انتخاب: احمد بلال
1973ء میں جاری کردہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ایک قانون ’’مارون ملر بمقابلہ ریاست کیلی فورنیا‘‘ (Miller v California) فن و ادب میں فحاشی کے موضوع پر ایک امتیازی شناخت رکھتا ہے۔ اِس قانون کا مرکزی نکتہ کچھ یوں تھا: ’’کوئی بھی ادبی یا فنی شہ پارہ اس وقت تک فحش قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ مجموعی طور پر وہ سنجیدہ ادبی، جمالیاتی، سیاسی یا سائنسی اقدار سے یکسر عاری ہے۔‘‘
انٹرنیٹ کے مقبول دائرۃ المعارف یعنی ’’وکی پیڈیا‘‘ پر اِس قانون کی تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔
اِس قانون کے اجرا سے قبل بے شمار ناشرین اور اشاعتی اداروں کو عدلیہ کے مقدمات کا اُس وقت سامنا کرنا پڑا، جب اُنھوں نے ایسے فن پاروں کی اشاعت عمل میں لائی جو آج بطورِ ادبی شاہکار تسلیم کیے جاتے ہیں۔
ذیل میں عالمی ادب کی اُن اولین دس مشہور کتب کا ایک عمومی جایزہ پیش ہے جن پر فحش ہونے یا شہوانی جذبات کو بھڑکانے کے الزامات عاید کیے گئے اور اُن پر یا اُن کے مصنفین پر مختلف عدالتوں میں مقدمے بھی قایم کیے گئے۔
٭ فینی ہل/ جان کلیولینڈ، 1749ء (Fanny Hill – John Cleland)
’’عورت کے لمحاتِ مسرت کی خودنوشت‘‘ (Memoirs of a Woman of Pleasure) کے عنوان سے برطانوی ناول نگار جان کلیولینڈ (1709ء تا 1789ء) نے 1748ء میں پسِ زِنداں جب خطوط کی شکل میں ایک 15 سالہ لڑکی ’’فینی‘‘ کی سوانح بطورِ ناول تحریر کی، تو شاید اُسے گمان نہیں تھا کہ ایک دن یہ ناول انگریزی ادب کا پہلا فحش شاہ کار قرار پائے گا۔
انگریزی ادب کی تاریخ کی یہ ایسی پہلی تحریر باور کی جاتی ہے جس کے ذریعے فحش نگاری ’’ناول‘‘ کی شکل میں پیش کی گئی۔ پھر یہ ناول قانون کی گرفت میں آیا اور آخرِکار یہ فحاشی کا مترادف تک قرار پایا۔
ادبی دنیا میں عام طور سے مشہور اِس ناول "’’فینی ہل‘‘ کو دو قسطوں میں شایع کیا گیا تھا، یعنی نومبر 1748ء اور پھر فروری 1749ء میں۔ اس کے ناشرین دو بھائی فینٹن گرفتھس اور رالف گرفتھس تھے۔ فوری طور پر تو کوئی حکومتی ردِ عمل سامنے نہیں آیا، لیکن ناول کی اشاعت کے تقریباً ایک سال بعد مصنف کلیو لینڈ اور ناشر رالف گرفتھس کو شاہی حکم پر حراست میں لے لیا گیا۔ الزام یہ عاید کیا گیا کہ انھوں نے بادشاہت کی شبیہ کو بگاڑنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
عدالت میں ناول سے دست برداری پر جان کلیو لینڈ بہرحال حکومتی سزا سے محفوظ رہے، لیکن چوں کہ اِس مقدمہ سے ناول کی تشہیر ہوچکی تھی…… لہٰذا، اُس کے جعلی ایڈیشن بازار میں پھیل گئے۔ حتیٰ کہ کہا گیا کہ ناول کے آخر میں موجود امردپرستی کا ایک منظر (جسے ناول کی مرکزی کردار فینی، تنفر کے عالم میں دیکھتی ہے) بطورِ اضافہ شامل کیا گیا…… لیکن 1985ء کے آکسفورڈ ایڈیشن میں پیٹر صبور نے تصدیق کی کہ یہ منظر ناول کے سب سے پہلے ایڈیشن میں بھی موجود رہا ہے۔
انیسویں صدی میں تو یہ ناول خفیہ طور پر کافی فروخت ہوا، لیکن 1963ء میں جب ایک اور متنازعہ ناول ’’لیڈی چیٹرلیز لوور‘‘ کا مقدمہ ناکام ہوا، تب اشاعتی ادارے نے فلاور بکس کے گیرتھ پاول نے جرات دکھاتے ہوئے ’’فینی ہل‘‘ کا غیر سنسر شدہ پیپر بیک ایڈیشن شایع کیا۔ اگرچہ اِس ناول کی کھلے عام اشاعت سے چند دن قبل ہی پولیس کو اس بابت علم ہو چکا تھا کہ اُس نے لندن میں رالف گولڈ کی جانب سے چلائی جانے والی کتابوں کی ایک دُکان پر اس کا اشتہار دیکھ لیا تھا۔ پھر ایک پولیس عہدے دار نے ناول کی ایک کاپی خریدی اور اُسے علاقے کے مجسٹریٹ ’’سر رابرٹ بلنڈل‘‘ کے ہاں پہنچا دیا، جنھوں نے دکان کی تلاشی کا وارنٹ جاری کیا۔
نتیجے میں دیگر پولیس عہدے دار وارد ہوئے اور دکان میں موجود171 کاپیوں کو ضبط کرتے ہوئے دکان مالک ’’رالف گولڈ‘‘ کو فحاشی ایکٹ سیکشن نمبر 3 کے تحت حراست میں لے لیا۔ حالاں کہ اُس وقت تک اس ناول کی 82 ہزار کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔
عجیب بات تو یہ رہی کہ ناول ’’فینی ہل‘‘ یا اشاعتی ادارے ’’مے فلاور‘‘ کی جگہ دکان مالک ’’رالف گولڈ‘‘ پر مقدمہ دایر کیا گیا۔ گو کہ مے فلاور نے ہی قانونی اخراجات ادا کیے تھے۔ مقدمہ 1964ء میں شروع ہوا۔
مدعا علیہ (فریقِ ثانی) کا کہنا تھا کہ یہ ناول عمومی جنسیت کی مثال ہے، جو واہیات تو ہو سکتی ہے، لیکن اسے فحش نہیں کہا جا سکتا…… مگر استغاثہ نے ناول کے بعض عبارتی حوالوں کے ساتھ مدعا علیہ کی بات کو غلط ثابت کرتے ہوئے مقدمہ میں فتح حاصل کی۔
’’مے فلاور‘‘ نے اپنی ناکامی پر کوئی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ اُس مقدمہ نے فحاشی کے قوانین اور معاشرتی حقایق کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کو نمایاں کرنے میں موثر کردار ادا کیا تھا۔ پھر 1970ء میں اس ناول کا ایک غیرسنسر شدہ ایڈیشن دوبارہ شایع کیا گیا۔
1821ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اس ناول پر شہوانی جذبات کے فروغ کے الزام میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ 1963ء میں پبلشر پوتنام نے اصل مصنف کے نام سے ’’عورت کے لمحاتِ مسرت کی خود نوشت‘‘ کو جیسے ہی شایع کیا، فوراً ہی اس پر پابندی عاید کر دی گئی، جسے ناشر نے عدالت میں چیلنج کر دیا۔
پھر 1966ء کے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں امریکہ کے سپریم کورٹ نے واضح کر دیا کہ یہ ناول روتھ کے قایم کردہ فحش نگاری کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔
اس کے بعد 1973ء میں ’’ملر ٹسٹ‘‘ نافذ العمل ہوا جس کے نتیجے میں ’’فینی ہل‘‘ پر عاید پابندی اٹھا لی گئی۔
کہا گیا کہ اگرچہ یہ ناول شہوت انگیزی میں دلچسپی رکھنے والوں کو زیادہ متوجہ کرتا ہے، لیکن کلی طور پر یہ ادبی یا فن کارانہ اقدار سے محروم نہیں۔ فنونِ لطیفہ کے مشہور تاریخ داں ’’جوہان ونکل مین‘‘ نے اپنے ایک خط میں ناول کی تحسین کرتے ہوئے لکھا کہ ’’نفیس احساسات اور اعلا خیالات اِس ناول میں ایک بلند پایہ قصیدے کی شکل میں بیان ہوئے ہیں۔‘‘
(کتاب ’’اثبات‘‘، ترجمہ اور تلخیص ’’مکرم نیاز‘‘)
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔