ترجمہ: شگفتہ شاہ (ناروے)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک بیوہ رہتی تھی۔ اُس کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام ’’سچا‘‘ اور دوسرے کا نام ’’جھوٹا‘‘ تھا۔ سچا لڑکا بہت ایمان دار اور ثابت قدم تھا، جب کہ دوسرا لڑکا بہت بدطینت اور جھوٹ کا پتلا تھا۔ اس لیے کوئی اُس کی بات پر یقین نہیں کرتا تھا۔ اُن کی ماں بیوہ تھی اور بہت مشکل سے بسر اوقات کرتی تھی۔ چناں چہ جب اُس کے بیٹے جوان ہوگئے، تو اُسے مجبوراً ان کو روزی روٹی کمانے کے لیے گھر سے دور بھیجنا پڑا۔ ماں نے زادِ راہ کے طور پردو پوٹلیوں میں کھانے پینے کی اشیا باندھیں ا ور ایک ایک پوٹلی دونوں بیٹوں کے حوالے کردی۔
دونوں بھائی سارا دن چلتے رہنے کے بعد شام ڈھلے ایک جنگل کے قریب پہنچ گئے۔ انھوں نے آندھی کے زور سے زمین پرگرے ہوئے درختوں کے تنوں پر بیٹھ کرکھانے کی پوٹلیاں کھولیں۔ وہ دن بھر چلتے رہے تھے، اس لیے انھیں سخت بھوک محسوس ہو رہی تھی اور ان کا خیال تھا کہ اب کھانے کا ہر لقمہ انھیں خوب مزہ دے گا۔ ’’میری طرح تم بھی یہی سوچ رہے ہو کہ پہلے ہم تمھاری پوٹلی سے کھانا کھائیں، جب تمھاری پوٹلی خالی ہوجائے گی، تو پھر میری پوٹلی والا کھانا کھالیں گے!‘‘جھوٹے بھائی نے کہا۔
سچے کو اس کی یہ تجویز پسند آئی۔ چناں چہ اُس نے اپنی پوٹلی کھولی اور دونوں بھائیوں نے کھانا کھانا شروع کر دیا…… مگر جھوٹے نے جلدی سے سب اچھی اچھی چیزیں ہڑپ کرلیں اور دوسرے بھائی کے حصے میں صرف جلی ہوئی روٹی اور گوشت کے چند سوکھے ٹکڑے ہی آئے۔ اگلی صبح اور پھر دوپہر میں بھی انھوں نے سچے کی پوٹلی سے کھانا کھایا اور اُس کی پوٹلی خالی ہوگئی۔
اب وہ دونوں بھائی آگے روانہ ہو گئے، شام تک چلتے رہنے کے بعد جب وہ کھانا کھانے بیٹھے، تو سچے نے بھائی کی پوٹلی سے کھانا لینے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، مگر جھوٹے نے اُسے کھانا دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اُس کھانے سے تو صرف اُسی کا پیٹ بھر سکے گا۔ ’’ہاں، مگر تم نے بھی تو میری پوٹلی سے کھانا کھایا تھا!‘‘ سچے نے کہا۔
’’جی ہاں، اگر تم اتنے احمق ہوکہ اپنا کھانا دوسروں کو کھانے کی اجازت دے دیتے ہو، تو اب تم خود ہی اس کا خمیازہ بھی بھگتو!،‘‘ جھوٹے نے کہا۔ ’’اور اُدھر بیٹھ کر للچائی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھو!‘‘
’’اوہ، تمھارا نام تو جھوٹا ہے ہی، لیکن تم حقیقت میں بھی جھوٹے ہو۔ تم سدا کے جھوٹے اور مکار ہو!‘‘ سچے لڑکے نے کہا۔
جھوٹے نے یہ سب سنا، تو وہ غصّے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ اپنے بھائی پر جھپٹا اور اس کی دونوں آنکھیں پھوڑ دیں۔ ’’اے اندھے بزدل! اب تم سچے اور جھوٹے لوگوں کو اچھی طرح پہچان سکوگے!‘‘اُس نے کہا اور اپنے بھائی کو وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہوگیا۔
بے چارہ سچا، جو اَب اندھا ہوچکا تھا، اُس گھنے جنگل میں بالکل اکیلا تھا۔ وہ راستہ ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک اُس کا ہاتھ ایک درخت کے تنے پر پڑا۔ اُس نے سوچا کہ اسے جنگلی درندوں سے محفوظ رہنے کے لیے اسی درخت پر چڑھ کر رات بسر کرلینی چاہیے۔ ’’جب پرندے چہچہانا شروع کردیں گے، تو مجھے پتا چل جائے گا کہ اب صبح ہو گئی ہے۔ پھر میں آگے روانہ ہو جاؤں گا!‘‘ اُس نے خود کلامی کی اور درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ابھی اُسے وہاں بیٹھے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اُسے درخت کے قریب چند جانوروں کی آوازیں سنائی دیں۔ پھر اُس نے محسوس کیا کہ کچھ اور جانور بھی آکر اِس ٹولی میں شامل ہوگئے۔ وہ سب ایک دوسرے کو آداب عرض کر رہے تھے۔ سچے لڑکے کو ریچھ، بھیڑیے، لومڑی اور خرگوش کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سب جانور سال کے سب سے طویل دن کا جشن منانے کے لیے وہاں جمع ہوئے تھے۔ انھوں نے مل کر کھایا، پیا، جشن منایا اور پھر سب درخت کے نیچے بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔
’’اس وقت ہم سب اکٹھے بیٹھے ہیں، توہمیں ایک دوسرے کو ایک ایک حکایت بھی سنانی چاہیے! ‘‘ لومڑی نے تجویز پیش کی۔ ’’ٹھیک ہے! ‘‘دوسرے جانوروں نے اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’اس طرح ہمارا وقت اچھا گزر جائے گا!‘‘ انھوں نے کہا۔ پھر سب سے پہلے بھالو جو ٹولی کا سربراہ بھی تھا، اُس نے حکایت سنانی شروع کی: ’’انگلستان کے بادشاہ کی بینائی اس قدر کم زور ہے کہ اُسے نزدیک کی چیزیں بھی واضح طور پر دکھائی نہیں دیتیں…… لیکن اگروہ کسی روز صبح سویرے ایسے وقت یہاں پہنچ جائے، جب اس درخت کے پتوں پر اُوس پڑی ہو اور وہ اُس اوس کو اپنی آنکھوں پر مل لے، تو اس کی بینائی بحال ہو جائے گی۔ وہ ایک بار پھر اسی طرح صاف دیکھ سکے گا،جس طرح وہ پہلے دیکھا کرتا تھا۔ ‘‘
’’اور ہاں……!‘‘ سرمئی ٹانگوں والا بھیڑیا بولا: ’’انگلستان کے بادشاہ کی ایک بیٹی بھی ہے؛ جو کہ گونگی اور بہری ہے۔ اگر بادشاہ کو بھی اس بات کا پتا چل جائے جومَیں جانتا ہوں، تو وہ اس کا علاج کرواسکتا ہے۔ پچھلے سال جب وہ گرجا گھر میں قربان گاہ کے قریب کھڑی تھی، تو اس کے منھ سے روٹی کا ایک ٹکڑا نیچے گرگیا تھا۔ عین اُسی لمحے ایک بڑا سا مینڈک وہاں آیا اور اُس نے روٹی کا وہ ٹکڑا نگل لیا تھا۔ اگر بادشاہ گرجا گھر کے لکڑی کے فرش کی کھدائی کروائے، تو انھیں قربان گاہ کے قریب ہی وہ مینڈک دو زانو بیٹھا مل جائے گا۔ روٹی کا ٹکڑا ابھی تک اس کے حلق میں ہی ہے۔ اگر روٹی کا وہ ٹکڑا اُس کے حلق سے نکال کر شہزادی کو کھلا دیا جائے، تو وہ پھر سے دوسرے لوگوں کی طرح بولنے اور سننے لگے گی۔ ‘‘
’’اور ہاں!‘‘ اب لومڑی نے اپنی بات شروع کی: ’’اگر انگلستان کا بادشاہ وہ بات جان جائے، جو میں جانتی ہوں، تو اُس کا صاف پانی کے حصول کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؛ اس کے محل کے آنگن میں پڑے بڑے سے پتھرکے نیچے ایک چشمہ ہے، اگر وہ پتھر کے نیچے کی زمین کو کھودیں گے، تو وہاں سے صاف و شفاف پانی کا ایک ایساچشمہ پھوٹ نکلے گا، جس کی خواہش ہر شخص کو ہوتی ہے۔ ‘‘
’’اور ہاں……!‘‘ خرگوش بولا: ’’انگلستان کے بادشاہ کا باغ ملک بھر میں پھل دار درختوں کاسب سے خوب صورت باغ ہے، مگر اُن درختوں پر آج تک ایک کچا سیب تک نہیں اُگا۔ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ باغ کی چاروں اطراف میں سونے کی ایک بڑی سی زنجیر کی تین قطاریں پھیلی ہوئی ہیں، اگر کھدائی کروا کر اُس زنجیر کو باہر نکال لیا جائے، تو بادشاہ کے باغ کے درخت پھلوں سے لد جائیں گے۔‘‘
’’لیکن اب کافی رات بیت چکی ہے، ہمیں اپنے اپنے ٹھکانوں کا رُخ کرنا چاہیے!‘‘ لومڑی نے کہا اور سب جانوروں نے اپنا اپنا راستہ لیا۔ اُن کے چلے جانے کے بعد سچا لڑکا وہیں درخت پر بیٹھے بیٹھے سوگیا؛ جب صبح سویرے پرندوں نے چہچہانا شروع کیا، تو اُس کی آنکھ کھل گئی۔ اُس نے درختوں کے پتوں پر پڑی شبنم اپنی آنکھوں پر ملی اور ا س کی بینائی بحال ہو گئی۔ اب وہ سیدھا انگلستان کے بادشاہ کے محل کی طرف روانہ ہوگیا۔ اُس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اُسے اپنے ہاں ملازم رکھ لے۔ بادشاہ نے اُس کی درخواست فوراً منظور کرلی۔
ایک روز بادشاہ اپنے محل کے آنگن میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ اُس روز سخت گرمی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد بادشاہ کو پیاس محسوس ہوئی، اُسے گھڑے کاپانی پیش کیا گیا، جو سخت گدلا اور بدذائقہ تھا۔ بادشاہ کواس بات پر سخت غصہ آیا: ’’مَیں اس وسیع و عریض سلطنت کا حکم ران ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ میری سلطنت کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہوگا، جس کے کنویں کا پانی اس پانی جیسا گدلا اور بد ذائقہ ہوگا! ‘‘ بادشاہ نے کہا۔
’’جی ہاں، لیکن اگر آپ مجھے اجازت دیں، تومَیں آپ کے چند ملازمین کی مدد سے آپ کے آنگن کے وسط میں پڑے اُس بھاری پتھر کو اُس کی جگہ سے ہٹا دوں۔ پھر آپ کو بھی صاف و شفاف اور میٹھا پانی مل جائے گا!‘‘ سچّے نے کہا۔ بادشاہ نے فوراً ہی اس کی تجویز مان لی۔ جب محل کے آنگن کے وسط سے پتّر ہٹا کر زمین کو کھودا گیا، تو وہاں سے صاف و شفاف پانی کا ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا کہ سارے انگلستان میں اس چشمے سے زیادہ صاف و شفاف اور میٹھا پانی کسی چشمے کا نہیں تھا۔
چند روز بعد بادشاہ پھر محل کے آنگن میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ ایک بڑا سا باز اُڑتا ہوا آیا۔ وہ بادشاہ کی مرغیوں پر جھپٹنا چاہتا تھا۔ محل کے ملازمین تالیاں بجانے اور شور مچانے لگے: ’’وہ رہا باز، وہ رہا باز!‘‘ بادشاہ نے اپنی بندوق سنبھالی۔ اُس نے باز پر نشانہ باندھنا چاہا؛ لیکن جب اس قدرقریب اُڑتا ہوا باز بھی اُسے صاف دکھائی نہ دیا، تووہ بے حد دکھی ہو گیا۔ ’’خدا کرے کوئی مجھے میری آنکھوں کا کوئی علاج بتا دے! ورنہ میں جلد ہی بالکل نابینا ہو جاؤں گا!‘‘بادشاہ نے کہا۔
سچے نے یہ بات سنی تو بادشاہ سے کہا: ’’مَیں آپ کو آپ کی آنکھوں کا علاج بتاسکتا ہوں۔‘‘ اور پھر اُس نے بادشاہ کو بتایا کہ کس طرح اس کی بینائی بحال ہوسکتی ہے۔ اور جیسا کہ آپ سوچ رہے ہوں گے، بادشاہ اُسی روز جنگل کے اُس درخت کی جانب روانہ ہوگیا اور پھر اگلی صبح جب اُس نے درخت کے پتوں پر پڑی اُوس اپنی آنکھوں پر ملی، تو اُس کی بینائی بالکل ٹھیک ہوگئی۔ اب تو بادشاہ کو سچے سے بڑھ کر کوئی بھی عزیز نہیں تھا۔ وہ گھر اور باہر، ہر جگہ اور ہر وقت سچے کو اپنے ساتھ ہی رکھتا۔
ایک روز وہ دونوں باغ میں ٹہل رہے تھے کہ بادشاہ نے کہا: ’’مَیں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میری سلطنت میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنے باغ پر اتنی رقم خرچ کرتا ہو، جتنی مَیں خرچ کرتا ہوں۔ پھر بھی میرے باغ کے کسی درخت پرکبھی کوئی پھل نہیں اُگتا۔‘‘
’’اگر آپ اجازت دیں، تو مَیں آپ کے ملازمین کی مدد سے باغ کی چاروں اطراف میں پھیلی سونے کی ایک موٹی زنجیر کی تینوں قطاریں کھدائی کروا کر نکلوا دوں، پھر آپ کے باغ کے درخت بھی پھل دینے لگیں گے ۔‘‘
جی ہاں……! بادشاہ تو یہی چاہتا تھا؛ چناں چہ سچے لڑکے نے ملازمین سے باغ کے ارد گرد کی زمین کی کھدائی کروائی اور اُس کے چاروں اطراف پھیلی سونے کی ایک موٹی زنجیر کی تین قطاریں باہر نکلوادیں۔ سچا لڑکا سونے کی اتنی مقدار پالینے کے بعد بہت امیر ہوگیا۔ اب وہ بادشاہ سے بھی زیادہ سونے کا مالک تھا، مگر بادشاہ تو اس بات سے خوش تھا کہ اب اُس کے باغ کے درختوں کی پھلوں سے لدی شاخیں زمین کو چھوتی تھیں اور اُن کے پھل اتنے لذیذ اور میٹھے تھے کہ اتنے لذیذ پھل اُس سے پہلے کسی نے کبھی نہیں چکھے ہوں گے۔
چند روز بعد بادشاہ اور نوجوان سچا آپس میں باتیں کرتے ہوئے باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ بادشاہ کی بیٹی ان کے قریب سے گزری۔ اُسے دیکھ کر بادشاہ بے حد دکھی ہوگیا۔ ’’کیا تمھارے خیال میں یہ پریشان کن بات نہیں کہ میری اس قدر حسین و جمیل بیٹی گونگی اور بہری ہے؟‘‘ بادشاہ نے پوچھا۔ ’’جی ہاں! مگر اس کا علاج ممکن ہے!‘‘ سچے لڑکے نے جواب دیا۔ بادشاہ اس کا جواب سن کر بے حد خوش ہوا۔ اُس نے لڑکے سے وعدہ کیا کہ اگر اس کی بیٹی ٹھیک ہوگئی، تو وہ سچے لڑکے کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دے گا اور اُسے اپنی آدھی سلطنت بھی عطا کر دے گا۔ سچا لڑکا چند ملازمین کو ساتھ لے کر گرجا گھر میں گیا۔ انھوں نے قربان گاہ کے ارد گرد کا فرش اکھیڑ کر وہاں دو زانو بیٹھے مینڈک کو باہر نکالا، اور پھر مینڈک کے حلق سے روٹی کا ٹکڑا نکال کر شہزادی کو دیا۔ شہزادی روٹی کا ٹکڑا کھاتے ہی عام انسانوں کی طرح بولنے اور سننے لگی۔ اب بادشاہ کے وعدے کے مطابق سچا لڑکا بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے کا حق دار تھا۔ چناں چہ بادشاہ نے ایک ایسے شان دار جشن کا اہتمام کیا کہ اس سے پہلے کبھی کسی نے ایسا جشن دیکھا نہ سنا تھا۔ سچے لڑکے کی شادی کا جشن ابھی جاری تھا کہ ایک مفلوک الحال لڑکا وہاں کھانا مانگنے کے لیے آیا۔ لڑکا اس قدر بد وضع اور بد حال تھا کہ سب نے اُسے دیکھ کر بے زاری کا اظہار کیا؛ مگر سچے نے اُسے فوراً پہچان لیا۔ دراصل وہ جھوٹا تھا، اس کا اپنا بھائی۔ ’’کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟‘‘ سچے لڑکے نے اُس سے پوچھا۔ ’’مَیں نے آپ جیسے اعلا مرتبے والے شخص کو پہلے کہاں دیکھا ہو گا؟‘‘جھوٹے نے کہا۔ ’’تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو!‘‘ سچے لڑکے نے کہا۔ ’’ایک سال قبل آج ہی کے دن تم نے جس بھائی کی آنکھیں پھوڑ ڈالی تھیں، وہ مَیں ہی ہوں۔ مَیں نے کہا تھا ناں کہ تمھارا نام جھوٹا ہے اور تم واقعی جھوٹے ہو اور مَیں آج بھی یہی کہوں گا…… مگر تم بہرحال میرے بھائی ہو، اس لیے تمھیں کھانا ضرور ملے گا۔ کھانا کھانے کے بعد تم بھی جاکر اس درخت پر چڑھ بیٹھنا، جس پر پچھلے سال آج ہی کے دن میں بیٹھا تھا۔ شاید تم بھی کوئی ایسی بات سن سکو جس سے تمھاری قسمت بدل جائے۔‘‘
جھوٹے نے دوسری دفعہ کہنے کی نوبت نہ آنے دی اور وہ فوراً ہی اُس جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ ’’اگر سچے کو اُس درخت پر بیٹھنے کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ وہ ایک ہی سال میں آدھے انگلستان کا بادشاہ بن گیا ہے، تو شاید میں بھی……!‘‘ اور وہ اُس درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ابھی اُسے وہاں بیٹھے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ سب جانوردرخت کے نیچے جمع ہو گئے۔ جب وہ کھانے، پینے اور جشن منانے سے فارغ ہو کردرخت کے نیچے بیٹھ گئے، تو لومڑی نے خواہش ظاہر کی کہ اب وہ سب ایک دوسرے کو حکایتیں سنائیں۔ جھوٹا کہانیاں سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھ گیا، مگر ریچھ غصّے سے غرایا: ’’نہیں، پچھلے سال ہم نے جو کہانیاں سنائی تھیں وہ کسی چغل خور نے آگے بتا دی تھیں، اس لیے اس سال ہم جو کچھ جانتے ہیں اُسے زبان پر نہیں لائیں گے ۔‘‘
چناں چہ انھوں نے محفل برخاست کی، ایک دوسرے کو الوداع کہا اور اپنی اپنی راہ چل دیے۔ یوں اس جھوٹے کی عقل میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا۔ دراصل اس کا صرف نام ہی جھوٹا نہیں تھا بلکہ وہ فطرتاً بھی جھوٹا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔