ہماری ماڈرن دنیا کے ماڈرن انسانوں کو اس بات کی فکر رہتی ہے کہ ان میں خود اعتمادی (Self-confidence) کی کمی ہے…… اور وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا جادوئی فارمولا شاید کہیں موجود ہے، جو ان سے چھپا ہوا ہے اور انھیں پرُاعتماد نہیں ہونے دے رہا…… اور بات بات پر ان کے جذبات کو ٹھیس بھی پہنچتی ہے۔ اس پر ایک امریکی سائیکالوجسٹ ڈاکٹر جونیتھن ہائیٹ نے ایک کتاب اور مضمون بھی لکھا ہے: (The Coddling of the American Mind)
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
مجھے اکثر لوگ میسج کرکے پوچھتے ہیں کہ میڈم آپ پُراعتماد ہونے کا کوئی طریقہ نہیں بتاتیں۔ ان کی یہ بات مجھے اپنی کم خوداعتمادی کی یاد دلاتی ہے۔ کسی وقت میں بھی اسی بات کا رونا روتی تھی…… لیکن مَیں نے اپنے ابھی تک کے سفر میں خود اعتمادی کے متعلق ایک عجیب سی لیکن بہت گہری بات معلوم کی…… اور جب مجھے اس بات کی سمجھ آئی، تو جیسے اعتماد سے متعلق ساری الجھنیں سلجھ گئیں۔
وہ انکشاف یہ تھا کہ کم خود اعتمادی (Low Self-confidence) نامی اس سکے کے دوسرے رُخ پر ایک احساس تھا اور اس احساس کو کہتے ہیں ’’حق داریت کا احساس‘‘ (Sense of Entitlement)…… لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے؟
اکثر لوگ کچھ ضروری کام یا پھر جس کام کا ان میں ٹیلنٹ ہو، وہ اس لیے نہیں کرتے، کیوں کہ انہیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ان پر تنقید نہ کردے۔ کہیں ان کی بے عزتی نہ ہوجائے، اور انھیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ کچھ ایسے آئیڈیل حالات ہوں جہاں کوئی عدم یقینی کی صورت حال (Uncertainty) نہ ہو، تب ہی وہ خود اعتمادی کو محسوس کر پائیں گے۔ اس سوچ کی بہت گہرائی میں حق داریت (Entitlement) کا احساس چھپا ہوتا ہے۔
یہ حق داریت کا احساس مَیں نے خود میں بھی پایا اور یہی وجہ ہے کہ مَیں تنقید کو برداشت نہیں کرپاتی تھی اور ایسا تب ہوتا ہے جب آپ بہت گہرائی میں خود کو تعریف کا حق دار سمجھتے ہیں (یہ احساس لاشعوری ہوتا ہے۔) مَیں اس بات سے متفق ہوں کہ ہر تنقید جایز نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ اپنا شیڈو یا اپنی سوچ آپ پر پروجیکٹ کرتے ہیں…… لیکن کیا ان چند لوگوں کی وجہ سے آپ وہ سب نہیں کریں گے جو آپ کو کرنا چاہیے؟
اس حق داریت کے احساس سے نمٹنے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑا…… اور کن عوامل نے میری مدد کی اپنی خود توقیری (Self-esteem) اور خود اعتمادی (Self-confidence) کو تھوڑا بہتر کرنے میں؟ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔
٭ فلسفہ اور حق داریت کا احساس:
مجھے اسٹائیسزم (Stoicism) کے فلسفے نے بہت کچھ سکھایا۔ اسٹائیسزم نے مجھے اس حق داریت والی فینٹسی یعنی کہ کوئی میرے خلاف نہیں بولے گا، مجھے کبھی زندگی میں شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور سب مجھے پسند کریں گے (یہ احساسات بہت گہرائی میں ہوتے ہیں)، کو توڑنے میں میری مدد کی۔
اسٹائک فلاسفر ایپکٹیٹس (Epictetus) زندگی کو ایک ڈنر پارٹی سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جہاں جو آپ کو اپنی پلیٹ میں ڈالنے کا موقع ملے، وہ لے لیں اور جو آپ کو نہ ملے یا جس ڈِش کو ویٹر آپ کے پاس سے گزار کر یا نظر انداز کرکے لے جائے، تو اُسے جانے دیں، اور یہی رویہ زندگی میں اپنے رشتوں اور باقی کے معاملات کے ساتھ رکھیں، تو یوں آپ اپنی زندگی کو کم تکلیف دہ پائیں گے۔
جو تنقید کررہا ہے اسے کرنے دیں، اور جو تعریف کررہا ہے، اُسے بھی قبول کریں (ہوسکے تو شکریہ ادا کریں)، کیوں کہ نہ آپ تعریف کے حق دار ہیں اور نہ کسی کی تنقید کو سننا یا اس پر عمل کرنا آپ پر واجب ہی ہے!
ایپکٹیٹس کا ایک قول اور بھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ فطری طور پر اچھے والد ہونے کے حق دار ہیں؟ آپ صرف والد کے ہونے حق دار ہیں۔
مجھے اسٹائیسزم نے اس حق داریت والے احساس کو پراسس کرنے میں مدد دی۔
بے سکونی کی فضا کب تک:
https://lafzuna.com/blog/s-30379/
٭ سائیکالوجی اور خود اعتمادی:۔
ہمارے دماغ میں ایک سسٹم ہوتا ہے جسے آر اے ایس (Reticular Activating System) کہتے ہیں۔ چوں کہ ہمارے دماغ کو سارا دن لاتعداد معلومات ملتی ہے اور اس سسٹم کا کام یہ ہے کہ یہ ہمارے دماغ میں غیر ضروری معلومات کو ضروری معلومات سے الگ کرتا ہے اور ضروری معلومات (ہماری نظر میں ضروری) پر ہماری توجہ لے کر جاتا ہے۔
مَیں اس سسٹم کو اگر سائیکالوجی کی رو سے بیان کروں، تو فرض کریں کہ آپ کے 100 دوست ہیں، جن میں سے 90 دوستوں نے آپ کی تعریف کی اور آپ کے کام کو سراہا…… لیکن 10 نے تنقید کی۔ اب اگر آپ کا آراے ایس سسٹم زیادہ تر منفی باتوں پر فوکس کرنے کا عادی ہے، کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ آپ کا بچپن یا زیادہ عرصہ ایسی جگہ گزرا ہو جہاں سخت تنقید اور منفی باتوں پر زیادہ دھیان رہتا ہو، یا آپ کسی ٹروما سے گزرے ہوں، تب آپ کا دماغ ان 90 دوستوں کی بجائے ان 10 دوستوں کی بات پر فوکس کرے گا، جنھوں نے تنقید کی اور انھی کے بارے میں سوچتا رہے گا۔
اور اکثر یہی وجہ ہوتی ہے کہ آپ منفی سوچوں کی طرف زیادہ مایل ہوتے ہیں۔ ویسے ریسرچ کے مطابق انسانی دماغ منفی سوچ اور منفی نتایج کی جانب زیادہ مایل ہوتا ہے۔ فطرتاً، کیوں کہ شاید جنگل میں منفی ہونا انسان کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ ورنہ پیچھے شیر کھڑا ہوتا ہمیں چبانے کے لیے، اور ہم مثبت سوچ کی آڑ میں اسے دوست سمجھ رہے ہوتے…… لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ زیادہ منفی ہونا بھی درست نہیں۔ کیوں کہ ماڈرن دنیا کے کاروبار ویسے بھی منفی خبروں پر چلتے ہیں، یہ جنگل نہیں ہے…… تبھی یہاں مثبت سوچ کا تناسب تھوڑا زیادہ ہونا ضروری ہے، تاکہ اگر آپ کسی پرچہ یا بزنس میں فیل ہوجائیں، تو منفی سوچوں میں رہ کر خود کو ساری زندگی کوستے نہ رہیں۔
تو جب بھی آپ کچھ ایسا کرنے لگیں، جب آپ کو معلوم ہے کہ تنقید ہوگی، شرمندگی، بے عزتی، فیل ہونا، یہ سب ہوسکتا ہے، تو اپنے آر اے ایس (RAS) سسٹم کو ٹریننگ دیں کہ اپنی ہمت کو بنائے رکھنے کے لیے ان 90دوستوں کی بات پر فوکس کریں اور ان 10 دوستوں کی تنقید سے اگر تو کچھ سیکھا نہیں جاسکتا، تو اسے نظر انداز کردینا بہتر ہے۔ یہ سب پریکٹس سے آتا ہے۔
لیکن یاد رکھیے کہ آپ کی زندگی میں موجود سب لوگ آپ کو پسند نہیں کریں گے۔ آپ کو مخالف خیالات کو سننے کی ہمت لانی ہوگی۔ آپ صرف تعریفوں کے حق دار نہیں!
اس لیے جب تک آپ اپنی اس چھپی ہوئی چاہ (Desire) کو ختم نہ کردیں کہ آپ کو تنقید یا ناپسند ہونے کا سامنا ہمیشہ رہے گا، تب تک اعتماد کا بحال ہونا مشکل ہوگا۔
گورنر راج کی قانونی حیثیت:
https://lafzuna.com/blog/s-30251/
٭ انا (Ego):۔
ضروری نہیں کہ انا صرف اُن لوگوں کی بڑی ہوتی ہے جو بظاہر مغرور یا نارساسسٹ دکھتے ہیں۔ ایک انا اور بھی ہوتی ہے…… چھپی ہوئی/ کم واضح انا (Subtle Ego)، جو اکثر ان لوگوں میں ہوتی ہے جو خود کو ہر وقت مظلوم (Victim) بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ حق دار ہیں کہ ان کے ساتھ اچھے سے پیش آیا جائے ، جب پوری دنیا مثبت اور اچھی ہوجائے گی، تبھی وہ اپنی زندگی بہتر کرپائیں گے!
یہ ایک فینٹسی ہے جس میں ایک عرصہ میں خود بھی رہی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کچھ بھی کرلیں لیکن کوئی نہ کوئی ایسا ہوگا جو ہمیشہ آپ کے خلاف ہوگا، اور یہی تو ہماری اس دہری (Dual) دنیا کا اصل حسن ہے!
(نوٹ:۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کی کم خود اعتمادی کی وجوہات کچھ اور ہوں…… بہت ممکن ہے کہ جو مَیں نے لکھا وہ آپ کے لیے درست نہ ہو۔)
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
