عوام کے مسائل، وہ کیا ہوتے ہیں اور کیوں ہوتے ہیں؟ ہمارا اس سے کیا تعلق، عوام جانیں اور ان کے مسائل۔ ہم نے ووٹ مفت میں تھوڑی لئے ہیں؟ روکھڑا لگتا ہے روکھڑا۔ ہمارے ذہنوں میں تو بھئی حکمرانوں کا یہی ایک امیج بنا ہوا ہے، اور بالکل ٹھیک بنا ہوا ہے۔ بااثر لوگ جب منتخب ہوکر مزید بااثر بن جاتے ہیں، تو وہ بالکل ایسا ہی سوچتے ہیں۔ آئین تو ان کے لیئے جیسے گوندھا ہوا آٹا ہے۔ اپنی ضرورت کے مطابق چاہے جس بھی شکل میں ڈھال لیں، اپنی تنخواہوں، آسائشوں اور استحقاق کی بات آئے، تو کھینچ کر جتنا مرضی لمبا کرلیں، بھلے کاٹ کھائیں۔ عوام کے حقوق کی بات آئے، تو یہ آٹا دپکا کے بٹھا دیا جاتا ہے۔ کتنوں کو علم ہے کہ آئین کی کون کون سی شق آپ کے حقوق کی بات کرتی ہے؟ جی بالکل، معروف بیانیے اور اس کے نعروں سے ہمیں بھی تو فرصت نہیں۔ کیسے معلوم ہو؟ نہ معلوم ہے اور نہ کبھی کسی نے بتایا۔ اس موضوع پر کیوں بات کریں آخر! ہمارے ہاں، جہاں عوام کو حقوق دینے کی بات آئے حکمران جو کہ اصل میں عوامی نمائندے ہوتے ہیں، ان کے منھ سُرخ اور آنکھیں بھینگی ہوجاتی ہیں۔ کسی لمبی سوچ میں گُم ہوجاتے ہیں اور پھر وہ گُم ہی رہتے ہیں۔ کوئی سوال پوچھ لے، تو اس کا جواب ہوتا ہے اور نہ اتنا حوصلہ بن پڑتا ہے کہ عوام سے مزید کوئی جھوٹ بولیں، سچ آخرِکار نکل ہی آتا ہے ۔
اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں سوہان کی ہی مثال لے لیجیے۔ اسلام آباد کا نام سن کر قارئین کے ذہن میں یہ آرہا ہوگا کہ اسلام آباد میں بھی کوئی گاؤں ہوتا ہے؟ جب شہرِ اقتدار کا نواحی گاؤں ہے، تو یقیناً مثالی ہوگا، دیکھنے سے تعلق رکھتا ہوگا، لیکن معاملہ بالکل الٹ ہے۔ ’’سوہان‘‘ گاؤں جب سے وجود میں آیا ہے، تب سے ہی مسائل کے انبار تلے دبا ہے۔ آپ پختونخوا چلے جائیں یا پنجاب، بھلے سندھ کے کسی خستہ حال گاؤں کا رُخ کرلیں، یقین مانیں آپ کو وہ اسلام آباد کے اس گاؤں سے بہت بہتر معلوم ہوگا۔ مجھے یہاں کے نمائندوں، لوکل اورنیشنل اسمبلی کے دونوں سے اتنی شکایت نہیں ہوگی جتنی کہ یہاں رہنے والے ہر ظلم اور زیادتی سہنے والے شہریوں سے ہے۔ ویسے معذرت کے ساتھ جتنا مظلوم میں شہریوں کو بنا کر پیش کر رہا ہوں، یقینا وہ اس کے بالکل بھی حق دار نہیں ہیں۔ جو عوامی نمائندہ اپنے عوام جس سے کہ وہ ووٹ لے کر آج اس مقام تک پہنچا ہے، وہ علاقے میں ایک لمبے عرصے سے ترقیاتی کام نہ کروانے کی یہ توجیہہ پیش کرے کہ میں کیوں کام کرواؤں؟ میں نے تو ووٹ خریدے اور اب اس کی قیمت پوری کرنے کا وقت ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پچھلے ہی دنوں انگریزی اخبار میں ایک خبر نظر ے گزری جس کا تعلق علاقے کی خستہ حالی سے تھا، تو ایک شہری نے یہ بات بہت دھڑلے سے اسلام آباد کے حلقے این اے 49 سے جیتے ہوئے حکمران جماعت کے ایم این اے اور منسٹر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے منسوب کی۔ یہی نہیں، جب علاقے کے دیگر مکینوں سے دریافت کیا، تو یہی بات سننے میں آئی۔ مزید یہ کہ کچھ ایسے لوگ بھی ملے جنہوں نے اپنے ووٹ کی ایک خاص قیمت وصول کی ہوئی تھی۔ یہ صورتحال دیکھنے کے بعد مجھے ان عوام سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہے جو اپنے ووٹ کو ایک ڈکٹیٹر نما ڈیمو کریٹک عوامی نمائندے کے قدموں کی خاک سمجھ کر نچھاور کردیتے ہیں اور اس کی قیمت وصول کرلیتے ہیں۔
لوکل نمائندوں نے بھی کون سی ایسی کسر نہیں چھوڑی عوام کے حقوق سلب کرنے کی؟ ایک تو ترقیاتی و فلاح کے کاموں کی مد میں ملنے والے فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ دوسری جانب مختلف طریقوں سے عوام کو مزید پریشان کئے ہوئے ہیں۔ مئیر اسلام آباد کے مطابق شہر میں بہت پہلے سے ہی شہریوں سے ٹیکس کی وصولی کا نظام ختم کیا جاچکا تھا۔ چند ایک مقامات پر اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف ابھی تو صرف نوٹیفیکیشن جاری کرکے ان چونگیوں کو روکنے کی تنبیہ کی گئی ہے لیکن اگر غیر قانونی چونگیاں جاری رہیں، توبہت جلد اس کے خلاف بھرپور ایکشن دیکھنے میں آئے گا۔ مئیر کا یہ کہنا تو درست مگر مئیر سے یہ سوال کرکے کوئی جائے کدھر کہ شہر میں ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز کہاں رُکے ہوئے ہیں؟ آخر کب عوام کی ہائے ان کے بند کانوں کے پردے پھاڑے گی؟ ہمیں اس دن کا انتظار رہے گا۔
اچھا تو بات ہو رہی تھی چُنگی کی مد میں گاؤں کے ہر داخلی راستے پر شہریوں سے پیسوں کی وصولی کی۔ مئیر اسلام آباد کی اس خبر کے مطابق تو اس ٹیکس وصولی کو غیر قانونی قرار دے چکے، اس حکم نامے جو کہ مخصوص یوسیز کے چیئرمینوں کے نام جاری کیا گیا تھا، سے ٹیکس کی وصولی کی حیثیت غیر قانونی اور نجی رہ جاتی ہے، مگر اسی اخبار کے مطابق یو سی 21 کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکس وصولی بالکل قانونی ہے اور انہوں نے فی الحال ایک نجی پارٹی کو یہ ٹینڈر دیا ہے اور اس کی مد میں سالانہ تقریباً تیس لاکھ سے زائد کی رقم وصول ہوتی ہے۔ چیئرمین صاحب کی یہ بات سن کر میں تھوڑا جذباتی ہوگیا کہ یہ رقم عوام کے ہی اوپر خرچ ہوتی ہے جبکہ یونین کونسل کے دفتری اخراجات بھی اسی سے پورے کئے جاتے ہیں۔ حیرانی تو تب ہوئی کہ یہ کون سا سرکاری دفتر ہے جس کے اخراجات اس قدر ہیں کہ عوام کا خون چوسے ختم نہیں ہو رہے۔ ویسے اگر اس معاملے کا تعلق عوام کے ساتھ دھوکا دہی سے نہ ہوتا اور اس رقم کا نصف بھی اس علاقے کی خوشحالی کے لئے صرف ہورہا ہوتا، تو شائد میں آج اس گاؤں کے قصیدے لکھ رہا ہوتا مگر کیا ہے نا، اس قدرمسائل سے بھرا گاؤں اس بات پر خاموش ہے کہ انہوں نے وہاں رہنا ہے، اپنے حق میں آواز اُٹھا دی، تو وہاں رہنا مشکل ہوجائے گا۔
میرا خیال یہ ہے کہ بنیادی سوال کرنے سے کوئی کسی کو زک پہنچائے، یہ بات تو بالکل ماننے قابل نہیں ہے۔ عوام کو اپنے مسائل پر بھرپور طریقے سے آواز اُٹھانی چاہئے۔ بھلے ووٹ بیچ ڈالا مگر اب بھی آپ اپنے نمائندے کے زرخرید غلام نہیں بن گئے۔ اس کی حیثیت اب بھی آپ کے خدمتگار کی سی ہے۔ اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے تو۔ مقامی نمائندوں سے سوال یہ ہے کہ چونگی کی مد میں جتنی بھی رقم صرف ہوئی اس کا حساب دیا جائے اور آئندہ جو بھی رقم علاقے پر لگے، اس کے لئے بھی مسائل پر ووٹنگ کرائی جائے۔ سب سے بڑا مسئلہ سب سے پہلے حل ہو اور اسی طرح باقی مسائل کی طرف رُخ کیا جائے۔ طریقہ کار تو یہ ہے مگر کیا ہے نا، ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے اور ہم ٹھہرے بھولے بادشاہ…… نہ سوال نہ جواب، بس گُم سم۔ اور چند ایک ووٹ لے کر خود کو بہت طاقتور سمجھنے والوں سے گزارش ہے کہ زمین پر آئیں۔ اپنے جیسوں کے مسائل حل کریں۔ آسمان سے گرے تو بہت برا گریں گے۔ یہ کہنا چھوڑ دیں کہ عوام ٹھیک نہیں ہیں۔ عوام تعاون نہیں کرتے۔ عوام تعاون کسی وجہ سے نہیں کرتے۔ شائد کہ وہ آپ پر اعتماد کھو بیٹھے ہوں۔ یاد رکھئے، عوام کے تعاون سے ہی آپ آج عوام کے نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اور کتنا تعاون مانگتے ہیں آپ!
…………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔