پاکستانی سیاست کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ جب ایک جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے، تو اُس کا لب و لہجہ اور ہوتا ہے۔ اور جب وہی جماعت اقتدار کی مسند پر براجمان ہوجاتی ہے، تو اُس کا بیانیہ بدل جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ پی ڈی ایم (اپوزیشن)، پی ٹی آئی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنوں کا جال پھیلائے ہوئے تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، لہٰذا نئے انتخابات ناگزیر ہیں۔ شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات وقت کی آواز ہیں۔ لہٰذا ان کا انعقاد کیا جائے، تاکہ حقیقی نمائندے ملکی مسائل سے نبرد آزما ہوسکیں۔ کئی ماہ تک پی ڈی ایم کا یہی وطیرہ رہا، لیکن پی ٹی آئی حکومت نے ان کے مطالبے کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ اپوزیشن دہائی دیتی ر ہی، لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ اقتدار کی کرسی کو بھی بھلا کوئی چھوڑتا ہے؟
پھر 10 اپریل کو پی ٹی آئی حکومت عدمِ اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہوئی جب کہ پی ڈی ایم اقتدار کی مسند سے سرفراز ہوئی۔ ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا جس میں ’’رجیم چینج‘‘ کا سارا الزام مریکہ پر دھر دیا گیا۔ امریکی مداخلت کے خلاف پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کرکے سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ کر دیا، لیکن لانگ مارچ اور دھرنا پُرامن انداز میں اختتام پذیر ہوگئے اور یوں حکومت نے سکھ کا سانس لیا۔ اسلام آباد کے جلسے میں عمران خان نے ایک خط ہوا میں لہرایا اور اس پر امریکی سازشی تھیوری کی بنیاد رکھ دی، لیکن جلد ہی اس سازشی بیانیہ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کیوں کہ امریکہ کی ناراضی کسی کو سوٹ نہیں کرتی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو 10 اپریل کی عدمِ اعتماد کی تحر یک کا محرک بنایا گیا اور ان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ انھیں اپوزیشن کے ساتھ مل جانے کا طعنہ دیا گیا۔ فوج نے اپنے نیوٹرل ہونے کا جو تاثر ابھارا تھا، پی ٹی آئی نے اس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔انھیں ’’میر جعفر‘‘ اور ’’میر صادق‘‘ جیسے القابات سے نواز گیا، جس پر بھارت میں جشن منایا گیا۔ فوج پر بے سر و پا الزامات پر نئے آرمی چیف بڑے تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی حدود میں رہنے کا پیغام پہنچا رہے ہیں، جس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ اگرچہ فوج پر الزامات کی شدت میں کمی واقع ہوچکی ہے…… لیکن نفرتوں کی جو فضا تخلیق ہوچکی ہے، اسے دلوں سے کھرچ کر پھینک دینا اتنا آسان نہیں۔ سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف جذبات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ کل کے ’’محسن‘‘ آج کے ’’ولن‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ کل جن کے در پر سجدۂ سہو ادا کیا جاتا تھا، انہی پر آج طعنوں کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
اقتدار کا نشہ شے ہی ایسی ہے کہ اس میں دوستی، دشمنی میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ایک پیج پر ہونے والے اب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں، تو بات بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اقتدار میں کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پاکستان ایک سیکورٹی ریاست ہے۔ لہٰذا فوجی مداخلت ایک کھلی حقیقت ہے۔ کبھی یہ مارشل لا کی شکل میں ہوتی ہے اور کبھی حکومت کی تبدیلی کی شکل میں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی وزیرِ اعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ اسٹیبلشمنٹ جس کے سر پر دستِ شفقت رکھتی ہے، وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا، لیکن جس کے ساتھ ان کی اَن بن ہو جاتی ہے، وہ انھیں موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی فوجی جنتا کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتی تھی، لیکن پنجاب کے سیاست دان پی پی پی کو ہی برا بھلا کہتے تھے، لیکن اب 10 اپریل کے بعد فوج کے خلاف پی ٹی آئی نے جو طوفان کھڑا کیا ہوا ہے، اس پر کوئی سیاسی جماعت اس کی مذمت نہیں کرتی۔ لہٰذا فوج کے لیے اپنا دامن بچانا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔ ایک ہیجانی کیفیت ہے جس کا ہر کوئی شکار ہے۔ سیاست دان اب بھی اپنی ناؤ کو اسی مرکز سے توانائی مہیا کر رہے ہیں۔ پسِ پردہ رابطوں کا ایک سلسلہ جاری و ساری ہے، لیکن عوامی سطح پر فوج پر تنقید کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا، تاکہ مقبولیت کا بھرم قائم رہے۔
اب وہ نعرہ جو پی ڈی ایم کا تھا، وہی نعرہ پی ٹی آئی کا بیانیہ بن گیاہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ فوری انتخابات ہی مسائل کا واحد حل ہیں، لہٰذا ان کا انعقاد فوری کیا جائے، لیکن پی ڈی ایم ایسے کسی مطالبے کو ماننے پر آمادہ نہیں۔ وہ 17 اگست 2023ء سے قبل حکومت سے دست بردار نہیں ہونا چاہتی۔ وہ 16 ماہ کے اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتی ہے، جب کہ پی ٹی آئی اسے اس سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ حتمی فیصلہ تو وہی سے آنا ہے جس کا رونا پی ٹی آئی رو رہی ہے۔ وہ مائل بہ کرم ہو ں گے، تو الیکشن کی گتھی سلجھ جائے گی۔ اسی در پر سجدۂ سہو ہوگا، تو معاملات طے پائیں گے، وگرنہ دشت نوردی کا بوجھ اُٹھانا پڑے گا۔
ایک بات قابلِ غور ہے کہ جب سارے سیاست دان پاکستان کے استحکام اور اس کی ترقی کے نعروں کا ورد کرتے نہیں تھکتے، تو پھر ان میں بعد المشرقین کیوں ہے؟ دورِ اقتدار اور دورِ اپوزیشن میں جماعتوں کی زبان ایک کیوں نہیں ہوتی؟ اقتدار کا ہما سر پر بیٹھتے ہی سب کچھ کیوں بدل جاتا ہے؟ اگر اپوزیشن میں انتخابات ناگزیر تھے، تو اقتدار میں بھی ناگزیر ہونے چاہئیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا جس سے یہی متشرح ہوتا ہے کہ سیاست درحقیقت مفادات کا کھیل ہے جس کی خاطر عوامی خدمت کا جھوٹا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے۔
کئی ماہ سے یہی ایشو موضوعِ بحث بنا ہوا ہے کہ انتخابات کا انعقاد کب ہوگا؟ اپنے اس مطالبے کی خاطر پی ٹی آئی نے دو صوبائی اسمبلیوں (پنجاب اور کے پی کے) کی قر بانی دے دی، لیکن انتخابات کا کہیں دور دور تک نام و نشاں نہیں۔ اسمبلی کی تحلیل پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوئی ہے۔ اسمبلیوں کی تحلیل مارشل لائی ادوار میں ہوتی تھی یا پھر ’’58 ٹوبی‘‘ کے تحت صدر اور گورنرز اسمبلیاں تحلیل کرتے تھے۔ جمہور ی کلچر میں اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوتیں، لیکن اقتدار کی ہوس میں سب کچھ جائز قرار پا رہا ہے۔
دوسری طرف ملک پہلے ہی قرضوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ اس کا خزانہ خالی ہو تا جا رہا ہے۔ بے روزگاری اپنے جبڑے کھولے کھڑی ہے، لیکن سیاست دانوں کی اندرونی لڑائیا ں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ روز ایک نیا الزام منظرِ عام پر آتا ہے جس سے ملک کی سبکی ہوتی ہے۔ کسی کو اس بات کی فکرنہیں کہ ملکی معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ مفا ہمت اور باہمی مشاورت سے ہی ملک کو دلدل سے نکالا جا سکتا ہے، لیکن کوئی کسی کی بات کو وزن دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں اس انتظار میں ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے، تاکہ ان کی سیاست کو توانائی مل جائے۔ مہنگائی نے عوام کی جو درگت بنائی ہوئی ہے، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کی ساری جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں، تا کہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت (2008ء) میں آٹھ ہزار ارب قرضہ لیا تھا جب کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے (2013ء) میں 17 ہزار ارب کا قرضہ لیا تھا،لیکن جب پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی، تو اس نے قرضوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ 20 ہزار ارب سے زیادہ کے قرضے ان کے 4 سالہ دورِ اقتدار میں لیے گئے، جس سے ملک معاشی تباہی کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ جب تک ملکی سطح پر قرضوں کی اس رسم کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، ملک کا معاشی بدحالی سے نکلنا ممکن ہی نہیں۔
میثاقِ معیشت شائد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، لیکن کوئی بھی اس جانب قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی اپنی جگہ افلاطون بنا ہوا ہے۔ لہٰذا دوسروں کی بات پر کان نہیں دھرا جاتا۔ ملک ڈوب رہا ہے جب کہ کچھ سیاست دان اپنے اقتدار کی ہوس میں دبلے ہو رہے ہیں۔ اُن کی نظر میں اُن کا ذاتی اقتدار ملکی استحکام اور مضبوطی سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا وہ کسی کی نہیں سن رہے۔
اے کاش……! انھیں سمجھ آ جائے کہ ملک کے ساتھ ہی ہر چیز جڑی ہوئی ہے، اے کاش……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔