ایک نوجوان جس نے اپنے ’’اسٹارٹ اَپ‘‘ (Start Up) کی دلچسپ کہانی مجھ سے شیئر کی۔ اسٹارٹ اَپ کا عروج و زوال، اور پھر میرے سامنے تین آپشن رکھ کر پوچھا کہ بتائیے…… مجھے کیا کرنا چاہیے؟
کیوں کہ اس عروج و زوال کے سفر نے اُن کو اپنے فیصلہ لینے کی قوت کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا تھا۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
جب مجھے کسی بات کا مکمل علم نہ ہو، تو مَیں پھر لوگوں کو کچھ ایسے افراد کا لنک دیتی ہوں، یا انھیں اپنے محدود تجربہ کے مطابق کچھ کتابیں یا ایسے یوٹیوب چینل تجویز کرتی ہوں، جو اس کام کے ماہر ہوتے ہیں۔ سو مَیں نے انھیں ایک کتاب ’’سو گڈ دے کینٹ اگنور یو‘‘ (So Good They Can’t Ignore You) تجویز کی۔ تجویز کرتے وقت خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا ریویو دے دوں…… کیا پتا کسی کو اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت ہو۔
مَیں صرف نفسیات پر نہیں پڑھتی۔ مجھے سب سے زیادہ مسائل، وقت کا انتظام (Time Management)، کام کا انتظام (Task Management)، پروڈکٹوٹی (Productivity) اور خود نظم و ضبط (Self-discipline) کو لے کر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل مَیں نفسیات سے زیادہ ایسی کتابیں پڑھ رہی ہوں، جو میرے یہ مسائل سمجھنے میں میری مدد کریں۔ بزنس ہو…… یا زندگی کے عام مسائل، ہمیں جس سوچ اور اپروچ کی ضرورت ،ہے وہ حقیقت پسندی (Realism) اور سائنس پر مبنی ہونی چاہیے۔
جو لوگ اپنے نفسیات مسائل کو سمجھ کران پر قابو پا لیتے ہیں، پھر انھیں ان مسائل کا سامنا رہتاہے، جنھیں مَیں نے درجِ بالا پیراگراف میں بیان کیا ہے۔
لکھاری مارک مینسن کہتے ہیں کہ زندگی کا دوسرا نام مسائل ہے۔ اس لیے اس خوش فہمی میں رہنا کہ کبھی کوئی مسئلہ درد پیش نہ آئے…… محض فینٹسی ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ آپ کے مسئلے معیاری ہونے چاہیے، جیسا کہ مسائل مشرق اور مغرب دونوں جگہ ہیں لیکن دونوں جگہوں کے مسائل کا معیار مختلف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ بچے جو ٹروما، لت اور مختلف ذہنی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، وہ پروڈکٹو نہیں ہوپاتے۔ ان کی انرجی نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے میں ہی لگ جاتی ہے…… لیکن جب آپ اپنے جذبات کو پراسس کرنا سیکھ لیتے ہیں اور آپ کو خود آگاہی (Self-awareness) آجاتی ہے، تب آپ کا دھیان پروڈکٹوٹی اور اپنی مالی حالت درست کرنے کی طرف جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے ساتھ اسکا الٹ ہوتا ہے۔ ان کے مالی حالات تو اچھے ہوتے ہیں، لیکن ان کے پاس اچھے ریلیشن شپز (Relationships) نہیں ہوتے ۔ ٹروما سے گزرنے والا ہر بچہ مالی طور پر کم زور نہیں ہوتا…… لیکن زیادہ تر مالی حالات پر اثر پڑتا ہے۔
پاکستان جیسا ملک جہاں وسائل (Resources) بہت کم ہیں، وہاں محنت بھی بہت ہے…… جد و جہد اور رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں، لیکن اس کا ایک فائدہ بھی ہے (اگر کوئی دیکھنا چاہے تو……! ورنہ شکایتوں اور تنقید کا انبار لگانا بہت آسان ہوتا ہے۔) اکثر ’’سیلیکون ویلی‘‘ (Silicon Valley) میں انڈیا سے ہجرت کیے لوگوں کو امپلائی رکھنے پر اہمیت دی جاتی ہے۔ کیوں کہ انڈیا جیسے ملک میں رہنے (Survive) کرنے کے بعد انھیں امریکہ اور خاص کر ’’سیلیکون ویلی‘‘ کے مسائل بہت معمولی لگتے ہیں…… اور وہ جلدی ہمت نہیں ہارتے۔
بہت ممکن ہے کہ یہ کتاب آپ کو پاکستان جیسے غریب، مسائل سے دوچار اور اکیسویں صدی میں جد و جہد کررہے ملک کے باشندہ ہونے کی حیثیت سے غیر متعلقہ (Irrelevant) لگے…… لیکن ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ہوتا ہے۔
یہ کتاب آپ کو کیریئر (Career) سے متعلق دو قسم کے اذہان (Mindset) میں فرق بتاتی ہے، جس سکا ذکر میں آگے چل کر کروں گی۔
اب یہ بھاشن سائیڈ پر کرتے ہوئے کتاب کے ریویو کی جانب آتے ہیں۔
اس کتاب کے لکھاری ’’کال نیوپورٹ‘‘ پروفیسر ہیں کمپیوٹر سائنس کے، مشہور ہیں سوشل میڈیا کے خلاف لوگوں کو آگاہی، پروڈکٹیوٹی، کیرئیر سے متعلق مشورے اور وقت اور کام کو مینج کرنے پر تجویز دینے کے لیے۔ بے شک میرے پسندیدہ پروفیسروں میں سے ایک ہیں۔
٭ پہلا پوائنٹ:۔
کیا اپنے شوق (Passion) کو فالو کرنا ہمیشہ اچھا ثابت ہوتا ہے؟:۔ اسٹیو جابز (Steve Jobs) نے اسٹین فارڈ یونیورسٹی (Stanford University) میں ایک دھواں دار تقریر کی، جس میں انھوں نے کہا: ’’اپنے شوق کی پیروی کریں‘‘ (Follow Your Passion) اور یہ جملہ ماڈرن دنیا کا منترا بن گیا۔ لوگوں نے اس قسم کے کانٹینٹ پر وڈیوز بنائیں اور ان کے بیک گراؤنڈ میں پُرجوش قسم کی موسیقی لگائی، تاکہ آپ میں جذبہ آئے اور آپ بھی اپنا شوق فالو کرنے کے راستے پر نکل پڑیں۔ کیا معلوم ایپل جیسی کسی دوسری ٹریلین ڈالر کمپنی کے مالک آپ بن جائیں!
’’کال نیوپورٹ‘‘ کہتے ہیں کہ اگر ہم اسٹیو جابز کی حیاتی پرنظر ڈالیں، تو نوجوان اسٹیو جابز کو ٹیکنالوجی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی توجہ کا مرکز آرٹس اور روحانیت (Spirituality) تھی۔ انھوں نے اپنا زیادہ وقت ’’لوس ایلٹوس زین سینٹر‘‘ (Los Altos Zen Center) میں گزارا۔ اسٹیو نے ہندوازم اور بدھ ازم کو نہ صرف پڑھا، بلکہ وہ ان مذاہب کی پریکٹس کے دل دادہ تھے۔ اسٹیو نے ایک سال ہرے کرشنا مندر کے باہر ایک سنیاسی کی مانند کھانا مانگ کر گزارا اپنی روحانی بیداری (Spiritual Awakening) کے لیے۔
اگر اس کہانی کو مختصر کیا جائے، تو اسٹیو ایک زین بدھسٹ کی غربت والی زندگی سے تنگ آگئے تھے، اور پیسے کی کمی انھیں مجبوراً ٹیکنالوجی کی جانب لائی۔ شروع میں اسٹیو نے اپنے ساتھی (ایپل کمپنی کے بانی) اسٹیو وزنیاک (Steve Wozniak) جنھیں ٹیکنالوجی سے عشق تھا، کے ساتھ کمپیوٹر کے بزنس ڈیپارٹمنٹ کو سنبھالا۔ اسٹیو جابز تب بھی ٹیکنالوجی کے معاملے میں سنجیدہ نہیں تھے، اور بزنس کو آدھے میں چھوڑ کر سال بھر کے لیے بِنا بتائے پھر روحانی بیداری کی جانب نکل پڑے تھے۔ ٹیکنالوجی سے لین دین صرف اس لیے تھا، کیوں کہ اس سے اچھے اور تیزی سے پیسے کمائے جاسکتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ اسٹیو اور ان کے ساتھی نے اپنی ایجاد کردہ ٹیکنالوجی پر کام کیا اور اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کی۔ زیادہ پیسے آنے لگے، تو اسٹیو جابز کی دلچسپی بھی بڑھنے لگی اور وہ اپنے کام میں مزید مہارت حاصل کرنے لگے…… لیکن اسٹیو کا ارادہ اس کمپنی کو ٹریلین ڈالر بنانے کا نہیں تھا۔ وہ بس کام کررہے تھے، انھیں اس کے پیسے مل رہے تھے اور ان کا گھر چل رہا تھا۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسٹیو جابز کی تقریر کو چھوڑ کر ان کی زندگی کے سفر پر نظر ڈالیں، تو اگر انھوں نے اپنا شوق (Passion) فالو کیا ہوتا، تو کیا آج وہ ایپل جیسی ٹیکنالوجی بنا پاتے؟ بہت ممکن ہے کہ اسٹیو جابز آج ایک بدھسٹ مونک ہوتے اور کسی زین سینٹر (Zen Center) میں لیکچر دے رہے ہوتے، بقول کال نیوپورٹ کے۔
قارئین! اس کتاب کا پیغام یہی ہے کہ اپنے شوق یا اپنی پسند کو فالو کرنا ایک برا مشورہ ہوسکتا ہے…… اور اس پیچیدہ دنیا میں آپ کو فائدے کی بجائے نقصان دے سکتا ہے۔
اگر آپ نے اپنی پسند کو اپنی جاب بنالیا، تو بہت ممکن ہے کہ جاب بننے پر وہ آپ کو اس طرح سے پسند نہ رہے۔
مثال کے طور پر اگر وڈیو گیمز کھیلنا آپ کی پسند ہے اور آپ اسے اپنی جاب بنالیں اور اس سے پیسے کمانا شروع کردیں، تو بہت ممکن ہے کہ آپ کی پسند وقت کے ساتھ جاب بن جائے گی…… اور پھر بہت ممکن ہے کہ آپ اُکتاہٹ کا شکار ہوں۔ جیسا کہ برطانوی موسیقار ’’ایڈ شریں‘‘ کہتے ہیں کہ موسیقی جو کہ ان کا شوق تھا، کو کیرئیر بنانے کے بعد اپنا شوق موسیقی کے علاوہ مصوری کو بنایا۔ کیوں کہ موسیقی اب ان کی جاب ہے اور اسے پروفیشنل ہوکر اور اپنی روزی روٹی سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس لیے موسیقی سے اُکتانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ کیوں کہ آپ کا دل کرے نہ کرے، خرچے اور بل تو ادا کرنے ہیں۔ مصوری بھی آرٹ ہے…… جو انھیں ان کے میوزک کے ساتھ مزید نئے تجربے کرنے کی صلاحیت دے سکتی ہے۔
’’کال نیوپورٹ‘‘ کہتے ہیں کہ کوئی بھی کام جس پر آپ کو مہارت نہ ہو، شروع میں آپ کو تھکا دینے والا یا اکتاہٹ کا شکار کردینے والا لگتا ہے…… لیکن جب آپ کو اس پر مہارت آنے لگتی ہے، تب آپ اسے انجوائے کرنے لگتے ہیں۔
سائیکالوجسٹ ’’ایمی روزنسکی‘‘ کی ریسرچ کے مطابق لوگ جب کسی کام کو کافی عرصہ کرتے ہیں اور اس پر مہارت حاصل کرلیتے ہیں، تو انھیں وہ کام کرنے میں مزا آنے لگتا ہے۔
٭ دوسرا پوائنٹ:۔
کاریگر والی ذہنیت کا چناؤ (Developing a Craftsman Mindset):۔ اس میں کال نے ایک لفظ کیریئر کیپیٹل (Career Capital) کا استعمال کیا ہے۔
اب یہ کیریئر کیپیٹل کیا ہوتا ہے؟
’’کال نیوپورٹ‘‘ کی کتاب کے مطابق سب ایسی جاب چاہتے ہیں جو کریٹو (Creative) ہو، بااثر (Impactful) ہو، جس میں آپ کا اپنی زندگی اور شیڈول پر اختیار (Autonomy) ہو، لیکن ایسی جاب سب چاہتے ہیں اور اس کے لیے سخت مقابلہ ہے۔ اس لیے جتنے نایاب اور قیمتی ہنر (Rare and Valuable Skills) آپ کے پاس ہوں گے، اتنا ہی آپ کیرئیر کیپیٹل بنا پائیں گے…… اور آپ ان اسکلز کو کیش کر پائیں گے۔
’’کاریگر والی ذہنیت‘‘ بہت مختلف ہوتی ہے’’شوق والی ذہنیت‘‘ سے…… اور اس ذہنیت کی وضاحت میں آگے چل کر کروں گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نایاب اور قیمتی اسکلز (Skills) کون سی ہوتی ہیں؟
کال نیوپورٹ کہتے ہیں کہ کیرئیر میں دو قسم کی مارکیٹ ہوتی ہیں:
٭ ’’ونر ٹیکس آل مارکیٹ‘‘ (Winner Takes All Market): پہلی مارکیٹ وہ ہے جہاں فاتح کے حصے میں سب کچھ جب کہ ہارنے والوں کو کچھ نہیں ملتا ، یعنی”Winner Takes All Market.”
یہ وہ مارکیٹ ہوتی ہے جہاں سب اپنی قسمت آزماتے ہیں، لیکن چند ہی کامیاب ہوپاتے ہیں…… اور جو کامیاب ہوتے ہیں، وہ سب لے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کا کوئی ایک ہنر (Skill) آپ کو کامیابی کی بلندیوں پر لے جاتا ہے۔
اس والی مارکیٹ میں قسمت کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ صحیح وقت، صحیح جگہ، صحیح بندہ، صحیح کام…… یہ سب مل کر آپ کو ’’فاتح‘‘ بناتے ہیں۔
مثال کے طور پر اداکار، موسیقار، کریکیٹرز، یوٹیوبرز، میوزک انڈسٹری یا کوئی بھی ایسا کام جہاں کئی لوگ اپنی قسمت آزماتے ہیں…… لیکن یوٹیوب کا الگوریتھم یا پھر کوئی میوزک ڈائیریکٹر سب پر مہربان نہیں ہوتا۔
٭ ’’اوکشن مارکیٹ‘‘ Auction Market:۔ دوسری مارکیٹ کو اوکشن مارکیٹ کہتے ہیں…… جہاں کسی ایک ہنر کی بدولت کسی کو کامیابی نہیں ملتی یعنی”Not Winner Takes All Market.”
یہاں پر جو چیز درکار ہوتی ہے، وہ ہے مختلف ہنر کا ملاپ یعنی”Combination of Skill Set.”
آپ کے پاس کئی سارے ہنر کا ایک بہترین ملاپ ہونا چاہیے، اس والی مارکیٹ میں اپنی خواہش کی جاب کو حاصل کرنے کے لیے۔ ہم میں سے زیادہ تر اسی مارکیٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم میں سے بڑی تعداد کو بہت ممکن ہے کہ کوئی بڑا چانس (Lucky Break) نہ ملے، اس لیے اگر ہمیں اپنی جاب کو کریٹو، بااثر اور خودمختار بنانا ہے، تو اس کے لیے ہمیں قسمت کی دیوی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ہنر والے ڈبے میں مختلف لیکن ہماری جاب کو چار چاند لگانے کے لیے کچھ نئے ہنر شامل کرنے ہوں گے…… اور یہی کئی مختلف اور دلچسپ ہنر کا ملاپ "Combination of Skills Set” آپ کے ہنر کو قیمتی اور نایاب یعنی”Rare and Valuable” بناتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ ڈاکٹر ہیں اور بہت اچھے نمبر حاصل کرکے ڈاکٹر بنے ہیں، تو صرف نمبر لینے سے بات نہیں بنتی۔ کوئی بھی ڈاکٹر وقت کے ساتھ پریکٹس سے قابل ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ اگر تو آپ کے اچھے رابطے (Contacts) ہیں۔ اچھی نیٹ ورکنگ (Networking) ہے۔ آپ ایک خوش مزاج اور اچھی گفت گو کرنے کا فن جانتے ہیں…… اور آپ کو مارکیٹنگ آتی ہے، تو یہ اسکلز ایک ڈاکٹر کے پاس ہونا یقینا عام نہیں ہوتا۔ یہ سب آپ کو نایاب اور قیمتی (Rare and Valuable) بناسکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ ایک انجینئر ہیں لیکن آپ کے پاس کمال کی مارکیٹنگ اسکلز اور اچھی گفت گو کا انداز ہے اور آپ نے انجینئرنگ کے ساتھ بزنس کو بھی سمجھا ہے، کیوں کہ بزنس میں آپ کو دلچسپی ہے، تو بہت ممکن ہے کہ یہ ملاپ آپ کو فائدہ دے جائے۔ کیوں کہ عموماً انجینئرز کے پاس اس قسم کی اسکلز ہونا اتنا عام نہیں ہوتا۔
یا پھر مثال کے طور پر آپ ریاضی (Maths) کے استاد ہیں اور ٹین ایجرز کو پڑھاتے ہیں۔ آپ کو نیوروسائنس یا نفسیات پڑھنے میں دلچسپی ہے۔ یہ آپ کا شوق ہے اور آپ ٹین ایجرز کی نفسیات کو اور ان کے دماغ سے متعلق معلومات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا پڑھانے کا انداز مختلف ہے اور بچے اس انداز کو پسند بھی کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے انھیں بہتر ریاضی سمجھ آرہی ہے، تو بہت ممکن ہے کہ آپ کے ادارے کو آپ جیسا ٹیچر اتنی آسانی سے نہ ملے۔ کیوں کہ نفسیات اور ریاضی کا ملاپ کافی منفرد ہے۔
قارئین! لیکن ہر ملاپ اچھا نہیں ہوتا۔ اگر ایک وکیل کو وڈیو گیمز کھیلنے کا شوق ہے اور وہ کافی وقت وڈیو گیمز پر لگاتا ہے، تو شاید اسے اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچے۔
عوامی فنِ تقریر (Public Speaking)، ٹیم ورک (Team Work)، اچھی گفت گو کا فن، کوڈنگ (Coding)، وڈیو ایڈیٹنگ، گفت و شنید (Negotiation)، آرٹی فشل انٹیلی جنس (Artificial Intelligence)، لکھنا (Writing)، شماریاتی تجزیہ (Statistical Analysis) وغیرہ وغیرہ جیسے ہنر کے لیے کسی خاص مضمون کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ اسے سیکھا جاسکتا ہے…… اور یہ آج کے دور سے مطابقت رکھتے ہیں۔
قارئین! زیرِ تبصرہ کتاب میں کیس اسٹڈیز ہیں، لیکن مَیں نے آسان الفاظ میں مثالیں دی ہیں۔
٭ تیسرا پوائنٹ، اپنے کیریئر کیپٹل کو کیش کرنا اور اپنی جاب اور زندگی پر کنٹرول:۔ آپ کی جاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ اسے کتنا انجوائے کررہے ہیں؟ انجوائے کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے ادارے یا آفس میں کتنا اختیار رکھتے ہیں؟
اگر تو آپ کو اس بات کا اختیار نہیں کہ آپ نے کب، کیا، کیسے اور کہاں کرنا ہے…… اور آپ زیادہ تر صرف حکم بجا لانے کا کام مطلب کے اوپر سے ملنے والے آرڈرز کو فالو کرتے ہیں، تو ایسی جاب کو انجوائے کرنا یقینا ناممکن ہے۔
ایسا عموماً تب ہوتا ہے جب آپ جونیئر ہوتے ہیں کسی ادارے، فیلڈ یا آفس میں…… (اور عموماً یہی وہ اسٹیج ہوتا ہے کہ ہر کسی کو اپنے بزنس کا خیال آتا ہے۔ کیوں کہ ایک تو جاب ایسی اوپر سے زیادہ پیسے بھی نہیں۔)
لیکن یہاں کام آتی ہے کاریگر والی ذہنیت (Craftsmen Mindset) جو کہ پیشن مائنڈ سیٹ (Passion Mindset) سے بالکل مختلف ہے۔
وہ لوگ جو اپنے کام میں جذبہ ڈھونڈا چاہتے ہیں اور کام کے شرعاتی دنوں میں کام کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں، وہ دراصل ’’پیشن مائنڈ سیٹ‘‘ (Passion Mindset) کے لوگ ہوتے ہیں، جو یہ سوچتے ہیں کہ دنیا انھیں کیا دے سکتی ہے……! جب کہ کاریگر ذہنیت والے افراد (Craftsman Mindset) سوچتے ہیں کہ وہ دنیا کو کیا آفر کرسکتے ہیں؟
ایسے لوگ اپنی اسکلز کو پالش کرنے اور انھیں مزید اہم (Valuable) بنانے میں مصروف رہتے ہیں، تاکہ وہ اپنی نایاب اور قیمتی اسکلز دنیا کو آفر کرسکیں…… اور پھر ان اسکلز کو اپنی زندگی اور جاب کو کنٹرول کرنے کے لیے کیش کرسکیں۔ پھر یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے باس کے سامنے اپنی ڈیمانڈ رکھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے کام کو اس طرح سے انجام دیتے ہیں کہ باس چاہ کر بھی ان جیسا ڈھونڈ نہیں سکتا۔
جب کہ پیشن مائنڈ سیٹ والے شروع کے چند دن جوش میں آکر اپنا پیشن فالو کرتے ہیں…… لیکن چوں کہ اسکل پالش ہونے میں وقت لگتا ہے…… اور وہ مختلف ہنر کو سیکھ کر ایک اسکل سیٹ کو بنانے پر ترجیح نہیں دیتے…… اور پھر وہ سب نہیں ملتا، جو سوچا تھا، تو انھیں اپنی جاب سے ہمیشہ نفرت رہتی ہے۔
’’کرافٹس مین‘‘ ذہنیت والے وقت کے ساتھ اپنی جاب کو انجوائے کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ ان کے ہنر میں بہتری (Improvement) لانے کا سفر ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ وہ اپنے کام کے ماہر ہونے لگتے ہیں۔ اتنے ماہر کہ جاب مارکیٹ انھیں اگنور نہیں کرسکتی۔ اس لیے کال کہتے ہیں کہ ’’اتنے بہتر بنو کہ تمھیں کوئی اگنور نہ کرسکے۔‘‘
کتاب میں اپنے ہنر کو بہتر بنانے کے لیے تین اہم باتیں یہ ہیں:
٭ کاریگر والی ذہنیت (Craftsmen Mindset)
٭ مشکل پروجیکٹز/ اسکلز کا چناؤ (Challenging Projects)
٭ بالارادہ مشق (Deliberate Practice)
ویسے تو سب سے آئیڈیل جاب وہ ہے جہاں آپ کو نہ صرف نئی اسکلز سیکھنے کے لیے آمادہ کیا جائے بلکہ اس کے پیسے بھی دیے جائیں!
سارا مزہ سیکھنے میں ہے ۔
٭ چوتھا پوائنٹ:۔
٭ جاب میں مقصد ڈھونڈنا (Finding a Mission):۔ کال کہتے ہیں کہ اگر طویل المدت (Long-term) میں آپ کی جاب معنی خیر (Meaningful) ہے اور اس کا کوئی مقصد ہے، تو آپ اپنے کیریئر کو بہتر طور پر انجوائے کرسکیں گے۔ اور مقصد (Purpose) عموماً کسی بھی فیلڈ میں تب ملتا ہے، جب آپ اس فیلڈ کے گیم کو کھیلنے کے ماہر ہوجاتے ہیں۔ یہ مقصد آپ کو اپنی جاب کے اس موڑ (Cutting Edge) پر ملتا ہے جب آپ ایڈوانس اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں۔
ہنر کو پالش ہونے میں وقت لگتا ہے…… اور ساتھ میں مختلف ہنر کو ملاتے رہنا آپ کے کام کو قیمتی اور نایاب (Rare and Valuable) بناتا ہے۔
٭ آخر میں میرا تجزیہ:۔ یہ کتاب اُن بچوں کے لیے ضروری ہے جن کے پاس اسکل کوئی نہیں، تجربہ کوئی نہیں لیکن بزنس کا یا پھر یوٹیوب یا کسی بھی آن لائن سائٹ پر گھر بیٹھ کر پیسے کمانے کا شوق چڑھا ہواہے…… یا پھر جنھیں یہ شوق ہے کہ وہ اپنے شوق کو اپنا کیریئر بنا لیں…… یا پھر جنھیں لگتا ہے کہ بنا کسی قیمتی ہنر، تجربہ، ڈھنگ سے اپنا کام کیے، بنا اپنی اہمیت (Worth) بنائے دنیا ان کو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھائے اور ان کو راتوں رات مشہور کردے۔ کیوں کہ وہ کسی باس کی یا نوکری کی غلامی نہیں کرنا چاہتے۔
شارٹ کٹ اور دو نمبر سے دولت بنانے کا چانس بھی قسمت والوں کو ملتا ہے نوجوانو! اس لیے آپ جیسے اور میرے جیسوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ
"So Good They Can’t Ignore You.” یعنی اتنا بہتر بنو کہ کوئی تمھیں نظر انداز نہ کرسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔