رومی ہوں یا کلٹی، بابلین ہوں یا اشوری…… سب روزے کا اہتمام کرتے تھے۔ فلاسفرز ہوں یا ملحد، فلسفۂ صبروقناعت کے داعی ہوں، فیثاغورث کے مقلد ہوں یا افلاطونیت کے پیروکار…… سبھی روزے کی تائید کرتے ہیں۔
ہندو ازم، جین مت، کنفیوشیت، یہودیت، عیسائیت اور پارسی سبھی کے ہاں روزے کی روایت موجود رہی ہے۔
پروفیسر عبدالشکور شاہ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adb/
روزے کے طریقۂ کار، دورانیہ اور تسلسل میں تو فرق موجود رہا ہے، مگر روزہ تقریباًسبھی مذاہب کا خاصا رہا ہے۔ یوں روزہ ایک عالمی عمل ہے۔
روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔عالمی سطح پر منفی جذبات کو کم کرنے کے لیے روزہ سب سے بہترین ذریعہ تصور کیا جا تا ہے۔ صبر، مضبوط قوتِ ارادی، سچائی، راست بازی، ایمان داری، اچھے اخلاق، نظم و ضبط، عزت و وقار، بہتر غذائی عادات و معمولات کے علاوہ بہت سارے جسمانی، روحانی، نفسیاتی، مالی اور سماجی فوائد کے حصول کے لیے روزہ ایک منظم اور مسلم عمل ہے۔روزہ امن، خوش حالی، معاشرتی ترقی اور بقا کے لیے قدرت کا اَن مول تحفہ ہے۔ روزہ ہمیں زندگی کے معمولات میں تکمیل حاصل کرنے کا موقع مہیا کرتا ہے۔
ماضی میں روزہ کو دکھ، افسوس یا کسی بڑے واقعے کی یاد کے ساتھ منسوب کیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس شرکیہ نظریہ کو ختم کرتے ہوئے روزے کا ایک اعلا تصور پیش کرتے ہوئے اس کی اہمیت و اِفادیت کو واضح کیا۔ روزے کا بنیادی سماجی مقصد انسان کے جسم اور دماغ میں موجود منفی جذبوں کو قابو میں کرناہے۔ روزے کے ذریعے ہم بے ایمانی، برائی، جھوٹ، منافقت، بدخوئی، بدزبانی اور دیگر منفی اقدام سے باز رہتے ہیں جو معاشرے اور انسانیت کے لیے زہرِ قاتل تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم روزے کا حقیقی فائدہ اور ثواب اُنھی کو نصیب ہو تا ہے جو محض بھوک پیاس تک محدود نہیں رہتے…… بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات و ہدایات کے مطابق روزہ کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
روزہ ہماری توجہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کی قلت اور دوسروں کے احساسِ محروم کے بارے میں آگاہی پیدا کرتا ہے۔ روزے کے دوران میں نیک عمل کا ثواب کئی گنا زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور سماجی سطح پر بہت سارے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ موجودہ دور میں خاندانی دوریاں بہت بڑھ چکی ہیں۔ روزہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر افطاری اور سحری کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کے سبب ہمارا خاندانی تعلق مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔
روزہ سماجی سطح پر تعلیم و تعلم کا وسیع ذریعہ بھی ہے ۔ ہر عمر کے افراد رمضان میں اسلامی اقدار، تعلیمات، سخاوت، دوسرں کی مدد، احساس، ہم دردی، نیکی اور دیگر بے شمار خوبیاں سیکھتے ہیں۔
روزہ معاشرے میں اسلامی اقدار اور روایات کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہے ۔
روزہ ہمارے سماجی رابطوں کو بحال اور مزید مضبوط کرتا ہے۔ اِفطار اور سحری کی دعوتی روایات کے ذریعے ہمارے سماجی تعلقات میں بہتری آتی ہے۔
روزہ سے ہمسایوں کے حقوق کی نہ صرف بہتر ادائی ہوتی ہے، بلکہ ہمسایوں کے ساتھ اِفطار اور سحری میں اشیا کے تبادلے سے خوش گوار تعلقات قائم ہوتے ہیں۔
روزہ تقوا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ ہمارے اندر صبر،بردباری اور قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا ہے۔اللہ تعالا نے قرآنِ کریم میں صبر کا ذکر 70 سے زیادہ مرتبہ فرمایا ہے۔
روزہ ہمارے اندر راست بازی اور وفاداری کی خوبیاں پیدا کرتا ہے اور ہمیں ریاکاری سے دور رکھتا ہے۔ یہ دونوں اعمال سماجی سطح پر بہت اہم ہیں۔
روزہ ہمارے اخلاق کو سنوارتا ہے، بالخصوص روز مرہ کی بات چیت کے وہ عوامل جن کا تعلق سچائی، بھروسے اور اعتماد سے ہے ۔
روزہ ہمارے اندر سخاوت کے جذبے کو پروان چڑھاتا ہے اور مسلم امہ کے اتحاد کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ روزہ برائیوں کی بنیاد بننے والے تمام جذبوں کو قابو میں کرتا ہے جو سماجی سطح پر انتہائی زیادہ نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ روزہ روح کو تروتازگی بخشتا ہے اور سست اور کاہل روح کو متحر ک بنا دیتا ہے، جو معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔ نیک سیرت افراد اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ خالی پیٹ دانائی کا سرچشمہ ہے۔
روزہ عبادت میں خشوع و خضوع کا سبب بنتا ہے جس کے نتیجے میں ہم معاشرے میں لوگوں کے ساتھ اپنا برتاو بہتر بناتے ہیں۔
روزہ انسان میں عاجزی اور انکسار پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔
روزہ نیند کے دورانیے کو کم کرکے ہمیں زیادہ وقت فراہم کرتا ہے۔
روزہ نہ صرف ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے بلکہ رمضان میں ملکی معیشت کی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
باقی عبادات میں دکھاو ا ہوسکتا ہے، مگر روزہ ایسا عمل ہے جس کا معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے۔ نماز میں ہوسکتا ہے کہ کوئی امیرترین آدمی مسجد میں دوسروں کے ساتھ صف میں کھڑ ا ہوجائے، مگر گھر میں اس کی زندگی دیگر لوگوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔
روزہ ایسا عمل ہے جو ہر لحاظ سے ہمارے اندر برابری کا احساس پیدا کر تا ہے۔ روزہ ہمیں معاشرے کے غریب اور بھوکے افراد کا نہ صرف احساس دلاتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ ہم دردی کا عنصر بھی پیدا کر تا ہے۔
روزہ امیروں میں احساسِ بھوک کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کر تا ہے۔ یہ ہمیں اخلاقی نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے۔
روزہ درحقیقت ایک ایسا نظام ہے، جہاں سب اپنے معاشرتی نشانات اور علامات کو اُتار کر ایک ہو جاتے ہیں۔ المختصر، روزے کے فوائد کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس بابرکت ماہ میں ہمیں معاشرے کا ذمے دار فرد بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔