سوات کا حالیہ سیاسی منظرنامہ

پاکستان کی سیاست میں جس طرح سے ڈرامائی تبدیلی آئی ہے، ٹھیک اُسی طرح سوات کی سیاست میں بھی کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اور باقی آنے والی ہیں۔
9 مئی کے واقعے سے دو ماہ قبل تحریکِ انصاف کے سابق ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی خان نے تحریکِ انصاف چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے حلقے کے مشران کا جرگہ بلایا تھا جس میں مشران نے ڈاکٹر حیدر علی خان کو کسی بھی سیاسی جماعت میں شرکت کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر حیدر علی خان نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کیا۔ وہ پہلی بار اے این پی سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ایم پی اے منتخب ہوئے۔ پچھلے انتخابات میں وہ ایم این اے اور ایم پی اے دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔
فیاض ظفر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz-zafar/
عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی کابینہ کے رکن، دو بار منتخب ایم پی اے اور سابق صوبائی وزیر واجد علی خان پارٹی کی ضلعی کابینہ سے سخت ناراض ہیں۔ انھوں نے احتجاجاً قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے جمع درخواست بھی واپس لے لی ہے۔ امکان ہے کہ وہ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں، تاہم اب تک انھوں نے اِس بات کی تصدیق نہیں کی۔
9 مئی کے واقعات کے بعد سے سوات کے اکثر سابق اراکینِ اسمبلی اور بلدیاتی نمایندے غائب ہیں۔ تحریکِ انصاف کے شرپسندوں کے خلاف چار ایف آئی آریں درج ہیں، لیکن حکومت شر انگیز اور ملک مخالف تقاریر پر تین رہنما ؤں کے خلاف گھیراا تنگ کر رہی ہے۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ تینوں رہنما ؤں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ ان میں سب سے زیادہ مطلوب سابق وفاقی وزیر مراد سعید ہیں، جنھوں نے 9 مئی کو کارکنوں کو فوجی عمارتوں میں جانے کے لیے اُکسایا تھا۔
تحریکِ انصاف ملاکنڈ ڈویژن کے صدر اور سابق ایم پی اے فضل حکیم خان یوسف زئی بھی مطلوب افراد میں شامل ہیں، جنھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کو مخاطب کرتے ہوئے سخت تقریر کی تھی اور گالیاں بھی دی تھیں۔
سابق ایم این اے اور تحریکِ انصاف سوات کے صدر سلیم الرحمان بھی مطلوب ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے اپنی تقریر میں پاکستان جلانے کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ موجودہ جرنیل تو کیا، اُن کی آنے والی نسلوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد علی بھی مطلوب افراد میں شامل ہیں۔ انھوں نے کارکنوں کو چکدرہ انٹر چینج پہنچنے کی ہدایت کی تھی اور بعد میں کارکنوں نے موٹروے انٹر چینج کو جلایا بھی تھا۔
سابق وزیرِ اعلا محمود خان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ ریاست کی اہم شخصیات کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ بھی جلد تحریک انصاف کو چھوڑ دیں گے، یا پھر پرویز خٹک کی نئی پارٹی یا گروپ میں شامل ہوں گے۔
پچھلی 10 سالہ حکومت میں سوات کے کچھ ارکانِ اسمبلی نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے جن کے خلاف نیب اور اینٹی کرپشن نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ان میں دو بار منتخب ہونے والے مینگورہ سے سابق ایم پی اے فضل حکیم خان یوسف زئی جو پہلے قسائی تھے اور گوشت فروخت کرتے تھے، پچھلے انتخابات میں انھوں نے الیکشن کمیشن میں چار ارب روپے کے گوشوارے جمع کرائے تھے۔ اَب اُن کے خاندان کے نام پر مختلف رہائشی ٹاؤنز، بنگلے اور کمرشل زمینیں ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے والیِ سوات کی حویلی کا کچھ حصہ بھی خریدا ہے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت میں سوات میں سیکڑوں کی تعداد میں ’’بھوت‘‘ ملازمین کو بھرتی کیا گیا تھا، جو کئی سالوں سے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے رہے ہیں۔ اب اُن ملازمین کو ڈیوٹی پر لانے کے لیے محکموں نے کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ اُن افراد کو پچھلے 5 سال میں بھرتی کیا گیا ہے اور وہ بغیر ڈیوٹی کے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ اُن افراد میں بیشتر تحریکِ انصاف کے عہدے دار ہیں، جو حالیہ پُرتشدد واقعات میں ملوث بھی رہے۔ اُن میں سے ایک زاہد اللہ ولد عنایت اللہ ساکن کوزہ باما خیلہ جو انجینئرنگ یونیورسٹی میں گریڈ 17 کا آفیسر ہے، ایک دن بھی ڈیوٹی پر نہیں گیا اور گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہا تھا۔ وہ زیادہ وقت تحریکِ انصاف کے جلسوں میں گزارتا تھا، جس کو گذشتہ دنوں مٹہ پولیس نے 9 مئی کے ہنگاموں میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کیا۔
اس طرح انصاف یوتھ ونگ مینگورہ کا صدر عامر خان جو محکمہ ورکس اینڈ سروس میں ملازم تھا، کبھی ڈیوٹی پر نہیں گیا۔ اُس کو محکمے نے چھٹی نمبر3245 پر برطرف کردیا ہے۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ پچھلی حکومت میں ملم جبہ روڈ پر جہان آباد میں بدھا کے مجسمے کی دیکھ بھال کے لیے تحصیل مٹہ کی ایک مسجد کے امام کو چوکی دار بھرتی کیا گیا ہے، لیکن وہ بھی ایک دن ڈیوٹی پر نہیں گیا۔
محکمۂ آرکیالوجی میں سوات میوزیم میں درجنوں کی تعداد میں ملازمین کو بھرتی کیا گیا ہے، جو گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ اس طرح سوات کے مختلف ہسپتالوں میں بھی 100 سے زائد افراد کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں۔
سوات سٹیڈیم کے قریب گورنمنٹ لیڈیز فٹنس کلب میں بھی 50 سے زائد ملازمین کو بھرتی کیا گیا ہے۔ یہ تمام افراد بھی ڈیوٹی سے غائب ہیں۔
سپورٹس ڈیپارٹمنٹ سوات کے دفتر میں بھی درجنوں افراد کو بھرتی کیا گیا ہے، جن میں ایک درجن کے قریب ’’مالی‘‘ ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں گراس ہے اور نہ گملوں میں پودے۔
محکمۂ جنگلات میں بھی 300 سے زائد افراد کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ڈیوٹی سے غائب ہیں۔
محکمۂ ماہی پروری میں مردوں کے ساتھ خواتین واچر کو بھرتی کیا گیا ہے، جو بھی گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہی ہیں۔
محکمۂ اطلاعات سوات میں کئی سالوں سے ایسے افراد بھرتی کیے گئے ہیں، جنھوں نے ایک دن بھی دفتر میں حاضری نہیں لگائی۔
باوثوق ذرائع کا کہنا ہے تمام سرکاری محکموں میں مزید سیکڑوں افراد کو بھرتی کیا گیا ہے، جو صوبائی خزانے سے تو تنخواہ لیتے ہیں، لیکن ڈیوٹی پر نہیں جارہے۔ ایک متعلقہ سرکاری آفیسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر اس خبر کی تصدیق کی اور کہاں کہ بھوت ملازمین کے خلاف اب سرکاری محکموں نے کارروائی شروع کردی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے