن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لینے میں کام یاب ہوسکتے تھے۔ کیوں کہ اُن کے پاس چار حکومتیں تھیں۔ وفاق کی نسبت وہ بہتر سودے بازی کی پوزیشن میں تھے۔
سیاست، امکانات کا کھیل ہے۔ اس میں آپ اپنے شدید ترین مخالفین پر بھی دروازے بند نہیں رکھ سکتے۔ کوئی دروازہ یا کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھنا پڑتی ہے۔ سیاست میں موافقت اور اختلافات ہمیشہ ناپائیدار ہوتے ہیں۔ آج کے مخالف کل کے دوست اور آج کے حمایتی کل کے مخالف ثابت ہوتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہی کی مثال لے لیں۔ دونوں متحارب پارٹیاں تھیں، لیکن جب مشکل وقت آیا، تو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک میز پر بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے۔ خود عمران خان نے اپنے اقتدار کی خاطر چوہدری پرویز الٰہی سے ہاتھ ملایا تھا۔ حالاں کہ ماضی میں وہ انھیں متعدد بار اپنے انتخابی جلسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں ’’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ کَہ چکے تھے۔ وہ شیخ رشید کو ’’چپراسی‘‘ نہ رکھنے کا دعوا کرتے تھے، مگر وہی شیخ رشید اُن کی کابینہ میں پہلے وزیرِ ریلوے اور پھر وزیرِ داخلہ بن گیا تھا۔ اُن سے اتحاد کی بنیاد ذاتی اقتدار بنا تھا۔
سیاست صبر طلب کام ہے۔ جلد بازی سیاست میں ناکامی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ کام یاب سیاست دان وہی ہوتا ہے، جو مشکل حالات میں امید کا دامن نہیں چھوڑتا۔ وہ صبر و ضبط سے حالات میں بہتری کا انتظار کرتا ہے۔ میاں نواز شریف کی سیاست کو دیکھ لیں۔ تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے، مگر ایک بار بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے۔ پرویز مشرف کے دور میں جَلا وطن ہوئے۔ عمران خان کے دور میں ایک مرتبہ پھر ملک چھوڑنا پڑا۔ اُن پر سیکڑوں مقدمات بنے۔ اُن کی سیاست ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ وہ جیلوں میں پہنچے، مگر ہر مشکل کا مقابلہ تدبر اور حوصلے سے کیا۔ آج ملکی سیاست ایک مرتبہ پھر اُن کے گرد گھوم رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کتنی کوششیں ہوئیں…… اسے بار بار گرایا گیا، لیکن لیڈرشپ کا تدبر اسے نئی زندگی دلاتا رہا۔ پیپلز پارٹی آج بھی موجود ہے۔ نہ صرف موجود ہے بلکہ اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہی ہے۔
عمران خان کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ صبر سے عاری ہیں۔ اقتدار سے نکلتے ہی اُن کی حالت بِن پانی کے مچھلی جیسی ہو گئی۔ وہ صبر بھی کھو بیٹھے اور حوصلہ بھی۔ اقتدار اور سرکاری پروٹوکول گویا اُن کے لیے آکسیجن بن گیا تھا۔ اُنھیں اقتدار سے محرومی قبول نہ تھی۔ حالاں کہ چار حکومتیں اُن کے پاس تھیں۔ یہ بہت بڑا سٹیک تھا، لیکن اُنھیں پارٹی کا نہیں، ذاتی اقتدار مطلوب تھا۔ بدقسمتی سے وہ اپنے مخلص ساتھیوں کو خود ہی اقتدار کے دنوں میں اپنے آپ سے دور کرچکے تھے۔ اُن کے ساتھ جہانگیر ترین جیسا منجھا ہوا اور زیرک ساتھی رہا تھا، نہ عون چوہدری اور علیم خان جیسا وفادار دوست۔ ان کے مشیر وہ تھے جو وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے تھے۔ عمران خان خوشامدیوں میں گھر چکے تھے اور اُن کے اُلٹے سیدھے مشوروں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرتے جا رہے تھے۔ وہ سیاسی داؤ پیچ میں اپنے حریفوں سے بہت پیچھے تھے۔ فواد چوہدری، اسد عمر، مراد سعید اور شہباز گِل جیسے لوگ ان کے مشیر و مربی تھے۔ کوئی ناتجربہ کار تھا، تو کوئی مخصوص ایجنڈے کے تحت اُن کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ چناں چہ پہلا غیرمنطقی اور بچکانہ فیصلہ اُن سے یہ سرزد ہوگیا کہ انھوں نے قومی اسمبلی سے اپنے تمام ارکان کے استعفے دلوا دیے۔ قومی اسمبلی میں نمبروں کا فرق بہت کم تھا۔ عمران خان سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرکے جہانگیر ترین جیسے دوستوں کو منالیتے، تو اقتدار میں واپسی کی راہ نکل سکتی تھی، مگر اُن کے مشیروں نے اُنھیں عقلِ کل کی سند دے رکھی تھی۔ یہ ایسا غیردانش مندانہ فیصلہ تھا جو اُن کے سیاسی زوال کا نقطۂ آغاز بنا۔
عمران خان کو اقتدار سے دوری برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں مہنگائی کی وجہ سے عوام میں انتہائی غیرمقبول ہونے کے بعد وہ ایک کاغذ لہرا کر امریکہ مخالف بیانیے کی مدد سے پھر مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچے تھے۔ اُنھیں یقین تھا کہ جلد انتخابات کی صورت میں وہ بھاری اکثریت حاصل کرلیں گے۔ یہ حقیقت بھی تھی۔ وہ مقبولیت کے ساتویں آسمان پر پہنچ چکے تھے۔ وہ بہ ہر صورت قبل از وقت انتخابات چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے لگاتار 60 جلسے کر ڈالے۔ ملک میں بدترین سیلاب آ یا، مگر اُنھیں اس کی پروا نہ تھی۔ اُن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ فوری الیکشن کروائے جائیں۔ وفاقی حکومت پر وہ مسلسل دباو بڑھا رہے تھے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کے ذریعے اُنھوں نے آئی ایم ایف کو شہباز شریف حکومت کو قرضہ نہ دینے کے لیے خطوط تک لکھوا دیے۔ اسلام آباد پر چڑھائی بھی کی اور دوسری مرتبہ پھر اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کے لیے سفر شروع کر دیا، مگر سانحۂ وزیرآباد نے اُن کا ارادہ پورا نہ ہونے دیا۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کرکے اُنھوں نے ایک اور غیر دانش مندی کر دی۔ پرویز الٰہی نے اُنھیں اس فیصلے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔ اُنھیں یہ تک کہا کہ پنجاب کی جو پولیس آپ کی حفاظت پر مامور ہے، اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں اُسی نے آپ کو گرفتار کرلینا ہے، مگر عمران خان نہ مانے اور نتیجے کے طور پر اُن کے سیاسی زوال کا سفر تیز ہوگیا۔
سیاست دان جیلوں میں جاتے رہتے ہیں، مگر خان کے مشیروں نے اُنھیں ’’ریڈ لائن‘‘ بنا کر ناقابلِ رسائی ماورائی شخصیت بنا دیا۔ نتیجے کے طور پر زمان پارک میں نہتے پولیس والوں کو مارا پیٹا گیا اور اُن پر پٹرول بم تک برسائے گئے۔ نتیجہ کیا نکلا…… پی ٹی آئی کی پہچان سیاسی جماعت سے نکل کر ’’دہشت گرد جماعت‘‘ کی جانب عازمِ سفر ہوئی۔ اگر عمران خان گرفتار ہوجاتے، تو کون سی قیامت آجانی تھی۔ عدالتیں ’’مہربان‘‘ تھیں۔ فوری ضمانت ہوجاتی، مگر عمران خان وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والوں کے ٹریپ میں آتے چلے گئے۔ دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑ کر بھی عمران خان مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے، البتہ اپنا بڑا سیاسی سٹیک ضرور گنوا بیٹھے۔ اُن کا سیاسی وزن کم ہوا، تو آزاد کشمیر کی حکومت ’’سوکھا پتا‘‘ ثابت ہوئی۔ پے در پے ناکامیوں اور جلد الیکشن کی خواہش نے 9 مئی جیسے ’’قومی سانحہ‘‘ کو جنم دیا۔ عمران خان بخت کے تخت سے مکمل طور پر گرگئے۔ وہ یک دم ’’ہیرو‘‘ سے ’’زیرو‘‘ ہوگئے۔ ساتھیوں نے نظریں پھیرنے میں دیر نہیں لگائی۔ کام یابی کے ہزاروں سرپرست ہوتے ہیں، ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ جب جہاز میں موجود سواریوں کو جہاز کی غرقابی کا یقین ہوگیا، تو اُنھوں نے چھلانگیں لگادیں۔ وہ عمران خان جن سے ملاقات کی خاطر لوگ کروڑوں روپے خرچ کر دیتے تھے، وہ آج تنہا رہ گئے ہیں۔ کیسی بلندی، کیسی پستی۔
اب تازہ وار اُن پر یہ ہوا ہے کہ گلگت بلتستان کی اپنی آخری حکومت سے بھی وہ محروم ہوگئے ہیں۔ وزیرِ اعلا گلگت بلتستان خالد خورشید کی لندن سے حاصل کی گئی قانون کی ڈگری جعلی نکلی اور وہ نااہل ہو گئے۔ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک بننے کی خبریں گرم ہیں۔ کراچی میئر کے انتخاب جیسا رزلٹ آنے کو تیار ہے۔ عمران خان اور اُن کی پارٹی کو اُن کے غیر سیاسی، غیرروایتی اور غیردانش مندانہ فیصلوں نے اس حال تک پہنچایا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ عمران خان جلد ہی جیل یاترا پر جانے والے ہیں۔ یعنی اب وہ کسی کی ’’ریڈلائن‘‘ نہیں رہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔