جارج آرویل 25 جون 1903ء میں بنگال کے شیر موتی ہاری میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدایش کے بعد اس کا خاندان انگلستان منتقل ہوگیا۔
1922ء سے 1927ء تک جارج آرویل (George Orwell) نے برما میں پولیس میں ملازمت کی۔ 1927ء میں واپس انگلستان آیا اور ملازمت چھوڑ کر سپین چلا گیا، جہاں سے اُس نے کتابیں لکھنا شروع کی۔ 1936ء میں سپین میں جارج آرویل پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں اسے ایک گولی لگی اور اس کے باعث وہ دوسری جنگِ عظیم میں شرکت نہ کرسکا۔ اس کے بعد وہ سپین سے واپس انگلستان آگیا اور بی بی سی انڈیا یا پر خبریں پڑھتا رہا۔
جنگ کے خاتمے پر وہ اَدب میں دوبارہ واپس آیا۔ اس نے ’’1984‘‘ اور ’’اینمل فارم‘‘ جیسے شاہکار ناول لکھے جنھوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
21 جنوری 1950ء میں 46 سال کی عمر میں جارج آرویل کا انتقال ہوگیا۔ اُسے اُس کی وصیت کے مطابق انگلستان کے ایک گاؤں کے چرچ میں دفن کیا گیا۔
امریکیوں نے ’’1984‘‘ ناول کی 40 لاکھ کاپیاں خریدیں۔ ہمارے ہاں ادب کی حالت اس قدر زبوں ہے کہ اگر ایک ناول کو 10 سالوں میں ایک دو ہزار خریدار بھی میسر آجائیں، تو مصنف خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے۔
اس ناول کا بنیادی کردار ونسٹن نامی ایک شخص ہے، جو ایک ایسی ریاست میں زندگی گزار رہا ہے جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف جھوٹ ہے۔
یہاں اقتدار کا مالک صرف ایک شخص ہے جس کو بڑے بھائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بڑا بھائی ایک ایسا کردار ہے جس کو آج تک کسی انسانی آنکھ نے سوائے پوسٹرز کے کہیں نہیں دیکھا ہوتا۔ یہاں ریاست کا کام صرف جھوٹ پھیلانا اور اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنا ہے۔
اس ریاست کی ہر وزارت اپنے نام سے بالکل مختلف کام کر رہی ہے۔ اس ریاست کی وزارتِ صداقت کا کام جھوٹ پھیلانا ہے اور وزارتِ اُلفت کا کام تمام لوگوں کے دلوں میں نفرت بھرنا ہے۔
ریاست میں ہر طرف ٹیلی سکرینز اور مائیکروفون نصب ہیں جن سے نہ صرف لوگوں کی نگرانی کا کام لیا جاتا ہے بلکہ لوگوں کے روزمرہ کے کاموں پر بھی گہری نظر رکھی جاتی ہے۔
ریاست میں خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس بھی کام کر رہی ہوتی ہے، جس کا بنیادی مقصد یا بنیادی کام لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے خیالات کا جائزہ لینا اور اس کے مطابق قید و بند کی سزائیں دینا ہے۔
یہ ایک ایسی ریاست ہے، جہاں پر آپ ریاست کے خلاف کوئی کام کرنا تو دور ریاستی ایجنڈے کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتے۔
ریاست کے تین ایجنڈے ہیں:
٭ جنگ امن ہے۔
٭ جہالت طاقت ہے۔
٭ آزادی غلامی ہے۔
یہ ریاست یوں انسانوں کے حقوق کی علم بردار ہے، لیکن یہاں پر مختلف سوچ رکھنے والوں کو نہ صرف منظر سے غائب کر دیا جاتا ہے بلکہ کہ سرکاری کاغذات میں کسی ایسے شخص کی موجودگی کے شواہد کو بھی مٹا دیا جاتا ہے اور لوگوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اس نام کا کا کوئی شخص اس ریاست میں کوئی وجود ہی نہیں رکھتا۔
اس کہانی کا بنیادی کردار ونسٹن ہے۔ ونسٹن بنیادی طور پر اس ریاست سے نفرت کرنے والا ایک شخص ہے۔ اُس کے باپ کو بچپن میں جبری طور پر پر ریاست کی طرف سے گم شدہ کر دیا جاتا ہے۔ اُس کی ماں اوربہن بچپن ہی میں اس سے الگ ہوجاتی ہیں۔ ونسٹن کو کوئی علم نہیں ہوتا کہ ان پر کیا بیتتی ہے!
ونسٹن شادی بھی کرتا ہے، لیکن اس کی شادی زیادہ عرصہ چل نہیں پاتی۔ وہ اپنی بیوی سے طلاق نہیں لیتا۔ البتہ دونوں علاحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔
یہاں پر ریاستی ایجنڈے سے مخالفت رکھنے والے فرد کے لیے بدترین تشدد اور موت کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ یہاں پر لوگوں کے ذہنوں، ان کے کردار اور اشعار پر پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
ریاستی ایجنڈے سے اختلاف کرنے والوں کا انجام بدترین موت ہے۔ یہاں پر بنیادی انسانی حقوق کی دست یابی تو ایک طرف، البتہ بنیادی انسانی جبلتوں پر بھی پابندی ہے۔ یہاں تک کہ جنسی عمل کے دوران میں جذبات کا اظہار بھی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ کسی قسم کے جذبات، تاثرات یا احساسات جن سے یہ گمان گزرے کہ یہ ریاستی ایجنڈے سے مختلف ہے، اس کا سیدھا سادھا مطلب موت ہوتا تھا۔
یہ ریاست ایک پارٹی کے زیرِ اثر تھی ’’بِگ برادر‘‘ کے نام کا ایک افسانوی کردار اس ریاست کا حاکم تھا۔
نفرت سے بھرپور تقریریں، جنگی جنون، ملی نغموں کی گونج، جنگی قیدیوں کو سرِعام لٹکانا، مستقل نگرانی اور برین واشنگ نے بچوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی تھی جو کسی کو بھی غدار قرار دے کر اس کو موت کے منھ میں بھیج سکتی تھی ۔ بہت سارے واقعات میں والدین بچوں کی بروقت جاسوسی کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے تھے۔
اس ملک میں وفاداریاں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی تھیں جس میں ریاستی مفادات کو مدِنظر رکھا جاتا تھا۔
یہاں تین ممالک ہمیشہ حالاتِ جنگ میں رہتے تھے…… اور دو ممالک مل کر تیسرے کے خلاف نبردآزما رہتے تھے۔ اگر کسی ایک ممالک سے صلح ہوجاتی، تو دوسرے سے جنگ چھڑ جاتی تھی۔ ایسی حالت میں ریاستی مشینری کا کام یہ باتیں پھیلانا تھا کہ ہماری پہلی ریاست سے کبھی کوئی جنگ نہیں رہی اور ہماری لڑائی ہمیشہ سے دوسری ریاست سے جاری ہے۔
ریاستی مشینری جھوٹ پھیلانے، نفرت، تعصب اور مخالف ریاست دشمنی کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
ونسٹن ایک ایسا شخص ہے جو پارٹی کی منافقانہ پالیسیوں سے تنگ آچکا تھا۔ وہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو جمع کرتا ہے، اور ایک ڈائری لکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ڈائری میں لکھتے ہوئے شدید ٹینشن کا شکار رہتا ہے کہ کہیں وہ ٹیلی اسکرین کی نظر میں نہ آ جائے، لیکن اس کے باوجود وہ لکھنے کا کام شروع کر دیتا ہے۔
بعض لوگوں کو دیکھ کر ونسٹن کو یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ بھی اسی جیسی سوچ رکھتے ہیں، لیکن وہ ان سے بات کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ کیوں کہ ایسی کسی بھی بات کا منظرِ عام پر آنے کا سیدھا سادھا مطلب اس کی موت ہے۔
ایک دن ونسٹن کی ملاقات جولیا سے ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں ونسٹن کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس کی جاسوس ہے، حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ایک اینٹ اُٹھا لیتا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ جولیا کو قتل کر دے گا…… لیکن وہاں سے بچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد جولیا سے اُس کی ملاقات آفس میں ہوتی ہے، جہاں وہ اُسے ایک چٹھی دیتی ہے جس پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ اُس سے محبت کرتی ہے۔ اس کے کافی عرصے بعد وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ وہ شہر سے بہت دور ایک جگہ پر ملاقات کرتے ہیں، جہاں جولیا اُسے بتاتی ہے کہ وہ ریاست کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتی ہے، لیکن اُسے پارٹی سے شدید اختلاف اور نفرت ہے۔ وقت گزرتا رہتا ہے اور وہ شہر میں ہی ایک مکان کرائے پہ لے لیتے ہیں، جس میں وہ خلوت کے لمحات گزارتے ہیں۔ اس دوران میں وہ دونوں ریاست کے لیے کام بھی کرتے رہتے ہیں اور ان کا تعارف ایک ایسے شخص سے بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں ان کا یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ریاست مخالف گرمیوں کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ ریاست مخالف تنظیم کا ایک اہم رکن بھی ہے ۔
ایک شام جولیا اور ونسٹن کمرے میں لیٹے ہوتے ہیں کہ خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس انھیں پکڑ لیتی ہے اور وہ بدترین تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ دراصل ونسٹن کی مخبری ہوچکی تھی۔ انٹیلی جنس کے لوگ اُس کو گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئے، وہاں اس کی تفتیش ہونے لگی۔ وہاں اس کو مارا گیا۔ دانت توڑے گئے۔ کرنٹ لگایا گیا۔ کئی کئی دن تک اس کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ اس سے بدترین سلوک کیا جاتا رہا۔
وہاں اس کے سامنے بار بار کمرہ نمبر ایک سو ایک کا ذکر کیا جاتا تھا۔ اس کی حالت یہ ہوچکی تھی کہ وہ خود کو نیم مردہ جسم سمجھتا تھا۔ اس کا وزن 25 کلو کم ہو چکا تھا۔ تشدد کا مقصد انسانیت کی تذلیل تھی۔ ونسٹن کا جرم صرف سچ تھا۔ اُس پر تشدد صرف ریاست کی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے کیا جاتا تھا۔
اس موقع پر ونسٹن پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ اُس سے اُس کے اُن گناہوں کا اقرار کروایا جاتا ہے، جو اُس نے کبھی نہیں کیے ہوتے۔ اُس پر پر ریاست میں بم دھماکے کرنے والے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اُس پر خزانہ میں خرد برد کا الزام لگایا جاتا ہے، جسے تسلیم کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا۔
اس سارے تشدد کا مقصد اس کے ذہن کو تبدیل کرنا ہوتا ہے، لیکن ظلم کی انتہا کے باوجود وہ بڑے بھائی کی کی حاکمیت کو قبول نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اس سارے تشدد کے دوران میں جولیا سے محبت کے لمحات کو یاد کرتا رہتا ہے اور ایسی کسی بات کا اقرار نہیں کرتا جس سے جولیا کو کسی مزید تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ اُسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جولیا کے ساتھ کیا گزری؟
قید کے دوران میں اُس پہ یہ حقیقت بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ ریاست مخالف کسی ’’اخوان‘‘ نامی تنظیم کا کوئی وجود سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ بھی ایک ریاستی پروپیگنڈا ہے، جس کا مقصد لوگ کے دلوں میں ریاست سے لگاو پیدا کرنا ہے۔
بہر حال اسے کمرہ نمبر 101 میں لے جایا جاتا ہے، جہاں اوبرائن نامی شخص کرنٹ والی مشین کی مدد سے اس کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ تشدد اتنا سخت ہوتا ہے کہ وہ صدقِ دل سے یہ ماننے پر تیار ہو جاتا ہے کہ بڑا بھائی بر حق ہے۔ جب مشین میں تشدد کی ڈگری کو زیادہ بڑھایا جاتا ہے، تو وہ درد کے مارے یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کی جگہ یہاں پہ جولیا کو ہونا چاہیے، جس کے بعد اُسے قید سے رہائی مل جاتی ہے۔
ونسٹن کی فاتحانہ سوچ کو شکست میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ تشدد کے ساتھ دلیل کو شکست دی جاتی ہے۔ تشدد حق پر غالب آ جاتا ہے۔ اُس سے یہ اقرار کروایا جاتا ہے کہ دو اور دو چار نہیں، پانچ ہوتے ہیں…… اور یہ لازم نہیں کہ ہر بار دو اور دو پانچ ہی ہوں۔ یہ ریاست کی مرضی و منشا ہے کہ وہ دو اور دو کو تین، پانچ یا چھے کَہ دے۔ عوام کا واحد کام ریاست کی ہاں میں ہاں ملانا ہے اور اس ریاست کی نہ کو لعن طعن کرنا ہے۔
قید خانے میں اُس سے اُس کی آزادانہ سوچ چھین لی جاتی ہے۔ اُس کی نئے سرے سے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ وہ قید خانے سے نکلنے پر آزادی حاصل کرچکا ہے۔ وہ آزاد سوچ سے آزادی حاصل کرچکا ہے اور یہ بالکل پہلے سے مختلف اور نیا ونسٹن ہے۔
قید سے رہا ہونے کے بعد اسے ایک ادارے میں ملازمت بھی مل جاتی ہے اور اسے شراب کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے۔ رہا ہونے کے بعد صرف ایک دفعہ وہ جولیا سے ملتا ہے۔ جولیا بھی بالکل بدل چکی ہے۔ وہ اُس سے چند باتیں کرتا ہے، جس کے بعد وہ چلی جاتی ہے۔ وہ تھوڑی دیر جولیا کا پیچھا کرتا ہے اور پھر واپس آ جاتا ہے۔ ایک کاغذ اور پنسل لیتا ہے اور لکھتا ہے:
جہالت طاقت ہے
آزادی غلامی ہے
جنگ امن ہے
ہمارے مقدر میں یہ لکھ دیا کہ ہم جہالت کو طاقت سمجھتے رہیں۔ جنگوں کو امن سمجھ کر جنگوں کے راگ الاپتے رہیں۔ ہم اپنی روح کو فروخت کرتے رہیں اور غلامی کو آزادی سمجھیں۔
جہالت کو طاقت اور جنگ کو امن سمجھنے والوں کو غلامی مبارک ہو!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔