قرآنِ کریم، انسانیت کی ہدایت کا پیغام

21 جنوری کو ’’سویڈن‘‘ کے دارالسلطنت ’’اسٹاک ہوم‘‘ میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے والے ’’راسموس پالوڈان‘‘ نے تقریباً 2 ارب مسلمانوں کی دل آزاری، اہانت اور نفرت پر مبنی شیطانی کام کرتے ہوئے اللہ کی عظیم کتاب کے نسخے کو جلایا۔ اس واقعہ کے بعد 27 جنوری جمعہ کے روز اِس ملعون شخص نے یورپ کے ایک دوسرے ملک ’’ڈنمارک‘‘ کے دارالسلطنت ’’کوپن ہیگن‘‘ میں ایک مسجد کے سامنے اور پھر ترکی کے سفارت خانہ کے سامنے جاکر مسلمانوں کی مقدس کتاب کو جلایا۔
’’راسموس پالوڈان‘‘ ڈنمارک اور سوےڈن دونوں ممالک کی بیک وقت شہریت رکھتا ہے۔ اس نوعیت کی انتہا پسندی کا ایک واقعہ نیدرلینڈ میں بھی پیش آیا۔ گذشتہ سال بھی یورپ کے ممالک میں قرآن سوزی کے قابل مذمت و لعنت واقعات پیش آئے تھے۔ اپنے ذاتی یا کسی بھی طرح کے مفادات کے لیے قرآنِ کریم یا کسی دوسرے مذہب کی مقدس کتاب کو جلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعات وہاں کی حکومت کی مرضی کے بغیر رونما نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے دنیا کے مختلف ممالک میں ان ممالک کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے۔
نہ صرف مسلمان بلکہ عقلِ سلیم رکھنے والا ہر شخص اس طرح کے واقعات کی مذمت کررہا ہے۔ دنیا میں امن وسکون کے ظاہری ٹھیکیدار مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب کو نذرِ آتش کرنے کی مذموم کوششیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت وتعصب کی وجہ سے ہے جو اسلام مخالف طاقتیں اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نوعیت کے واقعات رونما کراتی ہیں۔ ہم ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ کسی بھی مذہبی کتاب یا مذہبی رہنماکے خلاف اس نوعیت کے واقعات پر سزا کے لیے سخت قانون بنایا جائے۔ کیوں کہ اس طرح کے واقعات سے دنیا میں امن و اماں کے بجائے افراتفری، عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ ہی ہوگا، جس سے لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا ہوگی۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے موقع پر قرآنِ کریم کے متعلق اپنے قول و عمل سے عام لوگوں کو بتائیے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے جو صرف اور صرف انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں دہشت گردی کی نہیں بلکہ امن وسکون کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآنِ کریم کے اعلان کے مطابق کسی شخص کو مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔
٭ قرآن کیا ہے؟:۔ قرآنِ کریم اللہ تعالا کا پاک کلام ہے جو اللہ تعالا نے قیامت تک آنے والے انس و جن کی رہنمائی کے لیے آخری نبی حضورِ اکرم پر وحی کے ذریعے عربی زبان میں 23 سال کے عرصہ میں نازل فرمایا۔ قرآنِ کریم اللہ تعالا کی صفت ہے، مخلوق نہیں اور وہ لوحِ محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔
٭ قرآنِ کے نزول کا مقصد؟:۔ اللہ تعالا نے قرآنِ کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے مگر اللہ تعالا سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے: ’’یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہدایت ہے (اللہ سے) ڈر رکھنے والوں کے لیے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت 2)
٭ قرآن کریم کس طرح اور کب نازل ہوا؟:۔ ماہِ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالا نے لوحِ محفوظ سے سما دنیا (زمین سے قریب والا آسمان) پر قرآنِ کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت تھوڑا تھوڑا حضورِ اکرمؐ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23 سال کے عرصے میں قرآنِ کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآنِ کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ کی عمرِ مبارک چالیس سال تھی۔ قرآنِ کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اُتریں، وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں۔ (ترجمہ): ’’پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمھارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں آیا تھا، آپ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ پر نازل فرمائیں۔ (ترجمہ): ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔‘‘
اس کے بعد حضورِ اکرم کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً 23 سال کے عرصہ میں قرآنِ کریم مکمل نازل ہوا۔
٭ قرآنِ کریم کس طرح ہمارے پاس پہنچا؟:۔ آپ، صحابۂ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انھیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام کو قرآنِ کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چناں چہ ہمیشہ صحابۂ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرض یہ کہ قرآن کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے حفظِ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔ قرآنِ کریم کی حفاظت کے لیے حضورِ اکرم نے قرآنِ کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا۔ چناں چہ نزولِ وحی کے بعد آپ کاتبینِ وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں کاغذ دست یاب نہیں تھا۔ اس لیے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔
حضورِ اکرم کے زمانے میں جتنے قرآنِ کریم کے نسخے لکھے گئے تھے، وہ عموماً متفرق اشیا پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظِ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآنِ کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ابتدا میں اس کام کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن شرحِ صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لیے تیار ہوگئے اور کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم و عظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔ حضرت زید بن ثابت خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سیکڑوں حفاظِ قرآن موجود تھے ،مگر انھوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضورِ اکرم نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابت نے انہیں یکجا فرمایا تاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ و تابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی۔ صحابۂ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم سے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قرات کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضورِ اکرم سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالاں کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآنِ کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق کے تیار کرائے ہوئے) جو صحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چناں چہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآنِ کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چناں چہ قرآنِ کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا، تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردیے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآنِ کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لیے قرآنِ کریم پر نقطے و حرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدِ نظر قرآنِ کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوتِ قرآن کی سہولت کے لیے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔
٭ قرآنِ کریم میں کیا ہے؟:۔ علمائے کرام نے قرآنِ کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطعِ نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے:
1:۔ عقائد۔
2:۔ احکام۔
3:۔ قصص۔
قرآنِ کریم میں عمومی طور پر صرف اصول ذکر کیے گئے ہیں لہٰذا عقائد و احکام کی تفصیل احادیثِ نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآنِ کریم کے مضامین کو ہم احادیثِ نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
٭ عقائد:۔ توحید، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآنِ کریم نے بہت زور دیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان، جزا و سزا، جنت و دوزخ، عذابِ قبر، ثوابِ قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف عقیدوں پر قرآنِ کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
٭ احکام:۔ اس کے تحت مندرجہ ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں:
عبادتی احکام: نماز، روزہ، زکات اور حج وغیرہ کے احکام و مسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائی کے حکم کے ساتھ ہی عموماً زکات کی ادائی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔
معاشرتی احکام: مثلاً حقوق العباد کی تفصیلات۔
معاشی احکام: خرید و فروخت، حلال اور حرام اور مال کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔
اخلاقی و سماجی احکام: انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام و مسائل۔
سیاسی احکام: حکومت اور رعایا کے حقوق سے متعلق احکام و مسائل۔
عدالتی احکام: حدود و تعزیرات کے احکام و مسائل۔
٭ قصص:۔ گذشتہ ابنیائے کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔
قرآنِ کریم کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟:
٭ تلاوتِ قرآن: اللہ کے کلام کو پابندی سے پڑھیں۔
٭ حفظِ قرآن: اللہ کے کلام کی کم از کم چند سورتیں زبانی یاد کریں۔
٭ قرآن فہمی: علمائے کرام کی صحبت میں رہ کر قرآنِ کریم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
٭ العمل بالقرآن: یہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالا کی دی ہوئی ہدایت کی تطبیق ہے اور اسی میں بنی نوع انسانی کی دنیاوی و اخروی سعادت مضمر ہے، اور نزولِ قرآن کی غایت ہے۔ اگر ہم قرآنِ کریم کے احکام پر عمل پیرا نہیں، تو گویا ہم قرآنِ کریم کے نزول کا سب سے اہم مقصد ہی فوت کررہے ہیں۔ لہٰذا جن امور کا اللہ تعالا نے حکم دیا ہے ان کو بجا لائیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے رُک جائیں۔
٭ قرآنی پیغام کو دوسروں تک پہنچانا: امت مسلمہ پر یہ ذمے داری عائد کی گئی کہ اپنی ذات سے قرآن و حدیث پر عمل کرکے اس بات کی کوشش اور فکر کی جائے کہ ہمارے بچے، خاندان والے، محلہ والے، شہر والے بلکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اللہ کو معبودِ حقیقی مان کر قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بن جائے۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں قرآن وحدیث کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا، ہمیں قرآنِ کریم سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا، جو تلاوت، حفظ، تدبر اور عمل بالقرآن سے ہی ممکن ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے