کنگز پارٹی کے استقبال کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔ اقتدار کی شطرنج کے روایتی مہرے، جاگیردار، سرمایہ دار، سیاست اور شہرت کے شوقین اَب سب ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔
ارشاد محمود کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irshad-mehmood/
پاکستان تحریکِ انصاف کے منحرفین پر مشتمل ’’قاف لیگ‘‘ اور ایوب خان کی ’’کنونشن لیگ‘‘ کی طرح کی ایک پارٹی بن رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے یہ پارٹی پی ڈی ایم کی حکومت کو چیلنج کرے گی۔ فواد چودھری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس کی مشق فرمانا شروع کردی ہے۔ الیکشن میں وہ حکم ران اتحاد کے خلاف امیدوار میدان میں اُتاریں گے۔ الیکشن میں کامیاب ہونے والے مختلف الخیال افراد کے اشتراک سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوں گی۔ اس طرح وفاق میں ایک مضبوط حکومت قائم نہ ہوسکے گی۔ امکان ہے کہ عام الیکشن میں پیپلز پارٹی کو دیگر جماعتوں پر تھوڑی سی برتری دلوائی جائے گی۔ پنجاب میں گھمسان کا رَن پڑے گا۔ نون لیگ کو پی ٹی آئی، قاف لیگ اور کنگز پارٹی سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اِس طرح ’’نون لیگ کے اُڑیں گے پرزے!‘‘
اس پارٹی کی ناکامی دیوار پر جلی حروف سے لکھی گئی ہے۔ اوّل تو یہ کوشش حقیقت کاروپ دھار ہی نہیں سکے گی…… اور اگر کامیاب ہو بھی جائے، تو کنگز پارٹی کی حمایت سے منتخب ہونے والی حکومت اپنا اخلاقی وجود نہیں منوا پائے گی۔ عوام میں اس کا اعتبار قائم ہوگا اور نہ اس کی جمہوری ساکھ ہی تسلیم کی جائے گی۔ جس حکومت کی ساکھ نہ ہو، وہ ڈیلیور بھی نہیں کرسکتی۔
اِس پارٹی کو جو بھی لیڈ کرے گا، اُس کی رام کہانی موجودہ کشیدہ ماحول میں ارتعاش بھی پیدا نہ کرپائے گی۔ قومی سیاست تین جماعتوں کے گرد گھومتی ہے: پاکستان مسلم لیگ، پاکستان تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی…… باقی جماعتوں کی حیثیت جمعہ جج نال والی ہے۔ اب جو پارٹی تشکیل پائے گی، تو اُس کے پاس کوئی بیانیہ ہے اور نہ کوئی ایسا سیاسی نظریہ جس کی بنیاد پر لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ جہانگیر ترین، علیم خان، چودھری سرور اور فواد چودھری کے پاس کہنے یا بیچنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔
’’کنگز پارٹی‘‘ کے لیڈر عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔یہ جوڑ توڑ اور اداروں کی اِعانت سے چھوٹا موٹا میلہ تو لگا سکتے ہیں، لیکن ملک گیر سطح پر اُن کی کوئی اپیل نہیں۔
بے محابا سرکاری اور ذاتی وسائل کے باوجود شہباز شریف عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکے، تو یہ حضرات کیسے رائے عامہ کو ہم وار کرسکیں گے۔ ’’کنگز پارٹی‘‘، ’’نون لیگ‘‘ اور ’’پی پی پی‘‘ مل جُل کر اگر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو ساتھ نبھا نہ سکیں گے۔ مختلف الخیال سیاست دانوں اور متضاد سیاسی مفادات کی حامل ان شخصیات کا ٹکراؤ فطری اور ناگزیر ہے۔ معیشت کو یہ بہتر کر نہیں سکتے۔ افسوس……! ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو زرعی اور پراپرٹی ٹیکس لگاسکے۔ 22 لاکھ دکان داروں کو ٹیکس نیٹ میں لاسکے۔ آئی ایم ایف اب قرض دیتا نہیں، بلکہ حال ہی میں اُس نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی مسائل کو آئین اور قانون کے دائرے میں پُرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ عرب ممالک ارب دو ارب ڈالر سے زیادہ امداد دینے پر آمادہ نہیں۔ چین کی اسٹرٹیجک مجبوری ہے۔ تھوڑا بہت جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ اُس سے غربت کم ہوتی ہے نہ بھوک مٹتی ہے۔
حکومت ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اقتصادی اُمور سے نابلد ٹیم کی غیر ضروری خود اعتمادی اور سیاسی عدمِ استحکام کی بدولت ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ روپے کی قیمت غیر معمولی حد تک گرچکی ہے۔ بے روزگاری کایہ عالم ہے کہ بحریہ ٹاؤن جیسی محفوظ ترین ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بھی لوگ دن دہاڑے لوٹتے ہی نہیں بلکہ قتل بھی کردیے جاتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کی تذلیل معمول بن چکی ہے۔ پولیس گھروں پر لاو لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے۔ ہزاروں لوگ جیلوں میں ہیں۔ پولیس کے طرزِ عمل نے شہباز حکومت کے ماتھے پر کلک کا ایسا ٹیکہ لگایا ہے، جس کا داغ کبھی مٹ نہ سکے گا۔ ضیاء الحق کے دور میں سیاسی کارکنان اور رہنماؤں پر جو ظلم ہوا، اُس پر آج تک تنقید کی جاتی ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کو بھی ایک ایسے حکم ران کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس کے عہد میں سیاسی مخالفین کو سیاسی پسند و ناپسند کی بنا پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مصر کے حکم ران عبدالفتاح السیسی کی طرح اُن کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
سیاست کھیل نہیں بلکہ عبادت ہے۔ عوام ووٹ کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل سپرد کرتے ہیں۔ اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شہریوں کے مفاد میں فیصلے کریں گے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست کو لوٹوں اور کاروباری لوگوں نے عوام کو داو پر لگانے اور اپنا مفاد حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر بدنام کردیا۔ چناں چہ وہ حسبِ ضرورت و ہدایت جماعتیں بدلتے رہتے ہیں۔ اُن کی سیاست اُن کے مفادات کے تابع ہوتی ہے نہ کہ عوامی مفاد کے لیے۔
’’کنگز پارٹی‘‘ کے قیام جیسے ناکام تجربات کو دہرانے کی بجائے غور کرنا چاہیے کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں کہ کوئی بھی وزیرِ اعظم بغیر جھگڑے کے رخصت نہ ہوا۔ میر ظفرا للہ خان جمالی اور محمد خان جونیجو جیسے بے ضرر سیاست دان بھی کوچۂ اقتدار سے بے آبرو ہوکر نکلے۔ نواز شریف نے آٹھویں ترمیم منسوخ کرکے صدرِ مملکت کا قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا، تو عدالتوں کے ذریعے سیاست دانوں کا دھڑن تختہ کیا جانے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ شراکتِ اقتدار نامی کسی شہ کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ ڈرائیونگ سیٹ جو سنبھالتا ہے، وہ گاڑی کی رفتار اور سمت کا تعین خود کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین وزیرِ اعظم کو اتنا بااختیار بنا دیتا ہے کہ وہ تابع محمل نہیں بن سکتا۔ وہ مستقل طور پر اپنے اختیارات سے دست بردار نہیں ہوتا۔ محمد خان جونیجو کی طرح بتدریج اختیارات کا استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔
ممکن ہے الیکشن کے بعد ایک پسندیدہ حکومت تشکیل پا جائے، لیکن ملک کو درپیش مسائل کم نہ ہوں گے۔ منتخب وزیرِ اعظم اپنے اختیارات کے آزادانہ استعمال پر اصرار کرے گا۔ حکومت برباد معیشت سنبھال نہ پائے گی۔ محض ایک برس میں شہریوں کی بے قراری اور میڈیا کی بے زاری اسے مکمل طور پر غیر مقبول بنا دے گی۔ حکومت کے اتحادی غیر مقبول ہوتی ہوئی حکومت کا سیاسی بوجھ اُٹھانے سے گریز کرنے لگیں گے۔ یوں سال ڈیڑھ بعد ’’ہنی مون‘‘ پیریڈ تمام ہوجائے گا۔ مخالفین الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ اُن کے حامی حکومت کے خلاف سرگرم رہیں گے۔ اس طرح بھان متی کا یہ کنبہ بھی ملک و قوم کی کوئی خدمت کیے بغیر گھر چلا جائے گا۔
مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ نئے تجربات کرنے کی بجائے قومی سطح پر اتفاقِ رائے قائم کیا جائے۔ مفاہمت کی راہ تلاش کی جائے۔ ایک دوسرے کو فتح کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ جینا سیکھا جائے۔ عمران خان سمیت تمام سیاسی رہنما دوبارہ میثاقِ جمہوریت کی طرف لوٹ آئیں۔
’’میثاقِ جمہوریت‘‘ ہی ایک ایسی دستاویز ہے جو ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔