وہاڑی دراصل ’’وہاڑ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں نشیب یعنی نیچائی والا علاقہ۔ ضلع وہاڑی کے علاقے میں دریائے بیاس کو مقامی لوگ ’’ویاہ‘‘ کہتے تھے۔ جب بیاس سوکھ گیا، تو برساتی نالے کی گزرگاہ کے لیے بھی لفظ ’’ویاہ‘‘ استعمال ہونے لگا۔ چناں چہ برساتی نالوں کے قریب کئی بستیاں آباد ہوئیں، جو لفظ ’’ویاہ‘‘ کی نسبت سے ’’ویاڑی‘‘ اور پھر ہوتے ہوتے ’’وہاڑی‘‘ کہلائیں۔ اس نام کی کئی بستیاں مثلاً وہاڑی سموراں والی اور وہاڑی ملکاں والی وغیرہ آباد ہیں۔
حنیف زاہد کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/hanif/
وہاڑی دراصل ’’وہاڑی لُڑکیاں والی‘‘ نام کی ایک معمولی بستی تھی جو اس جگہ آباد تھی، جہاں آج کل اسلامیہ ہائی سکول واقع ہے۔ رفتہ رفتہ اس لمبے نام کا تخصیصی حصہ ’’لُڑکیاں والی‘‘ کثرتِ استعمال سے حذف ہوگیا اور اس پرانی بستی کی جگہ جو اَب ناپید ہو چکی ہے، نئی بستی صرف ’’وہاڑی‘‘ کہلائی۔ ابتداً وہاڑی میلسی میں شامل تھا۔ ماضی میں اس علاقہ کا تعلق ملتان سے رہا ہے۔
دیگر روایات کا بھی تحاریر میں ذکر ہے۔1976ء تک ضلع ملتان کا حصہ رہنے والا یہ شہر جسے یکم جولائی 1976ء کو ضلع کا درجہ ملا، تین تحصیلوں پہ مشتمل ہے:
٭ وہاڑی۔
٭ بورے والا۔
٭ میلسی۔
پورے پاکستان میں کپاس کی پیداوار کا سب سے بڑا ضلع جو چند سال پہلے ’’کاٹن کنگ ڈسٹرکٹ‘‘ کہلاتا تھا۔ اس ضلع کی شرقاً غرباً لمبائی 80 میل اور شمالاً جنوباً چوڑائی 40 میل بنتی ہے۔ اس کا کل رقبہ1854 مربع میل ہے۔
وہاڑی کی آباد کاری باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت 1924ء میں شروع ہوئی۔ اس سال پاک پتن نہر نکلی اور1925ء میں نیلی بار پراجیکٹ شروع ہوا۔ مسٹر ایف ڈبلیو ویس پہلے منتظم آبادی مقرر ہوئے۔ 1925ء میں یہاں لائن بچھائی گئی اور 1928ء میں منڈی کی تعمیر ہوئی۔ 1927ء میں اسے نوٹیفائیڈ ایریا قرا ر دیا گیا، پھر ٹان کمیٹی اور 1966ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ ایک سکیم کے تحت علاقے میں دس ایکڑ فی خاندان رقبہ الاٹ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ ضلع وہاڑی کے چکوک ڈبلیو بی 19، 21 اور 23، 1926ء میں اسی سکیم کے تحت وجودمیں آئے تھے۔ 1942ء میں وہاڑی کو تحصیل میلسی سے الگ کرکے تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔ 1963ء میں وہاڑی کو سب ڈویژن اور 1976ء میں اسے ضلع بنا دیا گیا۔ میلسی، بوریوالہ اور وہاڑی کو اس کی تحصیلیں اور ٹبہ سلطان اور گگو منڈی کو سب تحصیلوں کا درجہ دیا گیا۔دو دریاؤں کو ملانے والی ٹھینگی نہر بھی وہاڑی سے گزرتی ہے۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی کا 83 فی صد پنجابی ( اکثریت ماجھی لہجہ اور اقلیت رچناوی جھنگوچی بولتی ہے) میلسی اور وہاڑی کے کافی علاقوں میں سرائیکی بولی جاتی ہے جو کل آبادی کا 11 فی صد ہے۔ کل آبادی کا تقریباً 6 فی صد اُردو، ہریانوی، پشتو اور رانگڑی بولنے والوں کی ہے۔
ضلع وہاڑی میں تین تحصیلیں ہیں:
٭ بورے والا:۔ بورے والا جو برصغیر کے پہلے بزرگ ولی اللہ حضرت دیوان چاولی مشائخ کا مسکن ہے، جن کا مزار کھتوال ( نیا نام حاجی شیر ) میں ہے، یاد رہے کہ یہاں گرو نانک کی چلہ گاہ بھی ہے۔ چاہ فرید، بابا فرید الدین گنج شکر کی والدہ ماجدہ بی بی قرسم خاتون، والد محترم، دادا حضور قاضی شعیب رح، بھائی اعزازالدین محمود، والدہ ماجدہ حضرت علی احمد صابر پیا کلیر شریف (ہم شیرہ حضرت بابا فرید) کا مزار اور دیگر مزارات بھی یہیں ہیں۔ نشانِ حیدر کے حامل میجر طفیل شہید کا آبائی علاقہ، مشہور انڈین ایکٹر راجیش کھنہ کی جائے پیدایش، انٹرنیشنل ہاکی ایمپائر رانا ظفراللہ خان، اولمپین رانا احسان اللہ، وقار یونس، محمد زاہد اور محمد عرفان، محمد ندیم، ضیاء اللہ (فاسٹ باؤلرز)، سعید انور جونیئر، ماجد عنایت اور ضیا شموں کرکٹرز کا شہر ہے۔ اس زرخیز مٹی کے ڈھیروں اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، زرعی ماہرین ، کاریگر اور محنت کش ملکی سطح پر اور بیرونِ ملک خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ عوام اور ان سب کا حق ہے کہ اس کو ضلع بنا کر علاقہ کے لاکھوں افراد کی محرومیوں کو دور کریں۔ بورے والا شہر اور اس کے لاکھوں مکینوں کے ساتھ 1974ء سے لے کر آج تک زیادتی ہوتی آئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پنجاب کا 13واں بڑا اور پاکستان کا 38واں بڑا شہر ہے۔ ضلع وہاڑی کی سب سے بڑی تحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ اسے ’’سٹی آف ایجوکیشن اینڈ سپورٹس‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔ پنجاب کی واحد تحصیل ہے، جسے میونسپل کارپوریشن بنایا گیا ہے جب کہ ملتان ڈویژن کی واحد تحصیل ہے، جہاں پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا سب کیمپس قائم ہے۔ ملتان کے بعد سب سے بڑا اسٹیڈیم بھی اس تحصیل کا روشن باب ہے۔ زرعی آلات تیار کرنے کی سب سے بڑی صنعت بھی اس شہر کی پہچان ہے۔ سب سے بڑی غلہ منڈی بھی اسی تحصیل کا اعزاز ہے۔ یہ ملتان ڈویژن کی واحد تحصیل ہے، جہاں سب سے زیادہ ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔
٭ وہاڑی:۔ مردم شماری 2017ء کے مطابق ضلع وہاڑی کی کل آبادی 2897446 ہے۔ ضلع وہاڑی قومی اسمبلی کے 4 اور صوبائی اسمبلی کے 8 حلقوں پر مشتمل ہے۔ پنجاب کا شہر ضلع وہاڑی، ملتان سے 100 کلومیٹر جب کہ بورے والہ سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ضلع دو دریاؤں ستلج اور بیاس کے درمیان ہے۔ اس ضلع کا علاقہ دریائے ستلج کے بائیں اور بیاس کے دائیں کنارے کے درمیان ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ ’’نیلی بار‘‘ کہلاتا تھا۔ اس ضلع کی حدود جنوب کی طرف ضلع بہاولپور اور بہاولنگر سے ملتی ہیں۔ دریائے ستلج ان دونوں اضلاع کی حد بندی کا کام دیتا ہے۔ مشرقی طرف ضلع ساہیوال، شمال میں ضلع خانیوال اور شمال مغرب کی طرف ضلع ملتان واقع ہے۔ ماضیِ قدیم میں ہزاروں سال قبل اس علاقے میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں پھیلی ہوئی تھیں اور یہ علاقہ تاریخی ریاست ملوہہ کا حصہ تھا۔ اس زمانے میں دریائے بیاس اپنی پوری روانی کے ساتھ موجود تھا۔ وسطی پنجاب یعنی ہڑپہ اور ملتان کے علاقے میں دریائے بیاس سوکھ گیا۔ اس آبی گزرگاہ کو آج کل مقامی زبان میں سکھ ویاہ (خشک بیاس) کہتے ہیں۔ 1985ء سے اس میں تھوڑا تھوڑا پانی رواں رہتا ہے۔ دریائے بیاس کے خشک ہوجانے کے بعد ان کے کنارے بسی بسائی آبادیوں پر موت نے اپنے سائے پھیلا دیے۔ مختصر مختصر سی بستیاں، بڑے بڑے قصبے اور گاؤں کھنڈروں میں بدل گئے اور وہ بلند ٹیلوں کی صورت میں باقی رہ گئے۔ نہروں کے نکلنے کے بعد لوگوں نے ہزاروں برس پرانی بستیوں کے آثار کے حامل ٹیلوں کو ہم وار کر کے زراعت شروع کردی۔ اس طرح قدیم مقامات کا نام و نشان ہی مٹ گیا۔ ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والہ کا قصبہ کھتوال سب سے پُرانا اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ علاقہ محمد بن قاسم کی ملتان فتح کے وقت راجہ داہر کی حکومت کے ماتحت تھا۔ اکبر بادشاہ کے زمانے میں 1591ء میں ملتان، کہروڑپکا، جھنگ، شورکوٹ اور وہاڑی کے علاقوں کو ملا کر دوبارہ صوبہ ملتان بنایا گیا۔ اسی عرصے میں بادشاہ اکبر کے دور میں ستلج دریاکے دائیں کنارے کے علاقے پر جوئیہ خاندان کا راج تھا اور ان کا مرکز فتح پور (تحصیل میلسی) تھا۔ یہ قصبہ آج بھی قائم ہے۔ 1748ء سے 1752ء کے دوران میں معین الدین اور میر منو لاہور اور ملتان کے صوبیدار مقرر ہوئے۔ میر منو نے ایک چھوٹے درجہ کے ہندو کوڑا مل کو علاقہ ملتان کا کچھ مشرقی حصہ، جس میں وہاڑی، میلسی، کہروڑپکا، بہاول گڑھ اور دُنیا پور کے علاقے شامل تھے، پٹے پردے دیا۔ کوڑا مل نے بغاوت کی اور مہاراجہ کا لقب اختیار کرکے ان علاقوں پر حکم رانی کرنے لگا۔ بعد ازاں اس کے خلاف کارروائی کرکے اس کا اقتدار ختم کر دیا گیا۔ 18ویں صدی عیسوی کے آخری ربع میں نواب مظفر خاں والیِ ملتان کی حکومت قائم ہوئی۔ پاکستان کے مشہور جاگیردار اور سیاسی گھرانے دولتانہ کا تعلق بھی تحصیل وہاڑی کے علاقے لڈن سے ہے۔ قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان وسیم احمد، اولمپین سلیم شیروانی، اولمپین وقاص اکبر کا تعلق اس ضلع سے ہے۔
٭ میلسی:۔ میلسی کا شمار ملتان کے قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جس کا نام مورخین کے مطابق ’’ملہی‘‘ قوم کے نام سے اخذ کیا گیا ہے۔ ملہی قوم ملتان میں رہتی تھی۔320 قبل مسیح میں جب سکندرِ اعظم نے ملتان پر حملہ کیا، تو ملہی قوم کے بہت سے لوگ دریائے ستلج کے شمال میں آ کر آباد ہوگئے جہاں مَلہی قوم کے رہنے کی وجہ سے میلسی کہلانے لگا۔ محمد بن قاسم نے 712ء میں ملتان پر حملہ کیا، تو اس وقت میلسی بھی موجود تھا، لیکن یہاں پرتھوری راج کی حکومت تھی۔ شہاب الدین غوری نے 1292ء میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دی۔ اورنگ زیب عالم گیر کے عہد میں بننے والی ملک واہن اور جلہ جیم کی بادشاہی مسجد اور مزار خواجہ ابو بکر وراق کا مزار موجود ہیں۔ تقسیم سے پہلے میلسی کی آبادی تقریباً 20 ہزار نفوس پر مشتمل تھی جس میں 50 فی صد مسلمان، 30 فی صد ہندو اور 20 فی صد سکھ اور مسیحی آباد تھے۔ میلسی کا اسٹیشن 1929ء میں بنایا گیا۔ اسٹیشن کے ساتھ ایک ڈسپنسری بھی بنائی گئی جسے بعد میں ریلوے ہسپتال بنا دیا گیا
٭ تحصیل کا درجہ:۔ پہلی دفعہ میلسی کو تحصیل کا درجہ 1849ء میں ملا، تب یہ ضلع ملتان کا حصہ تھا۔ 1935ء میں میلسی کو سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا، لیکن سات سال بعد 1942ء میں درجہ کم کر کے دوبارہ تحصیل بنا دیا گیا۔ قیامِ پاکستان 1947ء کے بعد اسے بدستور ملتان ہی کی ایک تحصیل کا درجہ حاصل رہا۔ 1976ء میں جب وہاڑی کو ضلع کا درجہ دیا گیا، تو میلسی کو وہاڑی کی تحصیل بنا دیا گیا۔ تحصیل میلسی کے دیہی علاقہ کو 38 یونین کونسلز اور شہری حلقہ کو میونسپل کمیٹی کے 12 وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
٭ برادریاں:۔ میلسی میں مختلف برادریوں میں ’’جٹ جوئیہ‘‘، ’’آرائیں‘‘، ’’راج پوت‘‘، ’’کھچی‘‘، ’’بھٹی‘‘، ’’پٹھان‘‘ اور ’’سید‘‘ برادریوں کے لوگ آباد ہیں ۔ تقسیم کے بعد ہجرت کرنے والوں میں کرنال سے یوسف زئی میلسی آکر آباد ہوئے اور جلہ جیم میں رہایش پذیر ہوگئے۔
٭ جھنڈیر لائبریری:۔ میلسی کے موضع جھنڈیر میں بین الاقوامی جھنڈیر لائبریری کو ایشیا کی ساتویں بڑی لائبریری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
٭ میلسی سائفن:۔ میلسی کی مشہور نہریں ’’سندھنائی میلسی لنک کنال‘‘، ’’ڈھمکی کینال‘‘، ’’میلسی بہاول کنال‘‘، ’’کرم برانچ کنال‘‘ اور ’’پاک پتن کنال‘‘ ہیں۔ 1962ء میں دریائے ستلج کے مقام پر سائفن تعمیر کیا گیا، جہاں دریا اور نہر کے پانی کو الگ الگ گزارا جاتا ہے…… جو ایک تفریحی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔
٭ نمایاں شخصیات:۔ لوک ورثے پر کام کرنے اور انٹر نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے والے مشہور آرٹسٹ ’’سعید احمد انجم‘‘ کا تعلق بھی میلسی سے ہے۔انٹرمیڈیٹ کے سٹوڈنٹ احسن نواز جو انٹرنیشنل سائنس فیئر میں امریکہ میں دو بار پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں، ان کا تعلق بھی میلسی ہی سے ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مشہور نعت خواں خورشید بیگ اور مشہور شاعر عباس تابشؔ کا تعلق بھی میلسی سے ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔