ایک زمانہ تھا کہ جنگیں فتح اور بالادستی کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ طاقت ور، کم زور پر غالب آ جاتا تھا، لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے روایتی جنگوں کا تصور یک سر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب وہی ملک بالادست اور طاقت ور ہیں جن کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی قوت ہے۔ جو ملک قدرتی وسایل سے مالامال ہیں، وہ بھی ان ممالک کے مرہونِ منت ہیں جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی یافتہ ہیں۔ دنیا کے جن ملکوں میں تیل کے ذخایر یا سونے کی کانیں ہیں، یا وہاں قیمتی معدنیات کی دولت ہے، انھیں بھی اپنے ان خزانوں کے حصول کے لیے جدید ٹیکنالوجی رکھنے والے ملکوں اور کمپنیز کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے، اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی رکھنے والے ملک اپنے مفادات اور لالچ کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ ان قدرتی وسایل پر قابض ہوسکیں۔ ان طاقتوں نے عراق اور لیبیا میں تیل کے قدرتی ذخایر پر اپنی بالادستی کے لیے جو کچھ کیا، وہ سب کے سامنے ہے، یا مشرق وسطیٰ میں سازشوں کا جو جال بچھایا گیا ہے، اس سے پوری دنیا باخبر ہے۔
کہتے ہیں کہ پرائی آگ کی حدت کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ آگ اپنے گھر میں لگتی ہے۔ مغربی طاقتوں نے امریکہ کی قیادت میں جو آگ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں لگائی تھی، اب یہی آگ یوکرین میں بھڑکی ہے، تو اس کی حدت اور شدت سے برطانیہ سمیت یورپ کا ہر خوش حال ملک جھلسنے لگا ہے۔ جس طرح امریکہ اور برطانیہ کو عراق میں انسانوں کی تباہی والے خطرناک ہتھیاروں کی وجہ سے صدام حسین کا خاتمہ کرنا پڑا اور ایک پُرامن ملک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ اسی طرح روسی صدر پیوٹن کو یوکرین میں نیٹو فورسز کی رسائی ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے 24 فروری 2022ء کو یورپ کے دوسرے بڑے ملک پر دھاوا بول دیا۔ یوکرین پر اس روسی یلغار کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنا شہر اور ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی تباہی پر طرح طرح کے جواز بنانے اور انتہا پسندی کا خوف دلانے والا مغربی میڈیا اب یوکرین پر روس کے حملے سے تلملا رہا ہے اور خاص طور پر روسی صدر نے جب سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ہے، تو یوں لگتا ہے کہ امریکہ کے حامی یورپی ملکوں کو سانپ سونگھ گیا ہے اور ہر ایک کو اپنی بقا اور تحفظ کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ اسی لیے ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ویسے تو روس کے بعد یورپ کا سب سے بڑا ملک یوکرین ہے، لیکن اس ملک پر دوسری جنگی جارحیت سے پہلے برطانیہ کے لوگوں کی اکثریت کو معلوم نہیں تھا کہ یونائیٹڈ کنگڈم کی کون کون سی اقتصادی ضرورتیں اس ملک سے وابستہ ہیں؟ برطانیہ نے 2021ء میں یوکرین سے 830 ملین پاؤنڈ کی اشیا امپورٹ کیں جن میں گندم، مکئی، چاول اور نباتاتی تیل سے لے کر لکڑی، چمڑے، قدرتی گیس، لوہے اور دیگر دھاتوں کی مصنوعات شامل ہیں۔ اب برطانیہ کو یوکرین میں جنگ کی وجہ سے بہت سے اقتصادی مسایل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ سے پہلے یوکرین کی سالانہ ایکسپورٹ کا حجم 68.2 بلین ڈالر تھا۔ یہ ملک چین، پولینڈ، ترکی، جرمنی، انڈیا، اٹلی اور ہالینڈ کے علاوہ روس سمیت دیگر کئی ممالک کو اپنی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا تھا، جن میں خام لوہا، معدنیات اور کھانے پینے کی مصنوعات شامل ہیں، جب کہ یوکرین کی سالانہ امپورٹ کا تخمینہ 54.1 بلین تھا۔ یوکرین کے ہمسایہ ممالک میں بیلا روس، مالڈووا، پولینڈ، رومانیہ، ہنگری اور سلواکیا شامل ہیں اور اس کی سب سے بڑی سرحد روس سے ملحق ہے جب کہ یوکرین کا ساحلی حصہ بحیرۂ اسود یعنی ’’بلیک سی‘‘ سے ملتا ہے۔
یوکرین کی کل آبادی جنگ سے پہلے تقریباً سوا چار کروڑ تھی اور اس کا کل رقبہ 2 لاکھ 33 ہزار مربع میل سے کچھ زیادہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ کئی صدیاں پہلے تک یہ پولینڈ کے زیرِ تسلط رہا جس کے بعد یہ سوویت یونین کا حصہ بنا۔ 1991ء میں اس نے روس سے آزادی حاصل کی۔ روس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ یوکرین یورپی اور نیٹو کے تسلط کی بجائے اس کے زیرِ اثر رہے۔ روس نہیں چاہتا کہ نیٹو فورسز یوکرین کو اپنا حلیف بنا کر اس کی سرحدوں تک آ پہنچیں۔ اسی لیے یوکرین بالآخر روسی جارحیت کی لپیٹ میں آگیا۔ انگریزی کہاوت ہے کہ "ATTACK IS THE BEST DEFENCE.” اسی وجہ سے روس کو یہ جارحانہ اقدام اٹھانا پڑا۔
یوکرین پر حملے سے پہلے لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ملک یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ فرانس، سپین، سویڈن، ناروے اور جرمنی بالترتیب اس کے بعد رقبے کے اعتبار سے یورپ کے بڑے ملک ہیں۔ جنگی اور دفاعی تجزیہ کاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اگر یوکرین ایٹمی قوت ہوتا، تو روس کبھی اس پر حملے کی جرات نہ کرسکتا اور جب یوکرین کے دفاع کے لیے مغربی طاقتوں اور نیٹو نے ردِ عمل کا اظہار کیا، تو روس نے ایٹمی قوت کے استعمال کا عندیہ دیا جس کے بعد سے اب تک یوکرین کے تمام حمایتی اور یورپی ملک صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں اور محض زبانی جمع خرچ سے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یوکرین پر حملے کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں سب سے بڑی جنگی جارحیت قرار دیا جا رہا ہے۔ حالات نے اس اٹل حقیقت کو ثابت کر دیا ہے کہ جو ممالک بھی اس وقت ایٹمی قوت اور جوہری صلاحیت رکھتے ہیں، ان پر جنگ مسلط کرنے سے پہلے عالمی طاقتوں کو ہزار بار سوچنا پڑتا ہے۔ روس اگر ایٹمی قوت نہ ہوتا، تو امریکہ اور اس کے اتحادی اس کا وہی حشر کرتے جو انھوں نے عراق، لیبیا، شام، افغانستان، ویت نام اور جاپان کا کیا تھا۔
ایٹمی قوت رکھنے والے ملکوں میں روس اور امریکہ کے علاوہ چین، فرانس، برطانیہ، پاکستان، انڈیا، اسرائیل اور نارتھ کوریا شامل ہیں۔ ان ملکوں نے اپنے ایٹمی تجربات سے دنیا کو یہ باور کروا دیا ہے کہ اب ان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوچکا ہے۔ ویسے تو ایران سمیت دیگر کئی اور ممالک بھی جوہری صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن انھوں نے تاحال ایٹمی تجربات کا رسک نہیں لیا۔
پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا خاص طور پر امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اگر ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک نہ ہوتا، تو کب کا امریکی جارحیت کا نشانہ بن چکا ہوتا اور بھارت بھی پاکستان کو اپنے جنگی عزایم کی بھینٹ چڑھانے میں دیر نہ لگاتا۔ ہمیں اپنے ان تمام سائنس دانوں اور سیاست دانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود جوہری صلاحیت حاصل کی اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ایٹمی تجربات کر کے اپنی دفاعی اہلیت کا ثبوت دیا۔
موجودہ حالات میں آج کا پاکستان جن مشکلات اور مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ملک کا ایٹمی قوت ہونا بھی ہے۔ ہماری یہی ایٹمی صلاحیت اس خطے میں امریکہ یا بھارت کی بالادستی کی خواہش کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے بار بار یہ پراپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور جوہری صلاحیت محفوظ ہاتھوں میں نہیں، یا کل کو پاکستان کا جوہری اثاثہ انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ حالاں کہ جو لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں، انھیں پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت اور آئی ایس آئی کی اہلیت اور قابلیت کا پوری طرح اندازہ ہے۔ جب تک پاکستان کا ایٹمی پروگرام پاک فوج کی نگرانی میں ہے، اس وقت تک نہ صرف بالکل محفوظ ہے، بلکہ پاکستان کا کوئی بھی دشمن اسے میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی ہر ممکن کوشش رہی کہ پاکستان کو کم زور کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جائے جس سے پاکستان اقتصادی اور معاشی طور پر عالمی مالیاتی اداروں کا مرہونِ منت رہے اور دیوالیہ ہونے کے بعد اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور ہو جائے اور پھر اس کا بھی وہی حشر ہو جو آج یورپ کے دوسرے بڑے ملک یوکرین کا ہو رہا ہے۔ خالقِ کائنات پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔