پچھلے ہفتے کے آخری دِنوں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی افسوس ناک ہے…… مگر حیران کن قطعاً نہیں۔ آخر 74 سال سے زائد کا تجربہ ہے کہ اس ملک میں ہر چیز داو پر ہے۔
اگر آپ اقتدار میں ہیں، تو کم زور حکومت بھی قبول، لیکن اقتدار ختم تو ریاستی استحکام بھی سوالیہ۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
ایک لیڈر جو اِس وقت بلاشبہ اپنے ہم عصروں سے عوامی مقبولیت میں بڑھ کر ہے۔ اُس کی گرفتاری نیب کے ہاتھوں ہوئی تھی، مگر جس انداز میں گرفتاری ہوئی تھی۔ اُس طریقے نے عوامی غصے کو جو رُخ دیا، وہ ہرحوالے سے قابلِ مذمت ہے۔ بھلا کون ہوگا جو جلاو گھیراو کا حامی ہوگا؟ سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ پھر ریاستی اداروں اور حساس عمارات کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا دفاع کیوں کر کیا جاسکتا ہے؟
اس سارے معاملے میں مگر سمجھنے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ہمارے سیاست دانوں اور اداروں نے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا۔ سیاست دان تو صرف اقتدار کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان سے مدد کی بھی توقع رکھتے ہیں، جن کا کام صرف سرحدوں کی رکھوالی ہوتا ہے۔ ایسے میں عوامی مسائل اور توقعات پسِ پردہ چلی جاتی ہیں اور کرسی بچاو مہم اہم قرار دی جاتی ہے۔ اداروں نے بھی دانستہ یا نادانستہ خود کو اپنے آئینی ذمے داری تک محدود نہیں کیا…… بلکہ ان پر سیاسی معاملات میں دخل اندازی کے واضح الزامات لگتے رہے۔
قومی سلامتی کے اداروں پر ڈھکے چھپے انداز میں جب کہ عدالتوں (خاص کر اعلا عدلیہ کے چند معزز جج) کے حوالے سے تو ابھی حکومت نے خم ٹھونک کر اعلانِ بغاوت تک کردیا۔
عمران کی گرفتاری پر مشتعل سیاسی کارکنوں نے عسکری ادارے کی عمارتوں کو احتجاج کے لیے چنا، تو اب حکم ران اتحاد نے جواباً سپریم کورٹ کو ہدفِ تنقید بنالیا۔ اس بدترین قسم کے سیاسی، عدالتی اور معاشی بحران میں عوامی مسائل کے حل کے لیے کس سیاست دان اور ادارے کے پاس وقت ہے؟
نتیجتاً ڈالر کی پرواز اوپر ہی اوپر ہوتی جا رہی ہے۔ عمران کے ورکروں نے احتجاج کیا، ایسا پُرامن طریقے سے بھی کیا جاسکتا تھا۔ مہذہب معاشروں میں جمہوریت ہر فرد کو احتجاج کا حق دیتی ہے…… لیکن جواباً پی ڈی ایم کی طرف سے آج سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج یا دھرنا اس کے سوا کس لیے ہے کہ حکومت دو کام کرنا چاہتی ہے:
٭ پہلا یہ کہ کم از کم اِس وقت حکومت انتخابات کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ کیوں کہ رجیم چینچ کے بعد حکومت کے ہر اقدام نے حیران کُن طور پر حکومت کو نقصان اور عمران خان کو فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ کسی طرح سپریم کورٹ کو دباو میں لاکر پنجاب انتخابات کے حوالے سے کیے گئے فیصلے کو واپس کروایا جائے، یا حالات ایسے پیدا کیے جائیں کہ خود سپریم کورٹ مجبور ہوکر یہ کہے کہ بے شک! آئین کی توہین ہو، مگر اس وقت انتخابات ممکن نہیں۔
٭ دوسرا کام حکومت شائد یہ کرنا چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں ایمرجنسی کے لیے راہ ہم وار کی جائے۔ پھر اس کا بھی سارا ملبہ عمران خان پر گرایا جائے کہ دیکھو! عمران خان نے حالات اتنے خراب کردیے کہ اب ایمرجنسی لگانا پڑی۔ اگرچہ فعال عدالتوں کی موجودگی میں لگتا نہیں کہ ایمرجنسی کو عدالتی تحفظ مل جائے…… لیکن اگر حکومتی اتحاد خود سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے بیٹھ جائے، اور اپوزیشن بھی سڑکوں پر رہے، تو پھر کوئی سمجھائے کہ آخری راستہ یا حل کیا بچتا ہے؟
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ ہم سیکھنے والے لوگ نہیں۔ سیاست جن کا کام ہے، اُن سے سنبھالی نہیں جاتی اور جن کا کام نہیں، انھوں نے ’’خالہ جی دا ویہڑا‘‘ سمجھا ہوا ہے۔ نتیجتاً جو سامنے آیا ہے وہ تیتر ہے نہ بٹیر۔
وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ حکومت خود ہی بڑے پن کا مظاہرہ کرکے اپوزیشن کو میز پر لائے اور افہام و تفہیم کے ذریعے اس دلدل سے نکلنے کی سبیل نکالے۔ بصورتِ دیگر ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا وطیرہ سب کو ایک ساتھ ڈبو دے گا۔
دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سامنے آج اپوزیشن کا احتجاج کتنا کامیاب اور نتیجہ خیز نکلتا ہے……؟ کیوں کہ اس کی بنیاد پر ملکی سیاست انگڑائی لے گی۔ جو بھی کَہ لیں کہ سیاسی جنگ آر یا پار کے مدار میں داخل ہوچکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد عدالتی اور ریاستی ردِعمل کیا ہوگا؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔