پاکستان دنیا کے اس اہم مقام پر واقع ہے کہ چاہے ہم اپنے آپ کو عالمی معاملات سے کتنا بھی الگ کرلیں، ہماری جغرافیائی پوزیشن اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم عالمی طاقتوں کے ’’گریٹ گیم‘‘ میں میں خاموش رہ سکیں۔ ہماری جیو اسٹریٹیجک پوزیشن ہمیں باقی ممالک سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہمسائے ممالک کا ماضی اس بات کا گواہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ہمیں نقصان ہی پہنچایا ہے۔ پاکستان جب 1947ء میں آزاد ہوا، تو کسی اور نے نہیں بلکہ ہمارے برادر اسلامی ملک افغانستان نے ہمارے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور بعد میں ’’پختون زلمی‘‘ اور ’’گریٹر پختونستان‘‘ کی سرپرستی کرکے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ میں اس دلیل کو نہیں مانتا کہ افغانستان پشتونوں کا مرکزی ملک ہے۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں افغانستان سے تقریباً دگنی تعداد میں پشتون آباد ہیں۔
جنوب مغربی جانب واقع ایک اور اسلامی برادر ملک ایران جس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا تھا، وہ بھی آج کل کلبھوشن یادیو کیس کی وجہ سے مشکوک ہو چکا ہے اور اس شک کی وجہ ایران کی بھارت کو گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار بندرگاہ تک رسائی دینا ہے جس کو چین اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو جو سب سے بڑا سیکورٹی چیلنج درپیش ہے وہ ہے بھارت۔ روزِ اوّل سے ہی بھارت نے کھلے دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کردہ ریاستوں جوناگڑھ، حیدرآباد اور بنگال و آسام کے بڑے حصے کو مکاری سے ہڑپ کرنے کے بعد کشمیر کو بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی، جس پر اب تک چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ کشمیری بہت جواں مردی اور جاں فشانی سے غاصب افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ بھارتی بندوقوں اور توپوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔ سلام ہے کشمیری ماؤں کو جو اتنے بہادر سپوت جنم دے رہے ہیں اور ان کی چھٹی نسل آزادی کی جنگ کو آگے بڑھا رہی ہے۔
بھارت ہمارے ملک میں کئی علیحدگی پسند تحریکوں اور دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی بھی کر رہا ہے جو ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال نے کھلم کھلا میڈیا کے سامنے تسلیم کیا ہے۔ کراچی میں گرفتار شدہ ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انہیں تخریب کاری کی ٹریننگ بھارت نے دی ہے اور بقول ان کے وہ بھارت جانے کیلئے طریقہ بھی بہت انوکھا اپناتے تھے۔ یہ لوگ مچھیروں کا روپ دھار کر بھارت کے سمندری حدود کو پار کرکے خود کو برائے نام گرفتار کروا دیتے تھے اور بعد ازاں ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد بھارت انہیں برائے نام انسانی ہمدردی کے نام پر پاکستان کے حوالے کردیتا تھا جو بعد میں یہاں تخریب کاری میں شامل ہوتے تھے۔
بھارت ہم سے کئی گنا بڑی طاقت ہونے کی وجہ سے پاکستانی خطے میں توازن قائم رکھنے کیلئے اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاعی اخراجات پر صرف کرتا ہے۔ پاکستانی افواج نے ہمیشہ بڑی دلیری کے ساتھ بھارتی فوج کا مقابلہ کیا ہے اور ایک ایک انچ کا دفاع اپنے خون کو بہا کر کیا ہے۔ پاکستانی فوج ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایک مضبوط اسلامی فوج ہے جو مغربی طاقتوں خصوصاً اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتی ہے۔ اسرائیل نے بڑی مکاری کے ساتھ اپنے دشمن عراقی، مصری اور شامی افواج کا صفایا کیا ہے جن سے اب اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسرائیل کو اب ایک ملک سے خطرہ محسوس ہورہا ہے اور وہ ہے پاکستان، جس کے سدباب کیلئے اسرائیل نے بھارتی گٹھ جوڑ سے پاکستان کو ہمیشہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن ہمیشہ اسے منھ کی کھانی پڑے ہے۔
ان چیلنجز کے پس منظر میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستانی فوج کا کردار ملکی دیگر معاملات میں ہمیشہ نمایاں رہے گا اور ہماری قوم کو اپنی فوج کے شانہ بشانہ ان چیلنجز سے مل کر نمٹنا ہوگا۔
کیوں کہ پوبولیلس سائرس کے بقول: ’’جہاں پر اتفاق ہوتا ہے، وہاں پر ہمیشہ جیت ہوتی ہے۔‘‘
……………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔