واجب الاحترام جناب امام مسجد صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
بہت سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ مساجد میں ہر جمعہ کو خطبہ ہوتاہے۔ اُس میں محلہ کے بزرگ، جوان اور بچے بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں لیکن علمائے کرام کی وعظ و نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ معاشرہ میں بگاڑ کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
مَیں ذاتی طور پر ابلاغ یعنی تبلیغ اور بات پہنچانے کے علم "Mass Communication” سے وابستہ ہوں۔ ابلاغیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مَیں نے کچھ نِکات نوٹ کیے ہیں۔ اگر آپ توجہ فرمائیں، تو خطباتِ جمعہ کا اثر بھی بڑھ جائے گا، اور آپ کو اپنے فرایض کی ادائی میں آسانی بھی ہوگی۔
میرے خیال میں منبرِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بیٹھ کر بات کرنے کے لیے تین چیزیں بہت ضروری ہیں:
٭ علم۔
٭ عجز۔
٭ ابلاغ۔
ایک علمی گفتگو تیاری کے بغیربہت مشکل ہے۔ جب آپ منبر پر بیٹھ جائیں، تو یہ نہ سوچیں کہ آپ گھوڑے پر بیٹھے ہیں اور میدانِ جنگ میں سپاہیوں کو ہدایات دے رہے ہیں۔ آپ ایک معلم کی طرح منبر پر بیٹھیں۔ معلم اپنے درس کے لیے پہلے سے کچھ تیاری کرچکا ہوتا ہے۔ اگر کاغذپر نوٹس لینے میں کوئی دشواری ہو، تو ذہن بنا کر رکھیں کہ اگلے جمعہ کو آپ نے خطبہ میں کیا کہنا ہے۔ آپ کے ذہن میں خطبہ کا واضح موضوع اور ترتیب ہونی چاہیے۔ موضوع سے متعلق ایک دو قرآنی آیات، ایک دو احادیث، ایک آدھ کہانی اور مقامی زبان کے چند اشعار ضرور شامل رکھیں۔ آخر میں اپنی گفت گو کو حالاتِ حاضرہ پر منطبق کریں۔ گن گرج اور شعلہ بیانی سے گریز کریں۔ لوگوں کو سمجھانا مقصد ہونا چاہیے، تقریر کے جوہر دکھانا نہیں۔
ابلاغ میں آواز کی سطح کی پستی اور بلندی کی بہت اہمیت ہے۔ آپ کے سامنے جتنے لوگ بیٹھے ہیں، لاؤڈ سپیکر کی آواز ان کے مطابق ہونی چاہیے۔ مَیں نے مساجد میں کم آواز تو نہیں سنی، اکثر ضرورت سے زیادہ بلند آواز ہوتی ہے۔ یہ سماعت پر گراں گزرتی ہے، لیکن کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ کَہ سکے کہ آواز بہت بلند ہے، اور اس کو ذرا پست ہونا چاہیے۔ اس لیے آپ خود لوگوں اور مجلس کی ضرورت کے مطابق اپنی آواز کو بلند یا پست رکھا کریں۔
مفہومِ حدیث ہے کہ ’’چہرے پر تبسم صدقہ ہے۔‘‘ جب آپ منبر پر تقریر شروع کریں، تو تبسم کے ساتھ بات کریں۔ اس سے ماحول میں تناو کم ہوتا ہے اور لوگ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ تقریر میں مواد، روانی سے زیادہ ضروری ہے۔ روانی کے شوق میں اکثر منھ سے غیر مستند بات نکل جاتی ہے۔ اس لیے ٹھہر ٹھہر کر بات کریں۔ لاتعلق ہوکر اور آنکھیں بند کرکے تقریر نہ کریں، بلکہ حاضرین کی آنکھوں میں دیکھیں۔ کبھی صفِ اول کے حاظرین کی آنکھوں میں، کبھی صفِ آخر، کبھی دائیں، کبھی بائیں۔ اس طرح حاضرین متوجہ رہتے ہیں۔
وقت کی پابندی بہت ضروری ہے۔ اگر نمازِ جمعہ کا وقت ڈیڑھ بجے مقرر ہے، تو تقریر دس منٹ پہلے ختم کریں، تاکہ نماز اپنے وقت پر شروع ہو۔ آپ وقت کی پابندی کریں گے، تو مقتدی بھی وقت کی پابندی شروع کریں گے۔
اگر ممکن ہو، تو مہینے میں کم ازکم ایک بار، اور بہتر ہے کہ دو بار دوسری مساجدکے آئمہ کو تقریر کے لئے بلائیں۔ اکثر مقتدی ایک امام کی تقریریں سُن سُن کر اُکتا جاتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ چل پڑا، تو دوسری مساجد کے امام بھی آپ کو بلائیں گے۔ اس طرح آپ کو بھی اُکتاہٹ نہیں ہوگی اور مقتدیوں کو بھی یکسانیت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کبھی کوئی اچھی کتاب پڑھ لی، تو اس کا خلاصہ بھی خطبۂ جمعہ کا موضوع ہوسکتا ہے۔ صدرِپاکستان نے 100 موضوعات کی ایک فہرست جاری کی ہے۔ اس سے فایدہ اٹھانے میں بھی کوئی برائی نہیں۔ کوشش کریں کہ فضایل، مشترکات اور مثبت موضوعات پر گفت گو کریں۔ منفی موضوعات سے اجتناب کریں۔
اکثر مساجد میں امام کی معاونت کے لیے دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ایک نماز موذن سے پڑھوائیں، ایک نماز اپنے شاگردِ خاص سے اور ایک کسی اور سے۔ اس طرح دوسروں کی تربیت ہوگی، آپ کے لیے آسانی ہوگی اور مقتدی بھی یکسانیت سے بچ جائیں گے۔
اگر آپ مسجد میں امامت کے ساتھ درسِ حدیث، درسِ قرآن اور مسایل بھی بیان کرتے ہیں، تو سارا کام خود نہ کریں۔ کبھی کبھار درسِ حدیث سینئر طالب علم سے دلوایا کریں۔ چندے کے اعلان کے لیے نمازیوں میں مختلف لوگوں کو موقع دیں۔ ان کو تیار کریں کہ مسجد کی ضروریات کیسے بیان کرنی ہیں اور کس طرح سے چندہ کی اپیل کرنی ہے؟
مسجد صرف جائے نماز نہیں۔ یہ مسلمانوں کا سماجی مرکز ہے۔ آپ کرسکتے ہیں کہ مسجد میں غریب بچوں کے لیے ٹیوشن کا اہتمام کریں۔ محلے کے غربا کی فہرست بنا کر رکھیں۔اہلِ ثروت کو الگ بٹھا کر کچھ غریب بچوں کی تعلیم کی ذمے داری اٹھانے پر مایل کریں۔
اگر آپ کی رہایش مسجد میں ہے، تو لوگوں کے گھریلوجھگڑے نمٹانے کا بھی انتظام ہوسکتا ہے۔کچھ ڈاکٹروں، کچھ پروفیسروں، کچھ اہلِ علم کومسجدکے کاؤنسلر بنائیں۔ وہ لوگوں کے تعلیمی، معاشی، طبی یا ازدواجی مسایل کو سنیں۔ بعض اوقات صرف سننے سے بھی لوگوں کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے اور مسایل کے حل کا راستہ نکل آتاہے۔
اپنے لباس کا خاص خیال رکھیں۔ تین تین رومالوں سے سر یا منھ ڈھانپنا، قمیص کے اوپر سویٹر، اس کے اوپر واسکٹ اس کے اوپر چغہ اور اوپر سے چادر…… یہ بالکل نامناسب لباس ہے۔ صاف ستھرا، موسم اور فیشن کے مطابق لباس پہنیں۔
معاشرے میں مسجد اور امامِ مسجد کا کردار بہت اہم، متنوع اور بہت موثر ہے…… لیکن اس مختصر سے مضمون میں پوری بات بیان کرنا ممکن نہیں۔
اس طرح اگر میری کوئی بات حدِ ادب سے باہر ہو، تو میں دل سے معافی کا طلب گار ہوں۔ آپ کا مقام مجھ سے بہت اونچا ہے۔ مَیں نے صرف ایک سایل اور طالب علم کی حیثیت سے اپنی ناقص سوچ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
شکریہ والسلام!
احسان حقانی
اسلام آباد۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔