خالقِ کائنات اللہ ربّ العزت نے صاحبِ ثروت طبقے پر ایک متعین مقدار غریبوں اور ضرورت مندوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا فرض قرار دیا ہے۔ ان پر یہ ذمے داری عائد کی ہے کہ وہ مستحقینِ زکوٰۃ کو تلاش کرکے ادائی کریں۔
رمضان المبارک میں ڈھیر سارے مسلمان بھائی بہنیں اپنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اس مہینے میں بہت سے ہسپتال، تعلیمی ادارے، فلاحی خدمات سر انجام دینے والی این جی اُوز اور دینی مدارس باضابطہ تشہیر کرکے زکوٰۃ وصول کرتے نظر آتے ہیں، جو کہ اس رقم سے فلاحی خدمات سرانجام بھی دیتے ہیں…… مگر اس طرح تقریباً 90 فی صد حقیقی مستحقینِ زکوٰۃ اس کے ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تنگ دستی اور محتاجی کے باوجود اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں۔ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے، اور صاحبِ ثروت طبقہ اُن افراد کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ حالاں کہ یہی وہ حقیقی مستحقین ہیں، جنھیں اللہ ربّ العزت کی طرف سے تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے اپنی ذمے داری کو احسن طریقے سے پورا کرتے ہوئے حقیقی مستحق کو تلاش کریں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ اپنایا جاسکتا ہے کہ امیر افراد غریب اور درمیانے درجے کے اپنے عزیز و رفقا سے، ہمسایوں سے اور مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والے افراد سے رابطہ رکھیں۔ وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری کریں۔ ان کے مالی حالات اور محرومیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور ان جیسے افراد کے ذریعے دیگر لوگوں کے حالات کا جائزہ لے کر زکوٰۃ کا مال ان حقیقی مستحقین تک پہنچا کر اپنی ذمے داری سے احسن طور پر عہدہ برآ ہوں، تاکہ حق، حق دار تک پہنچے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
نظامِ زکوٰۃ ایک مضبوط و خوش حال اسلامی معاشرہ کی تشکیل، غربت کے خاتمے اور انسانی فلاح و بہبود کااہم ترین ذریعہ ہے۔ اسلام میں ادائیِ زکوٰۃ کا حکم سماجی انصاف اور اخلاقی قدروں کومستحکم کرنے کے لیے ہی دیا گیا ہے۔ ادائیِ زکوٰۃ سے مال پاک ہوتاہے اور اس عمل میں نیکی اور اِفادیت کے بے شمار پہلو ہیں۔ جس طرح مومن بندہ نماز کے قیام اور رکوع وسجود کے ذریعے اللہ تعالا کے حضور اپنی بندگی اور تذلل و نیاز مندی کا مظاہرہ جسم وجاں اور زباں سے کرتا ہے، تاکہ اللہ تعالا کی رضا ورحمت اور اس کا قرب حاصل ہو…… اسی طرح زکوٰۃ ادا کرکے وہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے، وہ اسے اپنا نہیں بلکہ اللہ تعالا کاہی سمجھتا اور یقین کرتا ہے۔ اس کی رضا و قرب حاصل کرنے کے لیے اس کو پیش کرتا ہے۔
حبِ مال و دولت جو ایمان کُش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے، زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے۔ اسی بنا پر قرآنِ مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے، جس کے ذریعے ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو۔‘‘ (سورۂ توبہ)
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:’’اور اس آتشِ دوزخ سے وہ نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا، جو اپنا مال راہِ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو۔‘‘ (سورۃاللیل)
توحید ورسالت کے اقرار اور اِقامت صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا بنیادی رکن ہے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں 70 سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور ادائیِ زکوٰۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیاگیا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب ایک ہی ہے۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے متعلق احادیث میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کو اللہ تعالا نے دولت عطا فرمائی، پھر اُس نے اُس کی زکوٰۃ ادا نہ کی، تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گی، جس کے انتہائی زہریلے پن سے اس کے سر کے بال جھڑگئے ہوں گے اور اس کی آنکھوں کے اوپر دوسفید نقطے ہوں گے (جس سانپ میں یہ دو باتیں پائی جاتی ہیں، وہ انتہائی زہریلا سمجھاجاتا ہے) پھر وہ سانپ اس (زکوٰۃادا نہ کرنے والے بخیل) کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا (یعنی اس کے گلے میں لپٹ جائے گا) پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا (اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں، مَیں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے: ’’اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس مال ودولت میں جو اللہ نے اپنے فضل وکرم سے اُن کو دیا ہے (اور اُس کی زکوٰۃ نہیں نکالتے) کہ وہ مال ودولت ان کے حق میں بہتر ہے، بلکہ انجام کے لحاظ سے وہ اُن کے لیے بدتر اور شر ہے۔ قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بناکے ڈالی جائے گی وہ دولت جس میں انھوں نے بخل کیا۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہرصبح دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما (اس پردوسرا فرشتہ آمین کہتا ہے) اور دوسرا کہتا ہے، اے اللہ! خرچ نہ کرنے والے کا مال تلف فرما۔ پہلا فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جو شخص بھی سونا یا چاندی (یانقد) رکھتا ہے، اگر وہ اس کا حق (زکوٰۃ) ادا نہیں کرتا، تو جب قیامت کا دن آئے گا، اُس کے لیے اُس سونے چاندی سے آگ کی تختیاں بنائی جائیں گی۔ پھر اُن سے اُس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ جب بھی وہ ٹھنڈی پڑیں گی، دوبارہ تپائی جائیں گی۔ یہی عذاب اس کو قیامت کے پورے دن میں ہوتا رہے گا جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا، پھر وہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف جائے گا ‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
بلاشبہ زکوٰۃ، معاشرے کے محروم طبقات، غریب افراد کو سماجی، اقتصادی تعاون اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں معاونت کرتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ یہ فرض ادا کرتے وقت حقیقی مستحق کو تلاش کرکے خود اپنے ہاتھ سے ادا ئی کریں، تاکہ محروم افراد بھی معاشرے کا بہترین حصہ بن سکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔