پیدایش:۔ 08 اکتوبر 1969ء
انتقال:۔ 06 جنوری2021ء
تصدیق اقبال المعروف بابو (مرحوم) میری زندگی میں کسی طوفان کی طرح آیا اور بگولے کی طرح واپس بھی چلا گیا۔ ہماری دوستی کا ہنگامہ خیز سال 2020ء تھا۔ تصدیق اقبال کو مجھ سے متعارف کروانے میں فراست علی (نارووال) کا بڑا کردار تھا۔ تصدیق اقبال کو مجھ میں دلچسپی میری کتاب ’’فیس بک‘‘ سے پیدا ہوئی، جو 2015ء کی’’بیسٹ سیلر‘‘ رہی تھی۔ اُس نے میری کتاب ’’بک کارنر‘‘ جہلم سے منگوائی۔ اُسے ذوق و شوق سے پڑھا اور کالم بھی لکھا۔ سرکاری ملازم کی لکھنے کے معاملے میں جو مجبوریاں ہوتی ہیں، وہ تصدیق اقبال کے ساتھ بھی تھیں لیکن پھر بھی بچتے بچاتے وہ بہت کچھ لکھ جاتا تھا۔ اُس نے میری شاگردی بھی اختیار کرلی تھی، جو ایک طرح سے سوات کے جملہ رائٹرز پر اُس کا عدم اعتماد تھا۔ وہ سوات کے کئی لکھاریوں اور شعرا کے پروف ’’فی سبیل اللہ‘‘ پڑھ پڑھ کر اس نتیجے تک پہنچا تھا کہ یہ سب پڑھائی، لکھائی اپنے عہدوں میں ترقی اور مالی مفادات کے لیے کر رہے ہیں۔ اَدب سے کچھ کا تو دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
تصدیق اقبال پرائمری سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا اور اپنے پیشے سے بڑا لگاو رکھتا تھا۔ وہ مزاجاً ترقی پسند تھا مگر میری طرح خود پر ’’ٹیگ‘‘ لگوانا پسند نہیں کرتا تھا۔ اُس کی پہلی اور آخری محبت اُردو اَدب ہی تھا۔ اُس کو اپنا شاگرد تسلیم کرتے ہوئے اور اُن کے اَدبی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے، مَیں نے اُسے لاہور سے اچھی اور نایاب کتابوں کے کئی کارٹن ٹرک کے ذریعے سوات بھجوائے۔ اُس نے یہ کتابیں خود بھی پڑھیں اور اپنے دوستوں کو بھی پڑھوائیں۔ وہ ہارون رشید ہارون کا شعری مجموعہ ’’درِ یار پہ دستک‘‘ پرنٹ کروانے میرے گھر لاہور بھی آیا۔ احسان یوسف زئی بھی اُس کے ہم راہ تھا۔ یہ جون کا مہینا تھا۔ جولائی میں کتاب پرنٹ ہو کر آئی، تو مَیں کتاب لے کر سوات پہنچا۔ تصدیق اقبال نے مجھے اپنے گھر ٹھہرایا۔ میری خوب مہمان نوازی کی۔ اپنے بہنوئی سے ہنڈا (Honda 125) لیا، جس پر وہ اور مَیں سوات اور سوات کے مضافات میں خوب گھومے پھرے۔ اُسے بائیک چلانی نہیں آتی تھی۔ سوات میں بائیک چلانے اور گھومنے پھرنے کا مجھے بڑا مزا آیا۔ ایک رات ہارون رشید ہارون صاحب کے گھر بھی قیام کیا۔ انھوں نے عمدہ قیام و طعام کے بعد اخروٹوں کا تحفہ پیش کیا، جو اُن کے اپنے گھر کے تھے۔ ہم کالام بھی گئے، جہاں امیر مقام کے گھر دعوت تھی۔ دریا کنارے یہ بنگلہ بڑا ہی خوبصورت تھا، جسے اُس روز ہونے والی جولائی کی ہلکی ہلکی بارش اور بھی خوب صورت بنا رہی تھی۔
تصدیق اقبال کے پرستار پروفیسر شیرافگن صاحب سے بھی اُن کے گھر سیدو شریف میں ملاقات ہوئی۔ وہ بھی بڑے تپاک سے ملے اور مجھے اُس کمرے میں ٹھہرایا جہاں وزیرِ اعظم عمران خان بھی قیام کرچکے تھے۔
تصدیق اقبال سے میری روزانہ صبح ایک آدھ گھنٹے کی بات ہوتی اور رات کو اُس سے بھی زیادہ۔ تصدیق اقبال کو نیند آنے لگتی، مگر ہماری اَدبی باتیں ختم ہونے میں نہ آتیں۔
دسمبر میں سکول کی چھٹیوں میں تصدیق اقبال پنجاب کا رُخ کرتا۔ ہمیشہ کی طرح اُس بار بھی اُس نے ایسا ہی کیا۔ مَیں نے اُسے جانے کس کیفیت میں کہا کہ یہ سال (2020ء) کورونا کے باعث بڑا منحوس جا رہا ہے، وہ اس سال کو ٹال دے، مگر وہ نہ ٹلا :
حادثے کون ٹال سکتا ہے
یہ ستم گر ٹلا نہیں کرتے
تصدیق اقبال رات ساڑھے سات بجے لاہور پہنچ گیا۔ اُن کے ہم راہ پروفیسر سبحانی جوہر اور رُوح الامین نایاب (جنہیں وہ ’’اُستادِ محترم‘‘ بھی کہتا تھا) بھی تھے۔ مَیں تو اُسی وقت اُن سے ملنا چاہتا تھا، مگر تصدیق اقبال نے کہا کہ وہ اور اُس کے ہم راہی تھکے ہوئے ہیں، اس لیے میں صبح 9 بجے کے بعد اُن سے ملنے آؤں۔ اگلا دن جمعرات 31 دسمبر تھا یعنی سال کا آخری دن۔ لالہ حنیف رند ؔصاحب کے یہ سب مہمان تھے۔ وہاں بدقسمتی سے سلنڈر دھماکا ہوگیا۔ جناح ہسپتال کے ’’برن وارڈ‘‘ میں تصدیق اقبال نے 6 جنوری کی صبح 3 بجے دم توڑ دیا۔
تصدیق سے 2دن بعد 8 جنوری کی صبح پروفیسر سبحانی جوہر بھی چل بسے۔ 2021ء کا آغاز اس حادثے سے ہوا تھا اور پھر یہ سال اور بھی غم لے کر آیا جن کی روداد آپ گاہے بہ گاہے ان صفحات میں پڑھتے رہیں گے۔
قارئین! ہر جینوئن رائٹر حساس ہوتا ہے۔ مجھ پر اس حادثے کا صدمہ آج بھی ہے۔ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے، مگر زخم اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ یہ نشان میری روح، میرے دل پر ہمیشہ رہے گا:
دل کے قصے کہاں نہیں ہوتے
ہاں، وہ سب سے بیاں نہیں ہوتے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔