ملاکنڈ ڈویژن کا علاقہ، بشمول باجوڑ، برطانوی ہند سے ایک امتیازی آئینی حیثیت کا حامل تھا۔ یہ خصوصی آئینی حیثیت پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سارا عرصہ برقرار رہی۔ 1969 ء تک بحیثیتِ سوات، دیر اور چترال کی ریاستوں اور ملاکنڈ پروٹیکٹیڈ ایریا (عرف عام میں ملاکنڈ ایجنسی) اور باجوڑ کے، یہاں عدالتی نظام دوسرے علاقوں کے علاوہ ایک دوسرے سے بھی مختلف تھے۔ 1969ء میں سوات، دیر اور چترال کی ریاستوں کا خاتمہ کرکے ان کے علاقوں کو پہلے اُس وقت کے صوبہ مغربی پاکستان اور بعد میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) میں ضم کیا گیا۔ تاہم اس علاقے کی امتیازی آئینی حیثیت اور اس کے لیے قوانین بنوانے او ریا کسی بنائے ہوئے قانون کو یہاں لاگو کرنے کا خصوصی طریقۂ کار برقرار رکھا گیا۔
مذکورہ ریاستوں کے انضمام کے بعد نہ تو پرانے قوانین اور عدالتی نظام زیادہ مدت تک ویسے ہی برقرار رکھا گیا اور نہ مکمل پاکستانی قوانین اور عدالتی نظام کو نافذ اور رائج کیا گیا۔ لہٰذا اس انضمام کے بعد کے چند سالوں میں وجود میں آنے والا عدالتی نظام اور قوانین ایک ایسا ملغوبہ تھے، جو مسائل حل کرنے کے بجائے معاشرے کے قریباً سب حلقوں میں بے اطمینانی، ناراضی اور نفرت کا سبب بنے۔
اِس پس منظر میں اُس وقت کے ضلع دیر کے بااثر طبقے کے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے دوسری تجاویز اور آپشنز کی مخالفت کرتے ہوئے ملاکنڈ ڈویژن میں شرعی قوانین کے نفاذ کی و کالت اور مطالبہ کیا، جو تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی (ٹی این ایس ایم) کے نام سے شہرت پانے والی تحریک کے معرضِ وجود میں آنے کا سبب بنا۔ اس مقصد کی خاطر 1989ء میں ایک تنظیم قائم کرکے صوفی محمد کو اس کا ناظمِ اعلا نام زد کیا گیا۔
تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی (ٹی این ایس ایم) ضلع دیرمیں جڑیں مضبوط کر ہی رہی تھی کہ 1990ء میں مرکز ی اور صوبائی اسمبلیوں کو ختم کرکے نئے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ ضلع دیر میں تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے راہ نما وں نے ٹی این ایس ایم کی حمایت میں انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ تاہم جماعتِ اسلامی نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا جس کی دوسری جماعتوں نے بھی پیروی کی، جب کہ ٹی این ایس ایم کے سرگرم ارکان نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس کے بعد ٹی این ایس ایم نے جمہوریت کو اسلامی احکامات کے منافی قرار دیتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کی کھل کے وضاحت کی اور صوفی محمد جمہوریت کو غیر اسلامی مانتے ہوئے اس کا سخت مخالف رہا۔
جمہوریت سے متعلق ٹی این ایس ایم اور صوفی محمد کا نقطۂ نظرا بتدا ہی سے ملاکنڈ ڈویژن میں سب لوگوں کو معلوم تھا۔ تاہم اُسے اُس وقت پوری دنیا میں کوریج ملی، جب صوفی محمد نے 19 اپریل 2009ء کو سوات میں گراسی گراؤنڈ میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے، اخباری اطلاعات کے مطابق، مغربی جمہوریت کو غیر مسلموں کا مسلط کردہ نظام قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اسلام جمہوریت یا انتخابات کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے پاکستان کے عدالتی نظام کو بھی اسلامی قوانین کے منافی قرار دیا۔
صوفی محمد کے اس نقطۂ نظرپر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور معروف تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے منجملہ دوسری باتوں کے یہ بھی لکھا کہ صوفی محمد نے حسبِ توقع جمہوریت اور پاکستان کے مروجہ عدالتی نظام کے غیر اسلامی ہونے سے متعلق اپنی باتیں دہرائیں۔ ضلع دیر میں میدان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے اس مذہبی راہ نما کا تنازعہ پیدا کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ وہ جب بھی تقریر کرتا ہے، تو ایسا ہی کرتاہے۔
لہٰذا اگرچہ جمہوریت اور پاکستان کے مروجہ عدالتی نظام سے متعلق گراسی گراؤنڈ سوات میں صو فی محمد کی یہ باتیں نئی نہیں تھیں، تاہم فروری 2009ء کے سوات امن معاہدہ کے تناظر میں جب کہ پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی توجہ اس جلسے پر مرکوز تھی اور اسے براہِ راست نشر کیا جارہا تھا، اس کی وجہ سے ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹی این ایس ایم کن بنیادوں پر جمہوریت کو خلافِ اسلام گردانتی ہے اور ا س کے خلافِ اسلام ہونے کے اپنے دعوے کو حق بجانب قرار دیتی ہے اور یہ بھی کہ اس دوران میں منعقدہ انتخابات کے موقع پر اس کا طرزِ عمل کیا رہا ہے؟
ٹی این ایس ایم کے ایک سرکردہ فرد، سید علی شاہ کے مطابق ( ملاحظہ ہو آپ کی کتاب: ’’دَ شریعت کاروان: منزل بہ منزل‘‘) مغربی جمہوریت تین اجزاء اصل، حکم اور نتیجہ پر مشتمل ہے۔ اور جمہوریت کے یہ تینوں اجزاء واضح طور پہ کفریہ ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سید علی شاہ بتاتا ہے کہ جمہوریت کا اصل بلوغت یا بالغ ہونا ہے، بغیر یہ خیال رکھے ہوئے کہ آیا یہ بالغ مسلمان ہے یا غیر مسلم، مرد ہے یا عورت، عالم ہے یا جاہل، متقی ہے یا غیر متقی، ڈانسر ہے یا مبلغ، ان کا ووٹ مساوی حیثیت کا حامل ہے۔ لیکن سورۂ البقرۃ کی آیت 282 کے مطابق اگر دو مرد موجود نہ ہوں، تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں: یعنی ایک مرد گواہی میں دو عورتوں کے مساوی ہے۔ اور میراث میں بھی دو عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں۔ اور سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ مرد ہی سربراہ ہوگا۔ مغربی جمہوریت میں مرد اور عورت کا ووٹ مساوی ہے اور اللہ تعالیٰ سورۂ المومن کی آیت 58 میں ارشاد فرماتا ہے کہ اندھا اور بصارت والا برابر نہیں اور نہ وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان لوگوں کے برابر ہیں جو برے اعمال کے حامل ہیں۔ یہاں اندھے سے مراد غیر عالم ہے۔ اللہ تعالی کی کتاب کا عالم اور غیر عالم برابر نہیں ہیں۔ اور جو لوگ مسلمان ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں، وہ غلط کاروں کے برابر نہیں۔ لیکن مغربی جمہوریت میں ووٹ کے معاملے میں ایسے سب افراد برابر ہیں۔ لہٰذا ووٹ کا استعمال کھلا کفر اور قرآن کے خلاف جنگ لڑنا ہے۔
جمہوریت کا دوسرا جز حکم ہے، جس کا مطلب ہے کہ اکثریتی ووٹ سے کیا گیا فیصلہ ہی قانون ہے۔ خواہ وہ اکثریت غیر متقیوں، شرابیوں، قاتلوں اور زنا کاروں کی ہو اور اقلیت میں متقی، علماء، قاری اور حاجی ہوں یعنی جمہوریت میں اچھی خوبیوں اور صلاحیتوں کی اس ضمن میں کوئی قدر و قیمت نہیں اور اکثریت کی بات مسلّم ہے۔ لیکن سورۃ الانعام کی آیت 116 بتاتی ہے کہ اگر آپ نے زمین پہ اکثریت کی اطاعت کی، تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے گمراہ کردے گی۔ لہٰذا لوگوں کے مابین اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کفر ہے، جس کے ثبوت میں، مَیں (یعنی سید علی شاہ) نے صوفی محمد سے قرآن کی 102 آیات نوٹ کی ہیں۔
جمہوریت کا تیسرا جز نتیجہ ہے۔ یعنی حکم رانوں کو پانچ سال دیے جاتے ہیں جس کے دوران میں وہ جو بھی بددیانتی اور غلط کام کرتے ہوں، اُن کو اِن کے کرنے کی اجازت ہے، لیکن اپنے آپ کو ملا اور متقی کہنے والے بھی پانچ سال تک اس کفر میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور جس نے بھی ووٹ استعمال کیا، منتخب ہونے والوں کی سب بدعنوانی، ڈاکو، رشوت ستانی، سود اور کیے گئے قتلوں کے گناہوں اور لعنتوں میں برابر کے شریک ہیں۔
اسلام کے بھی ان جیسے تین اجزاء ہیں، یعنی اصل، حکم اور نتیجہ۔ اسلام کا پہلا اصول یا اصل قرآن و حدیث ہیں۔ قرآن، حدیث اور اجماع امت اور مجتہدین کے قیاس کے علاوہ کسی دوسری بنیاد پر کیا گیا فیصلہ اسلام میں کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ دوسری چیزوں یا بنیادوں پر فیصلے کرنے کی وجہ سے مسلمان اپنا ایمان کھو بیٹھتا ہے اور یہ قرآن میں کئی جگہ مذکور ہے۔
اسلام میں دوسرا نکتہ حکم ہے۔ حکم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے جیسا کہ سورۃ یوسف کی آیت 40 میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا بھی حکم نہیں چلتا۔ فریقین کے درمیان فیصلے کرنے کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھی یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ ذاتی خواہشات کے مطابق فیصلے کریں۔ جیسا کہ سورۃ یونس کی آیت 109 میں ہے۔ اور سورۃ ص کی آیت 26 میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر داؤد علیہ السلام کو فیصلہ کرتے وقت ذاتی خواہش کی پیروی کرنے سے باز رکھا ہے۔
اسلام میں تیسرا نکتہ نتیجہ ہے۔ اسلام میں کسی فرد کو اُس وقت تک سربراہ رہنے کی اجازت ہے، جب تک کہ وہ درست راہ کی پیروی کرے۔ جوں ہی وہ راہِ راست سے بٹھک جاتا ہے، اُسے ایک منٹ کے لیے بھی سربراہ رہنے کی اجازت نہیں۔
جمہوریت کی بنیاد بالغ ہونا ہے جب کہ شریعت کی بنیاد قرآن و حدیث ہے۔ شریعت میں حکم اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے اور فیصلہ حق پہ کیا جاتا ہے گو کہ صرف فردِ واحد درست طرف کے حق میں ہو اور ہزاروں دوسری طرف۔ جمہوریت میں کفر یا غیر اسلامی قوانین کے تحت حکومت کرنے کو پانچ سال کے وقت کی اجازت ہے لیکن شریعت میں ایک منٹ کی بھی اجازت نہیں۔ پس جمہوریت کا اصل، حکم اور نتیجہ اسلام کے اصل، حکم اور نتیجہ کا ضد ہیں۔ اس وجہ سے عقلی و نقلی دونوں دلائل کی بنیا د پر مغربی جمہوریت کفرہے۔
جب کہ صوفی محمد کی ذاتی تحریر کے مطابق (ملاحظہ ہو آپ کی کتاب: وجوھات اربع عشرۃ لمعرفۃ حقیقتہ الشریعتہ المحمدیۃ) جمہوریت میں چار چیزیں شریعت کی ضد ہیں، یعنی جمہوریت میں فیصلے چار مرحلوں پر شریعت کے خلاف کیے جاتے ہیں۔
اول، حکومت کے قیام کے وقت جو قرآن و حدیث کے خلاف لوگوں کے ووٹوں اور مرضی کی بنیاد پر قائم کیاجاتا ہے، باوجود اس حقیقت کے کہ قرآن مجید میں 134 مقامات پر اکثریت کو باطل پہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا تاقیامت اکثریت باطل ہی کی ہوگی۔ یہ جمہوریت میں ایک طاغوت ہے۔
دوسرا، ایک عورت، جاہل، تارکِ نماز، شرابی، سود کا کا روبار کرنے والا، روزہ نہ رکھنے والا، قاتل، جوارگر، رقاصہ، رقاص، ہیجڑا، چوڑی، بنگی، چرسی، مشرک، مبتدع، ڈاکو، چور، یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ، قادیانی بلکہ ہر گناہ کرنے والا رائے دینے میں قرآن و حدیث کے عالم باعمل کے مساوی ہوگا۔ یہ باطل پہ حکم ہے اور اس وجہ سے جمہوریت کا دوسرا طاغوت ہے۔
تیسرا، جمہوریت میں فیصلہ کرنے کا معیار اکثریت و اقلیت ہے۔ اسمبلی میں کسی مسئلہ پر دو فریق کے درمیان اختلاف کی صورت میں ووٹ کی اکثریت سے فیصلہ کیا جاتا ہے، خواہ ننانوے ممبر حق پہ ہوں اور ایک کے اضافے سے سو افراد نا حق پہ۔ ہندوستان، برطانیہ، امریکہ، بنگلہ دیش، پاکستان، اسرائیل وغیرہ کی تمام جمہوریتوں میں فیصلے اس طرح کیے جاتے ہیں، جو کہ باطل پہ حکم ہے اور یہ جمہوریت میں تیسرا طاغوت ہے۔
چوتھا، ان تمام جمہوری حکومتوں میں مذکورہ تین طواغیت (طاغوت کی جمع) کو چند سال کے لیے ایک طرح کا برابر موقع دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ عوام کی اکثریت کے اقتدارِ اعلیٰ کو جائز مانا جاتا ہے، باوجود یہ کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی صفتِ خاصہ ہے۔ اس طرح درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفتِ خاصہ کو عوام کی اکثریت کو تفویض کیا گیا جو کہ شرک فی الحاکمیت (حاکمیت میں شرک) ہے اور اس حاکمیت کا چند سال تک اطاعت ’’شرک فی الاطاعت‘‘ (اطاعت میں شرک) ہے۔ یہ باطل پہ حکم کرنا ہے اور اس طرح طاغوت کی چوتھی قسم ہے جس میں دو قسم کا شرک بھی شامل ہے۔
صوفی محمد کے مطابق، اس تفصیل کی بنیاد پر جو کوئی بھی کہتا ہے کہ وہ طاغوت پہ یقین اور عقیدہ رکھتا ہے، سارے دنیا کے مسلمان علماء اور عوام اُسے کافر گردانتے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو کوئی کہتا ہے کہ وہ جمہوریت پہ یقین اور عقیدہ رکھتا ہے اور جمہوریت چار طواغیت کی حامل ہے، تو اس کے معنی ہیں کہ وہ چار طواغیت پر یقین اور عقیدہ رکھتا ہے، تو ایسا فرد کس بنیاد پر مسلمان رہا اور کافر نہیں ہوا؟ جمہوریت کے ا ثبات پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اس کے نفی کے احکام برقرار ہیں۔
صوفی محمد مزید بتاتا ہے کہ گروپ بندی اور پارٹی سیاست کو جائز ماننا کفر ہے۔ جمہوریت ہی کی وجہ سے پارٹی بازی، گروپ بندی، افتراق اور کفری قانون موجود ہیں۔ چوں کہ جمہویت سے اختلاف لازم ہے اور اتحاد فرض۔ لہٰذا جمہوریت کے علم بردار دَرحقیقت شریعتِ محمدی کے نفاذ کی راہ روکنے والے ہیں اور صرف وہ لوگ آخرت میں عذاب سے محفوظ ہوں گے جو جمہوریت کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔
اُن لوگوں کی دلائل کا رَد کرتے ہوئے جن کا کہنا ہے کہ یہ اسلامی جمہوری پاکستان ہے اور پاکستان میں جمہوریت اسلامی جمہوریت ہے، سید علی شاہ کہتا ہے کہ اگر پاکستان میں جمہوریت اسلامی ہے، تو یہ تو ہندوستان اور امریکہ میں بھی رائج ہے۔ پس انھیں اسلامی جمہوریہ ہندوستان اور اسلامی جمہوریہ امریکہ کہا جائے۔
اس نکتہ پر کچھ تفصیلی بحث کرنے کے بعد، سید علی شاہ کہتا ہے کہ مغربی جمہوریت میں مسلمانوں، ہندوؤں، انگریزوں، چینیوں، روسیوں اور دوسرے غیر مسلموں کے مابین کوئی تفریق نہیں رہتی۔ سیاست کرنے والے اور جمہوریت کو کفر نہ ماننے والے ملاؤں پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے آپ نے ان سے اپیل کی ہے کہ موت اور روزِ حساب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اس مغربی جمہوریت سے توبہ کرکے کنارہ کشی اختیار کریں۔ مزید یہ کہ جو کوئی کہتا ہے کہ یہ اسلامی جمہوریت ہے، تو مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت کفر ہے اور اسلام، اسلام ہے۔ اسلام اپنے میں کسی غیر چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اسلام ایک آمیزہ نہیں۔ اگر یہ ہمیں اسلام کے نام پر جمہوریت دیتے ہیں، تو ان کو اعلان کرنا چاہیے کہ اگر کتے اور خنزیر اللہ اکبر کہہ کر ذبح کیے جائیں، تو ان کا گوشت کھانا حلال ہے۔
جیسا کہ درجِ بالا مندرجات سے عیاں ہے، ٹی این ایس ایم کا تنظیمی مؤقف یہ ہے کہ مغربی جمہوریت اسلامی احکامات کے منافی ہے اور اس وجہ سے کفر ہے۔ تاہم اس تحریک اور اس کی سرگرمیوں کا ابتدا ہی سے مشاہدہ کرنے پر یہ ظاہر ہے کہ جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دینے اور ووٹ کا استعمال نہ کرنے پر زور دینے کے باوجود ٹی این ایس ایم نے 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء اور 2008ء کے عام انتخابات، 2001 ء اور 2005ء کے مقامی حکومتوں کے انتخابات اور 2000ء کے صدارتی ریفرنڈم کے مواقع پر نہ تو کبھی انتخابی عمل کو سبو تاژ کیاہے اور نہ زبردستی بائیکاٹ کروانے کی کوشش ہی کی ہے۔
تحریک کے راہ نماؤں اور کٹر حامیوں نے پُرامن طور اپنا ووٹ دینے سے اجتناب کیا ہے، تاہم عام کارکنوں اور حامیوں نے ہمیشہ انتخابات میں حصہ لے کر اپنی پسند کے امیدواروں کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے بعض سرگرم کارکن بھی انتخابی مہم اور حقِ رائے دہی کا حصہ رہے ہیں۔ اگر ان کے خاندان کے افراد، دوست اور اسی طرح کے دوسرے قریبی لوگوں نے انتخابات لڑے۔ یہ تمام عرصہ سوات میں خوانین اور مَلَکوں کے القاب سے ملقب قریباً ان تمام اور دوسری سیاسی شخصیات نے جو ٹی این ایس ایم کے کارکن اور حامی رہی ہیں، بالواسطہ یا بلاواسطہ ہی انتخابات لڑے ہیں اور یا جمہوریت اور انتخابی عمل کا حصہ رہے ہیں۔
سوات میں انتخابات میں ووٹ کے حق کا استعمال نہ کرنے کے وعدوں کے باوجود، ایک اندازے کے مطابق ٹی این ایس ایم کے صرف پانچ فی صد کارکنوں اور حامیوں نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا ہے۔ تاہم دوسرے اندازوں کے مطابق یہ شرح صرف دو فی صد تک ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ٹی این ایس ایم کے ابتدائی دور میں مرتب کردہ ’’قوائد و ضوابط دَ پارہ دَ تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی‘‘ یعنی تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی کے لیے قواعد و ضوابط کا نمبر آٹھ بتاتا ہے کہ تنظیم کا مرکز سے گاؤں کی سطح تک کے تمام ذیلی تنظیموں اور شوریٰ کے ارکان اس کے پابند ہوں گے کہ وہ بحیثیتِ مجموعی تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے علاوہ کسی دوسری سیاسی پارٹی سے کوئی ناتا نہیں رکھیں گے۔
اس طرح یہ ضابطہ اور قاعدہ بہ ا لفاظِ دیگر عام ارکان اور حامیوں وغیرہ کے لیے دوسرے سیاسی جماعت کا ممبر بننے اور یا ان سے تعلق یا ناتا رکھنے کو کھل کے منع نہیں کرتا…… بلکہ اس تحریک کے تنظیموں اور شوریٰ کے ارکان کے لیے بھی انفرادی طور پر سیاسی جماعتوں سے روابط اور ناتے رکھنے کی ممانعت نہیں کرتا۔
یاد رہے کہ صرف ٹی این ایس ایم ہی مغربی جمہوریت کو کفر اور اسلامی احکامات کا منافی قرار نہیں دیتا، بلکہ کئی ایک اور تنظیموں کا بھی یہی مؤقف ہے۔
(24 اور 25 اکتوبر 2011 ء کو لاہور میں منعقد ہ بین الا قوامی کانفرنسـ’’پاکستان: چیلنجز ٹو ڈیماکریسی، گورننس اینڈ نیشنل یونٹی‘‘ میں راقم کے پیش کردہ انگریزی مقالے کی اُردو تلخیص)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔