کھلاڑی نئے ہوں گے، کھیل تو وہی پرانا ہے

(مرحوم) منیرؔ نیازی کا معروف مصرع ہے:
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی حالت دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ ہم دائروں میں چل رہے ہیں۔ شاید ہم سن 77ء میں ہیں یا 99ء میں۔ 77ء میں یہی حالات تھے۔ بے شک اُس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی غلطیاں تھیں، وہ حالات کا درست تجزیہ درست نہ کرسکے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ ایک بین الاقوامی سازش ان کے تعاقب میں ہے۔ انجام یہ ہوا کہ جمہوریت اور آئین کا کام تمام ہوگیا۔ اب روز پیپلز پارٹی کے معروف نام، بھٹو صاحب پر الزام تراشی کرتے اور علاحدہ ہو جاتے۔ بے شک یہ ہجرت محدود اور بہت سست رہی، لیکن ہوئی ضرور۔ کوثر نیازی سے غلام مصطفی جتوئی تک کافی لوگ مارشل لا سے تعاون پر مجبور ہوئے۔ بھٹو صاحب کی خوب کردار کشی ہوئی۔ ’’ظلم کی داستان‘‘ نامی ایک طے شدہ پروگرام ہر گھنٹا بعد ریڈیو پاکستان میں آتا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
پھر شاید یہی غلطی جناب نواز شریف سے ہوئی اور وہاں ظلم بہرحال ضیا کی طرح نہ تھا، جب کہ ہجرت موسمی پرندوں کی بہت تیز ہوئی۔ اُدھر میاں صاحب کو جدہ بھیجا گیا، باقاعدہ ہائی جیکر اور غدار بنا کر…… اِدھر راتوں رات ’’ق لیگ‘‘ بنتی گئی اور میاں صاحب کے ساتھ گنتی کے چند اشخاص ہی رہ گئے۔ آج شاید اُسی فلم کا ایک اور سیکوئل نظر آرہا ہے، مگر اب حکومتی کریک ڈاون بھی بہت محدود ہے، لیکن ہجرت پُراَسرار طور پر بہت تیز ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی اور میاں صاحب کا ساتھ بڑے ناموں نے ضرور چھوڑا تھا، لیکن اُن کے کارکن بہرحال قائم تھے۔
آج بہت عجیب بات ہے کہ تحریکِ انصاف کے یونین کونسل لیول کے عہدے دار روز نہ صرف جماعت چھوڑ رہے ہیں، بلکہ میڈیا کے ذریعے اپنے سابقہ لیڈر کو خوب رگڑ بھی رہے ہیں۔
مزید آج کے حالات میں ایک اور عجیب فرق ضرور ہے کہ آج تحریکِ انصاف، حکومت میں نہیں بلکہ حزبِ اختلاف میں ہوکر عتاب کا شکار ہے۔ عمران خان صاحب نے شاید بہت ہی غلط اندازہ لگایا اور اس کی عملی حکمتِ عملی تو نہایت ہی شرم ناک ہوئی۔ ہم کبھی فوج کی سیاسی مداخلت کے حق میں نہ تھے اور نہ ہیں۔ فوج کے اقدامات کی بہت کھل کر مذمت بھی کرتے رہے…… لیکن جو کچھ 9 مئی کو ہوا، اُس کی حمایت کرنا کسی بھی غیر جانب دار پاکستانی کے لیے ممکن نہیں۔ خاص کر شہدا کی یادگاروں کی توہین۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسا تحریکِ انصاف کی قیادت نے کیا یا پلان کیا ہوگا……! گوکہ خان صاحب کے اپنے ساتھی یہ کَہ چکے ہیں کہ یہ سب بہت باریکی سے اور پلان کے مطابق کروایا گیا…… لیکن ہم سابق وزیرِ اعظم بارے حسنِ ظن رکھتے ہیں، لیکن جس طرح خان صاحب اپنی سیاسی حکمت عملی تشکیل دے رہے تھے، یہ واضح نظر آرہا تھا کہ اُس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا۔
اب حکومتی ذرائع یہ دعوا کرتے ہیں کہ یہ کوئی وقتی یا جذباتی ردِعمل نہ تھا بلکہ خان صاحب نے اس کو سوچ سمجھ کر کیا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح عوامی سونامی میں وہ ’’انقلاب‘‘ برپا کر دیں گے اور فوج کے اندر سے بغاوت ہو جائے گی، جب کہ تحریکِ انصاف یہ کہتی ہے کہ یہ سب حکومتی چال تھی اور ایجنسیوں نے اپنے بندے ڈال کر یہ کیا۔ اب دونوں میں سے صحیح کوئی بھی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ تحریکِ انصاف حالات کا درست تجزیہ کرنے میں ناکام رہی۔ بھلے ہی یہ اُن کا اپنا فیصلہ تھا یا وہ حکومتی ٹریپ کا شکار ہوئی۔
دوسری بات، اُن کا فوری ردِعمل وہ نہیں تھا، جو ہونا مطلوب تھا…… بلکہ انھوں نے جوفوری ردِعمل دیا، وہ کسی حد تک اس واقعے کی حمایت میں تھا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوگیا…… لیکن ہم حکومت سے یہ گزارش ضرور کریں گے کہ وہ مہربانی کرے اور اس کو سیاست میں استعمال نہ کرے۔ اگر یہ واقعی کوئی سازش تھی، تو ذمے داران خواہ عمران خان ہو، یا کوئی اور…… اُن کو فوری گرفتار کرے اور مقدمہ اوپن عدالت میں چلائے۔ میڈیا کو مکمل کوریج کی اجازت دے اور ذمے داران کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دے۔ اور جو لوگ بے گناہ ہیں، اُن پر بالکل ہاتھ ڈالا جائے اور نہ ان کو وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے۔
اس کے علاوہ میدان میں جو بچے استعمال ہوئے، اُن کو سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا جائے۔ آخر یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کا مستقبل تباہ نہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ ہم خاص کر تحریکِ انصاف کی قیادت سے بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ 9 مئی کے حوالے سے باقاعدہ قوم سے معافی مانگیں اور آیندہ احتیاط برتیں۔ ماضی سے سبق حاصل کریں۔
اس کے بعد ہم اپنی عدلیہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ مائی لارڈ! 9 مئی کے واقعے پر آپ ’’سیو موٹو‘‘ لیں اور 15 رکنی بنچ بنا کر اس کی خود تحقیقات کریں اور ہر پہلو کو عوام کے سامنے لائیں۔
آخر میں ہم اپنی فوجی قیادت سے بھی بہت ادب سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ سر! بہت ہوگیا۔ اب ملک و قوم مزید یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ پہلے آپ خود نواز شریف اور عمران خان کو ایک خاص ماحول دے کر عظیم راہنما کے طور پر پیش کریں۔ اُن کی تخلیق نفرت کی بنیاد پر کریں۔ اُن کے منشور کا اول حصہ ہی مخالفین کو غدار اور کرپٹ کہنا ہو۔ پھر جب یہ ’’جن‘‘ قابو سے باہر ہو جائیں، تو ان کو انتظامی طور پر ختم کرکے ان کی جگہ کوئی اور مسلط کر دیں۔ ایم کیو ایم سے تحریک انصاف تک تمام تجربات ناکام ہوگئے۔ اب یا تو مہربانی کریں اور تحریکِ انصاف کو بحیثیتِ جماعت معاف کر دیں اور اگر عدل کرنا لازم ہے، تو پھر وہاں سے شروع کریں جہاں ان کی تخلیق ہوئی۔ مسلم لیگ جونیجو بنانے والے ضیاء الحق اور اختر عبدالرحمان کا کورٹ مارشل کریں۔ آئی جے آئی کے خالق حمید گل کا کردار بے نقاب کریں۔ ’’مڈ نائٹ جیکال‘‘ میں میجر عامر اور بریگیڈیر امتیاز پر مقدمہ کریں۔ اصغر خان کیس کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ مشرف کے ’’ٹیک اوور‘‘ اور احتشام ضمیر کے ق لیگ بنانے کو واضح کریں۔ پھر جنرل پاشا اور ظہیر الاسلام سے لے کر جنرل فیض تک کو کٹہرے میں لائیں، تاکہ ایک ہی بار میں تمام معاملات حل ہوں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کسی کو جسمانی سزا دیں، لیکن عوام کو بہرحال یہ بتائیں کہ پسِ پردہ یہ کچھ ہوتا رہا۔ بے شک ان واقعات میں جن صحافیوں اور خصوصاً سیاست دانوں نے شرم ناک کردار ادا کیا، اُن کو بھی بے نقاب کریں۔
جناب والا! آج تحریکِ انصاف کے کارکنان میں یہ جائز تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ یہ کیسی غداری ہے کہ جس کی سزا بس قیادت سے علاحدگی ہے، جو پریس کانفرنس کرتا ہے وہ معصوم، جو نہیں کرتا معتوب و معلون۔
جنابِ والا! آپ یقین کریں کہ آج لوگ بے شک کھل کر نہیں بولتے، لیکن ایک بہت بڑے طبقے خاص کر نوجوانوں میں بہت بے چینی ہے۔ اُن کے سینوں میں نفرت کا لاوا پک رہا ہے، جو کہ کسی بھی حال میں فوج واسطے تو بہرحال صحیح نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک و قوم کے لیے بہت ہی خطرناک ہے ۔ ہم بحیثیتِ قوم نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد میں یہ سوچ ’’افورڈ‘‘ نہیں کرسکتے۔ سو اس کے لیے یا تو آپ کو مکمل انصاف کرنا ہوگا اور یا پھر 9 مئی کے واقعات کو بس ایک فوج داری جرم تک محدود رکھنا ہوگا۔ اس تاثر کو فوری طور پر ختم کرنا ہوگا کہ حکومت اور خاص کر اسٹیبلشمنٹ اس آڑ میں تحریکِ انصاف کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔
یہاں سیاسی حکومت کو بھی اپنا کردار مثبت رکھنا ہوگا۔ بے شک ان کے عمران خان بارے تحفظات صحیح ہیں اور خان صاحب نے محاذآرائی کی سیاست کی انتہا کر دی ہے، لیکن وہی کام اب اگر حکومت کرے گی، تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر مناسب نہیں بلکہ ملک کی جمہوریت اور سیاست کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
اب اگر حالات کے جبر سے مجبور ہو کر عمران خان صاحب گفت گو کی میز پر بیٹھنا چاہتے ہیں، تو بسم اﷲ! آپ اُن سے نئے انتخابات اور ان کے صاف و شفاف ہونے کے طریقۂ کار پر بالکل بات کریں۔ سیاسی درجۂ حرارت کو نیچے لائیں۔ شاید تحریکِ انصاف اب محاذ آرائی کی سیاست سے مفاہمت کی جانب لوٹ آئے اور ان مذکرات کے لیے اگر تحریکِ انصاف کے نچلے درجے کے کچھ کارکن کہ جن کا نام 9 مئی کے سانحے کے حوالے سے موجود ہے، کو کچھ ریلیف بھی دیا جاسکتا ہو، تو ضرور دیں۔ آخر کب تک آپ سیاسی درجۂ حرارت کو بڑھاتے جائیں گے۔ کیوں کہ اگر سیاست میں نفرت کا اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا، تو پھر اس سال متوقع انتخابات اول تو ہونا ممکن نہیں اور اگر ہوئے بھی، تو پھر بہت ہی خونی اور متنازع ہوں گے کہ جس کا انجام 77ء والا ہو سکتا ہے، یعنی اگلے 10، 12 سال تک آمریت کا تاریک اور تباہ کن دور۔
اب وقت آگیا ہے کہ سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ مل بیٹھ کر مسئلے کا مستقل حل نکالیں۔ہمارا خیال ہے کہ اس پر بہتر اقدام صدرِ مملکت کرسکتے ہیں۔ صدر صاحب کو چاہیے کہ وہ ایوانِ صدر میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ذمے داران اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو دعوت دیں اور اس خراب صورتِ حال سے فوری طور پر بہتری کی جانب سفر شروع کریں۔ وگرنہ دوسری صورت میں یہی تماشا جاری رے گا اور ملک کی معیشت مزید تباہی کا شکار رہے گی، جس کا منطقی انجام بھیانک ہوگا۔ تھوڑا سوچ لیں، سنہ 70ء میں بھی شاید حالات کچھ ملتے جلتے ہی تھے۔اُس وقت بھی کچھ لوگ ہماری طرح چیختے رہے کہ خدا کا واسطہ ہے، ریاست کو ماں بنا کرمعاملات کوحل کریں۔ محض خود ساختہ اُصولوں کی پاس داری کا منترہ لے کر مقبول ترین سیاسی گروہ کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش نہ کریں، مگر یہ چیخیں نہ سنی گئیں اور اس کا انجام پھر بہت سنگین ہوا۔ امید ہے تمام سٹیک ہولڈر ہماری درخواست پر غور کریں گے۔ ورنہ قوم سمجھ لے کہ ہمارا سفر دائروں میں رہے گا اور ہم ترقی معکوس کی جانب چلتے رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے