اللہ تعالا نے دنیا بھی کیا چیز بنائی ہے۔ انسان کو مٹی سے پیدا کرکے پھر اسی مٹی میں ملا دیا جاتا ہے۔ لوگ دنیا میں آکر کوئی گم نامی کی زندگی گزار جاتا ہے، تو کوئی اپنا نام پیدا کرجاتا ہے۔
دنیا میں اتنے سٹیج بنے ہوئے ہیں کہ ہر سٹیج کا اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرکے چلتا بنتا ہے۔ دنیا جب ہے ہی فانی، تو پھر اس نے ایک نہ ایک دن فنا ہونا ہے…… مگرفنا ہونے سے پہلے یہ خوشی اور غمی انسانوں میں بانٹتی رہتی ہے۔
آج ادب کی دنیا کا ایک اور باب بند ہوا۔ معروف شاعر اور ڈراما نویس امجد اسلام امجدؔ لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے ہیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے، مگر ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔
4 اگست 1944ء کو لاہور میں جنم لینے والے امجد اسلام امجدؔ کا شمار پاکستان کے مشہور ادیبوں میں ہوتا تھا۔ 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے (اُردو) کیا۔ 1968ء تا 1975ء ایم اے اُو کالج لاہور کے شعبۂ اُردو میں استاد رہے۔
امجد اسلام امجدؔ کا شمار اُردو کے بہترین اساتذہ میں ہوتا ہے۔ امجد اسلام امجدؔ اور عطاء الحق قاسمی دونوں ہی ایم اے اُو کالج میں اُردو پڑھاتے رہے ہیں۔ 1975ء میں پنجاب آرٹس کونسل کے قیام کے بعد امجد اسلام امجدؔ کو اس ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔اس کے علاوہ وہ پاکستان ٹیلی وژن سے منسلک رہنے کے علاوہ چلڈرن کمپلیکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی رہے۔
امجد اسلام امجدؔ نے 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں پاکستانی ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، جنھوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، جن میں ’’وارث‘‘، ’’دہلیز‘‘، ’’سمندر‘‘، ’’دن‘‘، ’’فشار‘‘ اور ان جیسے کئی ڈراما سیریل شامل ہیں۔
امجد اسلام امجدؔ کا شمار پاکستان میں غزل اور نظم کے ایسے شعرا میں ہوتا تھا جن کی مقبولیت ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی یکساں تھی۔ وہ 20 سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔
امجد اسلام امجدؔ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں 1987ء میں صدارتی تمغائے حسنِ کارکردگی اور 1998ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ پی ٹی ایوارڈ اور نگار ایوارڈ سے بھی انھیں نوازا گیا۔
امجد اسلام امجد لاہور اور پاکستانی ادب کا چہرہ تھے۔ ایسا چہرہ جو پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا تھا۔ لوگ ان سے محبت کرتے تھے اور محبت ان کو صرف ملتی ہی نہیں تھی، وہ اس محبت کو بانٹتے بھی تھے۔ ہنر مند لوگوں کو پہچاننا اور پروموٹ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ امجد اسلام امجدؔ ایک بہترین سفر کے ساتھی تھے۔
امجدؔ ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس کے اندر کسی قسم کا غرور نہیں تھا۔ وہ ہر کسی سے ملتے تھے۔ جونیئرز کو عزت دیتے تھے اور ہر لکھنے والے کو دوست سمجھتے تھے۔ جس محفل میں بھی امجد اسلام امجدؔ موجود ہوتے تھے، وہاں قہقہے گونجتے تھے۔ ان کی جملے بازی اور مِزاح مشہور تھا۔ بوڑھا یا جوان ہر بندہ امجد اسلام امجدؔ کا دوست بننے میں دیر نہیں لگاتا۔
ان کا یہ شعر بہت اچھا ہے…… اور ا ن کے متعلق جو لکھا گیا وہ اس شعر میں موجود ہے۔
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سوہم
تمھارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
امجد اسلام امجدؔ کی وفات پر آج ہر آنکھ اشک بار ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر طرف امجد اسلام امجدؔ کا ہی ذکر ہے۔ ہر بندہ ان کے گن گا رہا ہے۔
بقولِ فیضؔ
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

۔