عابد بیگ صاحب سے میرا پہلا تعارف اُن کی شان دار آواز کے ذریعے ہوا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ سہیل ضرار صاحب کے حلقۂ احباب میں شامل ہیں، تو ملاقات کی خواہش ہوئی۔ چند ماہ پہلے ساؤتھمپٹن کے مشاعرے میں اُن سے پہلی بار ملا تو طبیعت سرشار ہوگئی۔
عابد بیگ صاحب کی شخصیت بھی اُن کی پُرتاثیر آواز کی طرح نفیس اور پُروقار ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے مجھے اپنی کتاب ’’قومی ترانہ، فارسی یا اُردو‘‘ عنایت کی۔ کتاب پڑھ کر مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ حفیظ جالندھری نے موجودہ قومی ترانے سے پہلے بھی ایک ترانہ 1949ء میں لکھا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب احمد علی غلام علی چھاگلا نے ترانے کی دھن بھی ابھی ترتیب نہیں دی تھی۔ 1950ء میں جب ہمارے قومی ترانے کی دھن ترتیب دی گئی، تو قومی ترانہ کمیٹی نے مختلف شاعروں کو اس دھن پر ترانے لکھنے کی دعوت دی جس کے بعد کمیٹی کو 723 ترانے موصول ہوئے۔ ان ترانوں میں سے حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے ترانوں کو منتخب کیا گیا۔ ان میں حفیظ جالندھری کا ترانہ بہترین قرار پایا، کیوں کہ یہ سادہ، مترنم اور حب الوطنی کا آئینہ دار تھا۔
عابد بیگ صاحب نے حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے ترانوں کو بھی تلاش کرکے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ آپ ان دو ترانوں کو پڑھیں گے، تو آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ حفیظ جالندھری کا ترانہ کیوں قومی ترانے کے طور پر منتخب کیا گیا؟ اس قومی ترانے کی منظوری اگست 1954ء میں دی گئی جس کے بعد سے اب تک یہ ترانہ ہم پاکستانیوں کے لہو کو گرما رہا ہے۔ 40 الفاظ پر مشتمل اس ترانے میں 24 الفاظ عربی اور 15 لفظ فارسی کے ہیں۔ جب اس ترانے کی منظوری دی گئی،تو اس وقت ہماری قوم اُردو، عربی اور فارسی کے الفاظ سے زیادہ مانوس تھی لیکن موجودہ حالات میں اس پر انگریزی کے الفاظ کا غلبہ زیادہ ہو رہا ہے، تو اس لیے بہت سے لوگ یہ واویلا کرنے لگے ہیں کہ پاکستان کا قومی ترانہ فارسی میں ہے جو سراسر لا علمی کا نتیجہ ہے۔ عابد بیگ صاحب نے نہ صرف اپنی علمی اور تحقیقی جستجو سے اس مغالطے کو دور کیا ہے، بلکہ اس بحث کو انتہائی مدلل انداز سے سمیٹ دیا ہے کہ قومی ترانے کے تمام چالیس الفاظ اب اُردو زبان کا حصہ ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے تقریباً 228 شاعروں کے منتخب اشعار اور تقریباً 403 کتابوں اور رسائل کے حوالے دیے ہیں۔
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جنھیں قیامِ پاکستان اور آزادی کے حصول کے مقاصد تو بھول گئے، لیکن صرف 14 اگست یاد رہ گیا ہے۔ اسی طرح ہماری بدنصیبی یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے قومی ترانے کو فراموش کردیا اور صرف اس کی دھن یاد رہ گئی۔ ہمیں عابد بیگ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے اس قدر معلوماتی اور دل چسپ کتاب ترتیب دیں جس میں پڑھنے اور حیران ہونے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایسی معلوماتی اور تحقیقی کتابیں ہمیشہ زندہ رہتی اور حوالے کے طور پر کام آتی ہیں۔ ہم سب کے پاس اس کتاب کی ایک جلد ضرور محفوظ ہونی چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔